شہر کی روشنیوں سے دور، صاف موسم میں اماوس کی رات کو تاروں بھرا آسمان آج ایک مسحورکن نظارہ ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد فضائی آلودگی اور مصنعوعی روشنیوں نے آبادی کے قریب دودھیا کہکشاں کا یہ نظارہ ختم کر دیا ہے لیکن یہ آسمان انسان ہمیشہ سے دیکھتا آیا ہے اور بغیر ٹیلی سکوپ کے دیکھتا آیا ہے۔ دیکھنے سے لگتا ہے کہ ان گنت ستارے ہیں لیکن اگر زمین کے شمالی کرے سے اگر دیکھا جائے تو پانچ ہزار جبکہ جنوبی کرے سے چار ہزار ستارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے جن ستاروں کو باقاعدہ نام ملے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بطلیموس نے دوسری صدی میں پہلی بار ایک ہزار ستاروں کی فہرست بنائی۔ عرب آسٹرونومرز نے آٹھویں اور نویں صدی میں اس کام کو آگے بڑھایا۔ جب ان کے تراجم واپس یورپ میں ہوئے تو ایک بار پھر یہ ترجمہ ہو گئے۔ راس الغول، الگول ہو گیا۔ بیت الجوزاء، بیٹل جوس بن گیا۔ ذنب الدجاجہ، ڈینب ستار۔ 2017 میں انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین نے ستاروں کے ناموں پر ایک کیٹیلاگ جاری کی جن میں 330 ستاروں کے باقاعدہ نام ہیں۔ ان میں سے اکثر نام عرب ماہرینِ فلکیات کے دئے گئے ہیں۔ اس لئے “ال” کا سابقہ بہت سے ناموں میں ہے۔ جیسا کہ الگول، الٹیر، الکور، الڈیبران، النیٹاق، الفارڈ (الکوحل، الکلی، الجبرا کی طرح)۔
ہزاروں سال تک ان ستاروں کی فہرست اتنی ہی رہی۔ یہاں تک کہ ٹائیکو براہے کے تفصیلی سروے میں بھی صرف 1004 ستارے ہی موجود ہیں، پھر ٹیلی سکوپ آ گئے اور ان کی فہرست میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ 1725 میں جان کلین کی طرف سے تین ہزار، 1903 میں بون رصدگاہ کی طرف سے نو لاکھ۔ اسی کی دہائی میں ہبل کی راہنمائی کیلئے ڈیڑھ کروڑ اور اس برس گایا کی طرف سے ایک ارب ستر کروڑ ستاروں کو چارٹ کیا جا چکا ہے اور یہ بھی ہماری کہکشاں کے ستاروں کا ایک چھوٹا فریکشن ہے۔ دوسری کہکشاوٗں کے ستارے پھر اس کے علاوہ ہیں۔
فلکیاتی اجسام کو اب عام طور پر نام نہیں دئے جاتے۔ 330 کی فہرست جو منظور شدہ ناموں کی ہے، اس میں سے صرف تیس ستارے ایسے ہیں جن کو ٹیلی سکوپ کے بعد دیکھا گیا۔ جب تک کسی ستارے میں کوئی غیرمعمولی بات نہ ہو، وہ نام کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ مثال کے طور پر پروگزیما سنٹوری کو نام اس وجہ سے ملا کہ وہ زمین سے قریب ترین ہے۔ میرا کو اٹھارہویں صدی میں اس وجہ سے کہ وہ پہلا ویری ایبل ستارہ تھا۔ کل ملا کر صرف چار ستارے ایسے ہیں جن کو اصل انسانوں کے نام دئے گئے ہیں۔ کروینٹس اور کوپرنیکس، جو 2014 میں دئے گئے (جو پبلسٹی سٹنٹ کہا جا سکتا ہے)۔ ایک شاہ چارلس کے نام پر ہے جبکہ صرف اس پورے آسمان پر صرف ایک ستارہ ایسا ہے جس کا نام کسی ایسے شخص کے نام پر ہے جس کا تعلق اس ستارے سے ہے۔ یہ ستارہ برنارڈ سٹار ہے۔ برنارڈ نے اس کو دریافت نہیں کیا لیکن یہ معلوم کیا کہ یہ ستارہ اتنا منفرد کیوں ہے۔
برنارڈ انتہائی باریک بین سے آسمان کا مشاہدہ کرنے والے ماہرِ فلکیات تھے اور تیز نگاہ کی وجہ سے مشہور تھے۔ اپنی بنائی ٹیلی سکوپ سے کومٹ ڈھونڈنے پر پانچ بار انعام جیتا۔ وان ڈر بلٹ یونیورسٹی کی رصدگاہ سے بیٹا کیپری کورن کا ساتھی تلاش کیا۔ 1892 میںلک کی رصدگاہ سے مشتری کا پانچواں چاند املتھیا جو آنکھ کی مدد سے کسی سیٹلائیٹ کی آخری دریافت ہے۔ (اس کے بعد ہونے والی دریافتیں کیمروں کی مدد سے ہوئی ہیں)۔ 1916 میں شکاگو کی رصدگاہ میں لی گئی کئی برسوں کی تصاویر میں برنارڈ نے ایک عجیب چیز دیکھی۔ بہت سی چیزیں دیکھ کر ایک ستارہ پہنچانا جو اپنی جگہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ یہ تو ہمیں سینکڑوں سال سے پتہ تھا کہ ہر ستارے کا اپنا پراپر موشن ہوتا ہے جو ہمارے سورج سے فرق ہے اور اس وجہ سے نظر آنے والا آسمان آہستہ آہستہ اپنی شکل بدل رہا ہے (زمین کائنات کا مرکز نہیں، اس حقیقت کا ہمیں اسی طرح سے پتہ لگا تھا)۔ مگر اس ستارے کی حرکت کی رفتار غیرمعمولی تھی۔ پچھلے سو برس میں بھی ہمیں کسی اور ستارے کا علم نہیں ہوا جس کی حرکت سورج کے مقابلے میں اس قدر تیزرفتار ہو۔ یہ ستارہ صرف چھ نوری سال دور ہے اور الفا سنٹوری کے تین ستاروں کے بعد سورج سے سب سے قریب ستارہ ہے اور گیارہ ہزار سال بعد یہ زمین کا سب سے قریب ستارہ بن جائے گا جب یہ صرف پونے چار نوری سال کے فاصلے پر آ جائے گا۔ اس کی ہماری کہکشاں میں رفتار سورج کے مقابلے میں ایک سو دس کلومیٹر فی سیکنڈ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آوارہ ہے اور اس کہکشاں کا شہری نہیں،۔ یہ ایک ہیلو سٹار ہے۔ ہماری کہکشاں پچھلے بارہ ارب سال میں اپنے پڑوس کی کچھ کہکشاوٗں کو نگل چکی ہے۔ یہ ان میں سے ہے۔ اس کا روٹیشن پیرئیڈ سست ہے۔ ہمارے سورج کی محوری گردش کا چکر پچیس روز کا ہے۔ جس طرح سورج توانائی خارج کرتا ہے، اس کا گردشی مومنٹم بھی انتئہائی معمولی سا کم ہوتا ہے۔ اس کی محوری گردش اب ایک سو تیس روز کی ہے۔ برنارڈ سٹار میں دھاتی عناصر بھی بہت کم ہیں۔ ان سب سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک قدیم ستارہ ہے۔ شاید بارہ ارب سال کی عمر کا۔ یعنی ہمارے سورج سے تقریبا تین گنا عمر والا اور ہماری کہکشاں کی عمر جتنا۔ یہ اتنے عرصے سے زندہ اس لئے ہے کہ یہ سرخ بونا ہے۔ چھوٹی مدہم روشنی والا جو اتنا آہستہ جلتا ہے کہ ابھی تک باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا قریب ہونے کے باوجود جدید ٹیلی سکوپ اور برنارڈ کی تیزنگاہ ہی اس کو نوٹس کر پائے۔ (پھر بھی یہ اپنے زیادہ مشہور کزن پروگزیما سنٹوری سے دس گنا زیادہ چمک اور تیس فیصد زیادہ سائز رکھتا ہے)۔ سرخ بونے اونچے فلئیر خارج کرتے ہیں لیکن برنارڈ اپنی زیادہ عمر کی وجہ سے دھیمے مزاج کا ہو چکا ہے۔ (1998 میں اس کے ایک فلئیر نے بتایا تھا کہ اگرچہ اب ٹھنڈے مزاج کا ہے لیکن شاید نوجوانی میں گرمجوشی دکھایا کرتا ہو)۔
ساٹھ کی دہائی میں شک گزرا تھا کہ سورج کے علاوہ یہ پہلا ستارہ ہے جس کا سیارہ ہو لیکن وہ انسٹرومنٹ کی غلطی تھی جو دوسری پکڑی گئی۔ 2012 میں کیک آبزرویٹری اور لک آبزرویٹری کے پچیس سال کے مشاہداتی ڈیٹا سے ہمیں پتہ لگا کہ اس کے گرد کوئی گیس جائنٹ تو نہیں ہے لیکن کس قسم کے سیارے اس کے گرد ہونا ممکن ہے۔ نومبر 2018 میں نیچر میں اگنیسیو ریبس کے شائع کردہ پیپر نے ننانوے فیصد اعتماد کے ساتھ اس کے گرد سیارے کی موجودگی کی پیشگوئی کی ہے۔ یہ سپین کی کیلر آلٹو آبزرویٹری اور چلی کی لی سیلا آبزرویٹری کے ڈیٹا سے ہے۔ اس کے لئے پچھلے بیس سال میں لئے گئے 771 سپیکٹروگرافس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ تجرباتی کراس چیک اور شماریاتی تفصیل میں جا کر انہوں نے ایک مسلسل دہرائی جانے والی ریڈیل ولاسٹی شفٹ کو دریافت کیا جو کہ 233 دن رہتی ہے۔ اس کی وضاحت اس کے گرد گردش کرنے والے زمین سے سوا تین گنا بڑے سیارے سے ہوتی ہے جس کے لئے ایک سال 233 دنوں پر محیط ہو۔ اس کی کنفرمیشن گایا کے مشاہداتی ڈیٹا میں ستارے کے ووبل کے تجزیے سے کی جا سکتی ہے۔ اس کی گریویٹی کو دیکھتے ہوئے اس ستارے اور سیارے کا فاصلہ تقریبا اتنا ہو گا جتنا سورج سے عطارد کا فاصلہ ہے،
تو پھر یہ سیارہ کیسا ہو گا؟ اس کو برنارڈ بی کہتے ہیں۔ عطارد جتنے فاصلے، زہرہ جتنے سال اور زمین سے تین گنا بڑے اس سیارے کا موازنہ نظامِ شمسی کے کسی سیارے سے نہیں کیا جا سکتا۔ برنارڈ بی اگرچہ سنو لائن سے دور ہے لیکن اس کا درجہ حرارت 105 کیلون ہو گا جو بڑا دلچسپ نمبر ہے۔ یہ میتھین کے ٹرپل پوائنٹ سے اتنا ہی اوپر ہے جتنا زمین پانی کے ٹرپل پوانٹ سے۔ (پانی کا ٹرپل پوانٹ صفر ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہے)۔ زمین نیلا سیارہ اپنے اس درجہ حرارت کی وجہ سے ہے۔ برف، بارش، سمندری لہریں، آبی بخارات، یہ سب پانی کی شکلیں ہیں جس سے ارضیاتی کلائیڈوسکوپ بنتی ہے جو ہمارے سیارے کو روزانہ شکل دیتی ہے اور تبدیل کرتی ہے اور یہ وہ واحد وجہ ہے کہ زمین ایک زندگی سے بھرپور سیارہ ہے۔ برنارڈ سٹار کا سیارہ بھی ایسی دنیا ہو سکتی ہے جس میں میتھین یہ کردار ادا کرتی ہو۔ ہمارے نظامِ شمسی میں اس سے ملتی جلتی ایک دنیا ہے جہاں پر میتھین کی بارش برفیلی چٹانوں پر برستی ہے اور میتھین کے دریا بہتے ہیں اور میتھین کے سمندروں میں گرتے ہیں۔ یہ دنیا ٹائٹن ہے (اس دنیا کی اور اس پر بھیجے گئے مشن کی تفصیل نیچے دی گئی پوسٹ میں۔ ٹائنٹن کے مشن میں ایک مایوسی یہ ہوئی تھی کہ اس کا سمندر کم علاقے پر اس کے قطب پر ہے، ایتھین کا سمندر موجود نہیں اور زحل کا یہ چاند ہائیڈروکاربن ریت کا صحرا ہے جبکہ میتھین اور ایتھین مائع حالت میں غالبا زیرِ سطح ہے)۔
برنارڈ بی ٹائٹن کے مقابلے میں زندگی سپورٹ کرنے کے لئے بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔ یہ ٹائیڈل لاک نہیں، اس تک الٹراوائلٹ شعاعیں کم پہنچتی ہیں۔ اس کی وجہ سے میتھین فضا میں کم ہو گی اور آسمان میں زیادہ دھند نہیں ہو گی اور زیادہ صاف ہو گا۔ یہاں تک اپنے ستارے سے پہنچنے والی روشنی اس سے زیادہ ہو گی جتنی ٹائٹن تک سورج کی پہنچتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی مشتری کے چاندوں تک پہنچتی ہے۔ یعنی یہ ایک تاریک دنیا ہو گی۔ اس کی دوپہر زمین پر صبح کے جھٹپٹے جتنی روشن ہو گی۔ اس بڑے سیارے کی جیولوجی ایکٹو ہو گی اور سرپنٹینائزیشن کا عمل ہو گا جو میتھین پیدا کرتا ہے۔ اگر برنارڈ بی پر مائع میتھین کے سمندر ہیں تو یہ زندگی کے لئے اتنا سازگار ہو سکتا ہے جتنا کہ ہماری زمین کیونکہ میتھین زندگی کے لئے سازگار ہے۔ اور سب سے بڑا ایڈوانٹیج جو کہ اس سیارے کو حاصل ہے، وہ وقت کا ہے۔ اس سیارے کو ہماری زمین کے مقابلے میں ساڑھے سات ارب سال زیادہ ملے ہیں کہ زندگی یہاں بن سکے۔ جب زمین پیدا ہو رہی تھی تو یہاں پر برف کی چٹانوں کی عمر زمین کو موجودہ عمر سے بھی زیادہ تھی۔ امکان ہو، تو صرف وقت چاہیے اور برنارڈ بی نے وقت کو بوڑھے ہوتا دیکھا ہے۔
اگر زندگی نے یہاں پر جڑ پکڑ لی ہو تو پھر ہمیں ایک تنگ کرنے والی حقیقت کا سامنا ہو گا۔ اس کائنات کے پچاسی فیصد ستارے سرخ بونے ہیں۔ میتھین کے سمندروں کی تعداد پانی کے سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر کوئی قدیم مخلوق ان سمندروں سے نکل کر اپنے تاریک ساحلوں کا رخ کبھی بھی کر چکی ہے تو کائنات میں زندگی کی بڑی اور غالب قوت وہی ہو گی۔ اس آوارہ ستارے کا یہ عجب سیارہ برنارڈ بی ایک ایسی دنیا ہو سکتی ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے مقاصد میں سے ایک اس کو مزید بہتر جاننا بھی ہے۔
پہلی تصویر اس ستارے کے سائز پر، دوسری اس سیارے کے مشاہدات اور آرٹسٹک امپریشن
ٹائنٹن پر بھیجے گئے مشن پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_284.html
اس پر خبر
https://earthsky.org/…/astronomers-discover-cold-super-eart…
اس ستارے کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Barnard%27s_Star
اس سیارے کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Barnard%27s_Star_b