آوارہ ہوں۔۔۔
اگست 1983ء میں ایرانی سرحد پار کرکے پاکستان سے رقبے میں تین گنا بڑے ملک ایران کی جہاں گردی کرتے کرتے ایران، ترکی کی سرحد پر پہنچا تو پاکستان میں جنم لینے والے اس نوجوان کی سردی سے حالت اس لیے بگڑنے لگی کہ میں قفقاز کے پہلو میں پھیلے ان پہاڑوں کے موسم سے آگاہ نہیں تھا۔ کوہِ ارارت کی چوٹی سفید برف سے لدی یوں لگ رہی تھی جیسے کسی بوڑھے بزرگ نے سفید پگڑی پہن رکھی ہو۔ کہتے ہیں کہ اس جمی برف میں حضرت نوح ؑ کی کشتی صدیوں سے پیوست ہے۔ کوہِ ارارت، آرمینیا اور ترکی سرحد پر واقع ہے۔پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی آمریت چھوڑ کر اس جہاں گرد نے ایران میں قدم رکھے تو ایران میں امام خمینی کا اسلامی انقلاب ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ ایران پیچھے چھوڑا تو قدموں تلے جنرل کنعان ایورن کا ترکی تھا جس کی آمریت نے ترکی میں خوف کے سائے پھیلا رکھے تھے۔ ترکی ایران سرحد پار کرنے کے بعد ہر شخص کو خاموش پایا۔ اور دائیں طرف صدیوں سے خاموش ارارات کا پہاڑ اور اس کے ساتھ کھڑی سرخ جنت کی آہنی دیوار۔سوویت یونین اور اس کی ایک ریاست آرمینیا۔ آوارہ جہاں گرد نوجوانی کے جوش اور جستجو سے لبریز تھا۔ اَن دیکھی دنیا اور اَن دیکھے راستوں پر گامزن۔ ترکی کی سرحد عبور کرنے کے بعد دوغبا یزید کا چھوٹا سا گائوں اور پھر مشرقی ترکی کا حسین اور خاموش شہر ارضِ روم۔ ارضِ روم سے ٹرین پر سوار ہوا، رات کی تاریکی ختم ہوئی تو ٹرین صبح سویرے انقرہ کے جدید اور رومانوی ریلوے سٹیشن پر پہنچی۔ اَن دیکھی دنیا، اَن جانے راستے۔ کم عمری اور کم وسائل۔ جیب میں فقط تین سو ڈالر۔ مہم جوئی نہیں تو کیا ہے یہ جہاں گردی۔ مگر دنیا تلاش کرنا اسی کو کہتے ہیں۔ ایک رات ہوٹل میں گزارنے کے بعد انقرہ کے معروف اور خوب صورت ترین پارک گنجلک پارک (نوجوانوں کا پارک) میں مجھے اکیلے آوارہ گردی کرتا دیکھ کو ایک ترک خاتون خدیجہ رکی، اس نے میری مملکت (ملک) کا پوچھا۔ جواب پاکستان پر وہ چونکی، انگریزی بول لیتی تھی، اس لیے کہ وہ نرس تھی اور ملازمت کے سلسلے میں برسوں آسٹریلیا رہ آئی تھی۔ خدیجہ نے مجھے چائے کی دعوت دی۔ یقینا یہ میرا انٹرویو تھا۔ اندر کا سیاسی ایکٹوسٹ مشکوک تھا کہ یہ کنعان ایورن کی آمریت کی ’’خفیہ‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ سڑکوں پر ترک فوج کے درازقد سپاہی کندھوں سے بندوقیں لٹکائے کھڑے تھے بلکہ ان فوجیوں کی انگلیاں بندوقوں کے ٹریگروں پر تھیں۔ ایسا مارشل لاء میں پیچھے پاکستان بھی چھوڑ کر آیا تھا۔خوف کے پہرے تھے۔
خدیجہ نے انٹرویو خوب کیا، کیا تم علی بھٹو کو پسند کرتے ہو؟ آہ، ایک ترک کے منہ سے ذوالفقار علی بھٹو کا نام۔ میں جوشِ جذبات میں اچھل پڑا، پسند نہیں عشق کرتا ہوں عشق۔ خدیجہ کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور وہ کہنے لگی، اس کو جنرل ضیا نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ میں نفرت کرتی ہوں جنرل ضیا سے۔ خدیجہ کو معلوم ہوا کہ میں بھٹو کا عاشق ہی نہیں بلکہ علی بھٹو کی پارٹی کا سرگرم کارکن ہوں۔ کہنے لگی، تم ہوٹل میں نہیں رہو گے۔ خدیجہ نے کہا، میں سوشلسٹ ہوں۔ بلند ایجوت، قذافی اور لینن میرے ہیرو ہیں۔ وہ ٹیلی فون بوتھ میں گئی اور اپنے کزن رحمان کو فون کرکے بلا لائی۔ اور گھر اطلاع کر دی کہ پاکستان سے ایک مسافر (ترکی میں مسافر مہمان کو کہتے ہیں) آرہا ہے۔ خدیجہ اور رحمان نے ہوٹل سے میرا سامان اٹھایا اور مجھے انقرہ کے مضافات میں کیچی اورین کے علاقے میں لے گئے ۔ سارے خاندان کے افراد اکٹھے تھے، بیس پچیس لوگ، بچوں، لڑکوں لڑکیوں، بزرگ خواتین اور مردوں نے میرا جواستقبال کیا،اس کی کشش مجھے بار بار ترکی لے گئی۔ خدیجہ نے کہا، فرخ آوارے (آوارہ)۔ میرے لیے یہ لفظ چونکا دینے کو کافی تھا۔ ترک آوارہ کو آوارے پڑھتے ہیں۔ اکثر لفظوں کے آخر میں زیر لگا دیتے ہیں۔ سارا گھر اس آوارہ (آوارے) مسافر /مہمان کو دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ یکایک خدیجہ کی بھانجی گلائی نے میری طرف دیکھ کر گانا شروع کیا۔ آوارہ ہوں، یا گردش میں ہوں آسمان کا تارا ہوں۔ جستجو سے لبریز دل ودماغ چونک گئے۔
مکیش کی پُرسوز آواز میں گایا یہ گیت ترکوں میں ہرزمانے میں مقبول رہا ہے۔ آج تک یہ گیت ترکی اور دیگر ترک قوموں میں ایک مقبولِ عام گیت ہے۔ سابق سوویت یونین کی تمام ریاستوں، چین ، مشرقِ وسطیٰ حتیٰ کہ افریقہ کے لاتعداد ممالک میں اس گیت کو سننے کا جنون کبھی کم نہیں ہوا۔ مائوزے تنگ جیسے رہنما کا پسندیدہ گیت۔ سٹالن کی سخت گیری کے بعد سابق سوویت یونین کے اندر مکیش کا گایا یہ گیت درحقیقت ہوا کا ایک تازہ جھونکا تھا۔ آوارہ فلم سابق سوویت یونین اور ترکی میں مقبول ترین فلم رہی ہے۔ میں نے اسے ترکوں کی تین نسلوں میں آج تک ایک مقبول عام فلم پایا۔ راج کپور، ترکی اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں بسنے والوں کے لیے ایک معروف نام اور ہیرو ہے۔ آوارہ فلم کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے میں ’’آوارہ ہوں یا گردش میں ہوں، آسمان کا تارا ہون‘‘ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ترکی اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں ، ازبکستان ، تاجکستان ، روس میں اسے درجنوں معروف اور غیرمعروف گلوکاروں نے اس گیت کو اور اردو/ہندی میں گایا اور پھر اپنی زبانوں میں بھی۔عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق ’’آوارہ ہوں‘‘ دنیا کا دوسرا مسلسل گایا جانے والا اور مسلسل مشہور ومقبول ترین گیت ہے۔
’’آوارہ ہوں‘‘ کی موسیقی بنیادی طور پر اس گیت کے اشعار پر کھڑی ہے۔ یہ گیت اور فلم دراصل سب انہی اشعار پر قائم ہے۔ اور یہی گیت اس فلم کی وجہ شہرت بھی ہے۔ اس گیت کا خالق شائلندر کیسری لعل 30اگست 1923ء کو پیدا ہوا۔ بہار سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان شاعر سے راج کپور 1944ء میں پہلی مرتبہ ایک پنجابی مشاعرے میں ملا جہاں راج کپور کو شائلندر کے شعروں نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ شائلندر کا تعلق IPTA(انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن) سے تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کارکن شائلندر شاعری کے لیے سماج کے عام موضوعات کو چنتا۔ اس کے قریبی دوست اُسے پشکن جیسے عظیم شاعر کے نام سے پکارتے۔ خواجہ احمد عباس اور راج کپور جیسے سوشلسٹ نظریات رکھنے والے تخلیق کار اس نوجوان شاعر کی صلاحیتوں کو ہندی فلم انڈسٹری سے منسلک کرنے کے خواہاں تھے۔ راج کپور نے جب نوجوان شاعر شائلندر کی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ اپنی فلم کے لیے خریدنا چاہی تو شائلندر نے اپنی شاعری کو فلمی دنیا کے ہاتھوں بیچنے سے انکار کردیا۔ بمبئی کے مزدوروں کے محلے پاربل میں رہنے والا شائلندر جب غربت سے تنگ آگیا تو پھر ایک روز اس نے خود راج کپور سے رابطہ کیا۔ خواجہ احمد عباس، راج کپور اور دیگر اشتراکی نظریات رکھنے والے دانشوروں، فلم سازوں، اداکاروں کے حلقے میں داخلے کے بعدشائلندر کی تخلیق چھوٹے دائروں سے نکل کر دنیا بھر میں امر ہوگئی۔ خواجہ احمد عباس اور راج کپور، شائلندر کو ’’آوارہ‘‘ فلم کی کہانی بریف کررہے تھے تاکہ شائلندر اس کو مدنظر رکھ کر گیت لکھے۔ راج کپور اپنی مخصوص مزاح بھری نظروں سے شائلندر کو دیکھتے ہوئے مخاطب ہوا، ’’کچھ سمجھ آیا کوی راج؟‘‘ شائلندر نے فوراً کہا، ’’گردش میں تھا، آسمان کا تارا تھا، آوارہ تھا۔‘‘ اور یوں شائلندر نے راج کپور اور خواجہ احمد عباس کے تصور کے قریب ہوکر شہرہ آفاق گیت لکھا، ’’آوارہ ہوں، یا گردش میں ہوں، آسمان کا تارا ہوں۔‘‘
1951ء میں یہ فلم کیا ریلیز ہوئی، آہنی دیوار کے اندر قائم سرخ جنت (سابق سوویت یونین) میں ہلچل مچ گئی۔ ہر روسی کی زبان پر شائلندر کا گیت تھا، آوارہ ہوں۔۔۔۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے اس زمانے میں آہنی دیوار کے ساتھ سرد جنگ کے اہم سرمایہ دار اتحادی ترکی میں بھی اس گیت نے ترکوں کو اسے سننے اور گنگنانے پر مجبور کردیا۔ اس فلم سے متاثر ہوکر دو معروف ترک فلم سازوں اونک نظر اور نکوپلاس نے 14سال بعد 1965ء میں ترکی میں ترک زبان میں ’’آوارے‘‘ (آوارہ) فلم بنا ڈالی۔ترک آوارے (آوارہ) فلم کے ڈائریکٹر سمیع ایون اور اس فلم کے ہیرو معروف ترک اداکار صدری علیشک اور ہیروئن اداکارہ آجدا پیکان تھیں۔ایک ترک موسیقار نے اپنے نام کے آخر میں ’’آوارہ ہوں‘‘ اور ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ کے خالق شائلندر کا نام تخلص کے طور پر لگا لیا۔ اب یہ تخلص اس کے خاندان کا نام ہے اور 1976ء میں برگا میں جنم لینے والا حُسنو شائلندرچی آج اس خاندان کی تیسری نسل اور ترکی کا مشہور موسیقار اور سازندہ نواز ہے۔ آوارہ ہوں۔۔۔