فائر کی آواز کے ساتھ ہی کالا کوا جو پچھلے دو ہفتوں سے روزانہ میرے گھر کے اکلوتے کیکر کے درخت پر صبح سے آ کر بیٹھ جاتا تھا ؛ اڑ چکا تھا۔ گولی عین میرے ماتھے کے درمیان میں لگی تھی جہاں پر میری پیشانی کی رگ ہمیشہ ابھری رہتی تھی۔ گرم خون کا فوارہ کسی پہاڑی چشمے کی مانند پھوٹ پڑا۔ مجھے لگا لوہے کی گرم سلاخ بھٹی سے نکال کر سیدھی میرے دماغ میں گھسیڑ دی گئی ہے۔ میں دیمک زدہ دروازے کی طرح اوندھے منہ کچے صحن کے تازہ گارے پر جا گرا جو اب میرے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ میرے ناک اور منہ سے خون نکل کر مٹی میں جذب ہونے لگا ۔ بہت ساری مٹی اور گارا منہ کے اندر داخل ہو کر ابلنے والے خون کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے لگا۔
گھر ، زندگی ، خواب ، خواہشیں ، ماں ، باپ ، اللہ ، جنت ، جہنم اور پھر سعدیہ کے زخم کھائے ، نیل پڑے چہرے پر سوجی متورم آنکھیں ، کیکر ، کالا کوا ، آوارہ کتا ، سرخ گلاب اور بندوق کا بٹ ؛ سب میری مردہ ہوتی بصیرت میں آخری بار گھومنے لگے۔ میز پر کانچ کے پانی بھرے گلاس میں دھرا سرخ گلاب جو تین ماہ سے موجود تھا اور جس کی آخری پتی آج رات سیاہ پڑی تھی۔۔۔۔ابھی بھی خود بخود ہلنے لگا تھا۔
ایک بھاری ننگے پیر نے میرے دم توڑتے وجود کو ٹھوکر لگا کر سیدھا کیا اور میری ناک کے ساتھ پاوں لگا کر مدھم ہوتی سانس کی رفتار کو اپنے پاوں کے انگوٹھے پر محسوس کرنے لگا۔
مرتا بھی نہیں ہے بہن چود ؛ آخ خ خ ۔۔۔تھووووو۔۔۔۔۔۔یخ پڑتی سانس نے اس کے اطمنیان میں خلل ڈالا تھا۔ میرے چہرے پر گرم خون کے ساتھ تھوک بھی شامل ہو گیا جسے صاف کرنے کی اب کوئی حاجت باقی نہ تھی ۔ وہ غصہ میں بندوق کے بٹ میرے سر پر مارنے لگا. دماغ نام کا لجلجہ لوتھڑا پچک کر کھوپڑی سے باہر ابل کر مٹی اور میل سے اٹے ننگے بھاری پیروں سے چپک گیا۔
میری مردہ کھلی ہوئی آنکھوں میں بڑھے ہوئے ناخنوں کے پیروں کا عکس ہمیشہ کے لیے منجمند و محفوظ ہو چکا تھا۔
میرے پیروں کے راستے میری روح کھینچی جا رہی تھی۔ میں قطرہ قطرہ خود کو مرتے دیکھ رہا تھا۔ بوند بوند کر کے میری روح نچوڑ لی گئی۔
میں اب اپنے گھر کی چھت پر فضا میں معلق ؛ کچے صحن کے تازہ گارے پر اپنے مردہ جسم کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ توقیر شاہ جنونی انداز میں ابھی تک میرے سر سے بہہ نکلنے والے لجلجے مغز پر بندوق کا بٹ برسائے جا رہا تھا اور گالیاں دیے جاتا تھا۔
_____
مجھے اس رات سعدیہ سے ملنے نہیں جانا چاہیے تھا۔ جب تک گلاب حرکت نہ کرتا مجھے گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ سعدیہ نے کہا بھی تھا کہ جب بھی وہ مجھے بلائے گی پھول حرکت کرے گا۔ اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر آج جب دو ماہ بعد گلاب نے باسی ہونا شروع کیا اور اس کی پہلی پتی سیاہ پڑی ، میں وہ سیاہ پتی اٹھائے گھر سے نکل آیا۔ ایک گلی کا ہی تو فاصلہ تھا میرے اور شاہ صاحب کے ڈیرے میں۔
وہی آوارہ کتا جو بعدازاں میری لاش کا واحد وارث ٹھہرا تھا ، اس رات میں نے پہلی بار دیکھا۔ اندھیرے میں اس کی آنکھیں کسی نامعلوم قیمتی پتھر کی مانند چمک رہیں تھیں اور وہ مسلسل بھونکے جا رہا تھا۔ اس کی غراہٹیں میرے اندر خوف کی سنسنی پیدا کر رہیں تھیں۔ ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔ میرے بازو اور گردن کے بال اکڑ گئے اور ان میں ایک برقی رو تیزی سے گردش کرنے لگی۔
بس ایک منٹ کا کھیل تھا۔ مجھے بھاگ جانا چاہیے تھا ۔ کتے کی غراہٹ کسی زخمی بپھرے ہوئے درندے کی مانند تھی۔ میں نے دیکھا کہ شاہ جی کے ڈیرے میں ایک بتی جل اٹھی ہے۔
میرے قدموں نے بھاگنے کے لیے اٹھنا چاہا مگر زمین نے میرے پیر جکڑ لیے۔ دوسرے ہی لمحے سیاہ کتا میرے اوپر چھلانگ لگا چکا تھا ۔
وہی آوارہ کتا کافی دیر سے میری لاوارث لاش کے پاس وارث بنا کھڑا تھا ۔ میں نے سوچا کاش میرے گاوں میں گدھ ہوتے تو مجھے نوچ کھاتے مگر میرا گوشت اسی آوارہ کتے کی خواراک بننا تھا جس کے باعث میری موت ہوئی۔ مگر کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ مجھے گدھ کھائیں ، آوارہ کتے بھنبھوڑیں یا باعزت طریقے سے جینے کے بعد باعزت موت اگر نصیب ہو جاتی تو میری لاش کو کیڑے مکوڑے کھا جاتے تو بھی کیا کچھ فرق پڑتا ہے کہ میں کس کی خوراک بنتا ہوں۔
تیسرے دن جب میری نعش کے گلے گوشت سے بدبو کے بھبھکے اٹھنے لگے تو آوارہ کتے کے لیے بھی تعفن برداشت کرنا ممکن نہ رہا۔ اور وہ دم ہلاتا ہوا گاوں کی گلیوں میں گم ہو گیا۔ اسی شام میرے بچے ہوئے لاشے کو دفنا دیا گیا۔ وہی زمین جس نے تین دن پہلے میرے پاوں جکڑ لیے تھے اب میرا وجود قبول کرنے سے انکاری تھی ۔ اگلی صبح میری لاش قبرستان کے ساتھ سے گزرتی کچی سڑک کے عین درمیان پڑی تھی۔ ایک بجو ، باقی ماندہ گوشت چاٹ رہا تھا اور ہڈیوں پر کیڑوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ اس بار میری قبر کے گرد ، میرے ہی آنگن کے کیکر کی شاخیں کاٹ کر کانٹے بچھا دیے گئے کہ دوبارہ لاش باہر نہ آ سکے اور بجو اندر نہ گھس سکے۔
_______
مرے سامنے خون کا پیالہ بھرا رکھا تھا اور اس کے اندر کچے انسانی گوشت کے لوتھڑے تیر رہے تھے۔ اس خون سے مجھے نہلایا جانا تھا اور ان لوتھڑوں نے ہی اب میری خوراک بننا تھا۔ میں آج بہت خوش تھا۔ آج مجھے آگ کی تپش بھی کم محسوس ہو رہی تھی۔ آج مجھے زخمی کتے کے پھوڑوں سے ابلتی پیپ بھی نہیں پینی پڑے گی۔ آج توقیر شاہ کے تازہ خون سے مجھے غسل دیا جائے گا۔ بھاری ننگے پاوں جو ہمیشہ کے لیے میری آنکھوں میں منجمند ہو چکے تھے ۔ آج مجھے بھوک مٹانے کے لیے ملنے تھے۔ میں وہ پیر سب سے پہلے کھانا چاہتا تھا کہ میری بھوک مٹ سکے۔ وہ بھوک جو میں پچھلے کئی سالوں سے اپنے گھر کی چھت پر معلق ، فاقہ زدہ رہ کر پالتا رہا تھا۔
انتقام کی بھوک مٹانے کے لیے مجھے بیس سال انتظار کرنا پڑا تھا تب جا کر توقیر شاہ کی بیٹی نے پہلی بار فہیم کو سرخ گلاب دیا ۔ وہ سرخ گلاب جو فہیم نے کانچ کے پانی بھرے گلاس میں رکھ چھوڑا ۔ جب بھی ماہا ، فہیم کو یاد کرتی پھول خود بخود ہلنے لگتا۔ جس دن اس کی پہلی پتی سیاہ ہوئی میری سیاہ روح نے ایک بھیانک کتے کا روپ دھار لیا جس کی آنکھیں اندھیرے میں چمکنے لگیں۔ فہیم سیاہ پتی اٹھائے توقیر شاہ کے دروازے کے باہر کھڑا تھا اور میں گلی کی نکر پر۔ میرا سیاہ وجود اندھیرے کا حصہ بن چکا تھا۔ اور اندھیرے میں چمکتی میری آنکھوں میں انتقام کی روشنی تھی۔ میری زبان پسینے سے تر تھی۔
وقت ہمیشہ خود کو دہراتا ہے ۔ اس سے پہلے کے توقیر شاہ فہیم پر حملہ کرتا میں ایک جست میں اس پر چھلانگ لگا چکا تھا۔ میرے نوکیلے دانت اس کی گردن میں اترے تو تازہ گرم خون میری زبان پر آئے پسینے میں جذب ہو کر گھونٹ گھونٹ میرے حلق سے نیچے اترنے لگا۔ توقیر شاہ کے خون کا ذائقہ وہی تھا جو بیس سال پہلے ایک لاوارث لاش کا۔ بوڑھے گوشت کے نمکین ٹکڑے میرے فاقہ زدہ پیٹ کو بہت لذید محسوس ہوئے۔ میرے دانت تب اس کی گردن سے الگ ہوئے جب شہہ رگ کا پورا ٹکڑا میرے حلق میں اٹکنے لگا۔
کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ رات کی تاریکی میں توقیر شاہ کے لاشے کو باعزت زندگی گزارنے کے بعد ، با عزت موت کے بعد ، با عزت طریقے سے دفنایا جاتا اور اس کی لاش کو کیڑے کھاتے یا ایک آوارہ کالا کتا جس کی آنکھیں تاریکی میں بھی چمکتی ہوں ، بھنبھوڑ کر کھا جائے۔
فائر کی آواز سنتے ہی فہیم ؛ سیاہ پتی گلی کی گندی نالی میں پھینک کر بھاگ چکا تھا ۔ اس بار گولی توقیر شاہ کے بیٹے نے چلائی تھی۔ اس بار بھی ایک بھائی کی غیرت نے جوش دکھایا تھا۔ دوسری فائر کی آواز گونجی اور گولی میرے ماتھے کے عین درمیان میں لگی اور گرم پلید خون کا فوارہ سیورج لائن کی طرح پھوٹ پڑا۔ میری ناک اور منہ سے بہتا خون گندی نالی کے پانی میں شامل ہوا تو سیاہی مائل پانی مزید سیاہ ہو گیا۔ میری روح ایک جھٹکے کے ساتھ میرے پنجوں سے کھینچ لی گئی۔ اور دو ہیبت ناک فرشتے میری روح کو زنجیروں میں جکڑ کر گہری دہکتی آگ کے کنویں میں پھینکنے لے گئے۔ کیکر پر بیٹھا تنہا کالا کوا اس کہانی کا اکلوتا شاہد ہے۔
_________