آپ دنیا میں کسی بھی جگہ سے ہوں، ویسی کرسی پر کبھی بیٹھے ہوں گے، جو ساتھ تصویر میں بنی ہے۔ یہ کرسی مونوبلاک کہلاتی ہے۔ اور یہ تاریخ میں سب سے زیادہ بکنے والی کرسی ہے۔ باغ میں، دکان میں، ریسٹورنٹ میں، کسی تفریحی مقام پر، چائے ہوٹل میں ۔۔۔ لاہور میں، شنگھائی میں یا ہونولولو میں۔ یہ کرسی ہر جگہ پر ہے۔ دنیا بھر میں یکساں ہوتی خوراک، لباس، آرٹ، عادات اور اقدار کی طرح مونوبلاک گلوبلائزیشن کی ایک علامت ہے۔ سستی کرسی جسے دیکھ کر کچھ لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ اس حد تک کہ سوئٹزرلینڈ کے شہر بیسل میں یہ سیاسی مسئلہ بن گئی اور پر 2008 میں پابندی لگا دی گئی کہ ریسٹورنٹ اپنے باہر کے ایریا میں اس کا استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ شہر کا حسن خراب کرتی ہے۔
لیکن اس کی تاریخ کیا ہے؟ اور کیا یہ اعلیٰ ڈیزائن کی علامت ہے یا خراب ڈیزائن کی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کا تعلق ڈیزائننگ سے ہے تو کرسی کا ڈیزائن بڑا دلچسپ علاقہ ہے۔ کرسیوں کے ڈیزائن وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ ان کا علاقے اور ثقافت کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ شکل، میٹیریل، ساخت کے ساتھ فنکشن اور جاذب نظر ہونا۔ موڑھے، پیڑھے، سٹول، صوفے، راکنگ چئیر، فولڈنگ کرسی، ایگزیٹو چئیر۔ کسی بھی دوسری چیز کی طرح اس کا ڈئزائن بھی روایتی، فیشن ایبل، غیرروایتی ہر طرح کا رہا ہے۔ اشرافیہ اور عوام، نشست کا یہ آلہ طبقاتی فرق بھی رکھتا رہا ہے۔ یہ آرٹ کی شکل بھی ہے۔ فرینک گیری کی لہروں کی طرح بل کھاتی وِگل سائیڈ کرسی یا آمیو کی انڈے کی شکل کی بال کرسی۔ ایسی کرسیاں امراء کے ڈرائنگ رومز کی زینت رہی ہیں۔ لیکن مونو بلاک ان میں سے کسی طرح کی نہیں۔ یہ اس قدر عام ہے کہ اس کا ڈیزائن بے معنی لگتا ہے۔ اس کو دیکھ کر نہیں جا سکتا کہ یہ کس علاقے، طبقے، جگہ کی ہے۔ آرٹ کے نقاد ایتھان زکرمین اس کو “بغیر سیاق و سباق کی شے” کہتے ہیں جو انفرادیت کی نفی اور ماس پروڈکشن کی علامت ہے اور کمزور ہوتے مقامی کلچرز کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی مونوبلاک کرسی 1946 میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ڈیزائنر ڈگلس سمپسن نے بنائی۔ لیکن اس وقت پلاسٹک مولڈنگ کا پراسس سستی ماس پروڈکشن کے لئے مناسب نہیں تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں پلاسٹک کی کرسی میں دلچسپی واپس آئی۔ 1964 میں بوفنگر اور 1967 میں جو کولمبو نے پلاسٹک کی کرسیاں ڈیزائن کیں لیکن یہ ایک ٹکڑے میں نہیں تھیں۔ الگ ٹکڑوں کو مولڈ کر کے جوڑا جاتا تھا۔ ایک ٹکڑے میں کرسی کا ڈیزائن ورنر پینٹون کی بنائی کرسی کا تھا جو آج کلاسک سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک مہنگی ڈیزائنر کرسی تھی۔ ٹیکنالوجی میں مونوبلاک اس سے اگلا قدم تھا۔ پینٹون کی کرسی میں وہی پراسس استعمال کیا گیا تھا جو آج کی مونوبلاک میں اور اس کو اس طریقے سے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ ان کو آسانی سے ایک دوسرے کے اوپر رکھا جا سکے۔ مونوبلاک کی مقبولیت کی بھی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔
پینٹون کی کرسی کی کامیابی کے بعد اس کے بنانے کے پراسس کو نقل کیا جانے لگا۔ اور جب سستے تھرموپلاسٹک دستیاب ہوئے تو مونوبلاک کی بڑے پیمانے پر تیاری ممکن ہو سکی۔ 1972 میں فرانسیسی ڈیزائنر ہنری ماسانیٹ نے پہلی مونوبلاک بنائی۔ لیکن 1983 میں گراس فیلکس گروپ نے جب اس کو باغ میں رکھنی والی کرسی کے طور پر متعارف کروایا تو یہ اس کی بڑے پیمانے پر ہونے والی کامیابی کا آغاز تھا۔
اس کرسی کی پروڈکشن انجیکشن مولڈنگ سے ہوتی ہے۔ پولی پروپلین کو 220 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کیا جاتا ہے۔ اس کو ایک سانچے میں ڈالا جاتا ہے اور اس سے کرسی تیار ہو جاتی ہے۔ مونوبلاک کے نام کی وجہ یہی طریقہ ہے۔ اور آخر میں ایک ٹکڑے میں یہ پراڈکٹ بغیر کسی جوڑ کے نکل آتی ہے۔
اس کے سانچے مہنگے ہیں۔ ایک مولڈ لاکھوں ڈالر کا پڑتا ہے لیکن ایک بار لگ جانے کے بعد فی کرسی خرچ کم ہے اور پروڈکشن بآسانی بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس میں زیادہ لیبر درکار نہیں ہوتی۔ وقت کم لگتا ہے اور میٹیریل کی لاگت کم ہے۔ اور یہ اس کے سستا ہونے کی وجہ ہے۔
مونوبلاک کے درجنوں ڈیزائن موجود ہیں۔ پشت پر عمودی یا افقی لکیریں یا سپاٹ یا جالی کے ساتھ۔ بازو رکھنے کے لئے ہینڈل یا ان کے بغیر۔ کئی زاوئے اور شکلیں اور کئی طرح کے رنگ۔ لیکن پھر بھی آپ دیکھتے ساتھ ہی پہچان لیں گے کہ یہ ہے مونوبلاک ہی۔
یہ کرسی بھی بدلتی رہی ہے۔ بنیادی چیز یہ رہی ہے کہ میٹیریل کی موٹائی اتنی کم نہ ہو کہ پائیدار یا مستحکم نہ رہے، اتنی زیادہ نہ ہو کہ بھاری یا مہنگی ہو جائے۔
پائیدار، کم قیمت اور ہلکی کرسی جسے اٹھا کر کہیں لے جایا جا سکے اور ایک دوسرے کے اوپر رکھا جا سکے، موسم میں خراب نہ ہو۔ یہ اس کی مقبولیت کی وجہ ہے۔ کیا یہ کسی بھی ڈیزائنر کا اپنی تخلیق کا خواب ہے؟ یہ وہ جگہ ہے جہاں کانٹیکسٹ آ جاتا ہے۔ ہم ڈیزائن کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اس کا تعلق اس سے ہے کہ ہم اس سے اپنا ذاتی تعلق کیسے جوڑتے ہیں اور کوئی شے ہمیں کس چیز کی یاد دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منفرد اشیاء سے تعلق بنانا آسان ہوتا ہے اور ہم ان کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ اور یکسانیت ہمیں پسند نہیں آتی۔
ہمیں یہ پسند آئیں یا نہیں، پلاسٹک کی یہ کرسیاں ہر جگہ پر ہیں اور رہیں گی۔ کامیابی بس ایسی ہی نہیں آ جاتی۔ کم قیمت سماجی برابری اور معاشی ڈویلپمنٹ ممکن بناتی ہے۔ گلوبلائزیشن اور یکسانیت کی علامت، مونوبلاک کرسی ایک عوامی کرسی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...