عوامی انقلاب، عدالتوں سے نہیں عوام سے
وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے میرے سیل فون پر متعدد پیغامات موصول ہوئے۔ یہ پیغامات ’’مختلف عدالتی فیصلے تھے‘‘، کسی میں وزیراعظم کو نااہل، کسی میں اُن کو مکمل بری اور کسی میں منقسم فیصلہ درج تھا۔ ایسے پیغامات یقینا آٹھ کروڑ سے زائد سیل فون رکھنے والے میرے جیسے دیگر لوگوں کو بھی موصول ہوئے ہوں گے۔ یہ پیغامات اُن تجزیوں پر مبنی تھے جو عام لوگ کررہے ہیں۔ جب یہ اطلاع آئی کہ 20اپریل کو دوبجے عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ سنائے گی، ایسے ’’عوامی فیصلوں‘‘ اور ’’سینہ گزٹ‘‘ کی رفتار اور تعداد متاثرکن حد تک بڑھ گئی۔ اور ساتھ ساتھ لطائف بھرے پیغامات بھی موصول ہونا شروع ہوگئے، کچھ میں نوازشریف کے خلاف نفرت اور کچھ میں حمایت لیکن پچھلے ایک سال سے قوم کا مجموعی رویہ یہی رہا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ قوم کی تقدیر بدل دے گا۔ جب فیصلہ آیا تو ایسی بدقسمت قوم کی قسمت پر میرے لیے افسوس کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک وفاقی وزیر جو فوری طور پر اپنا ردِعمل دے کر عمران خان کے خلاف بڑے بڑے الفاظ، جملے اور بیان داغ رہا تھا، وہ سیاسی رہبر چند سال قبل جب میاں نوازشریف جلاوطن تھے، میرے ہاں خصوصی طور پر آیا کہ آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں پاکستان تحریک انصاف میں چلا جائوں یا نہیں۔ اس وقت ان کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکر تھی کہ اگر میاں صاحب یونہی باہر رہے تو ہم ’’رُل‘‘ جائیں گے۔ اب وہ عمران خان کی تاریخ، حال اور مستقبل سامنے رکھ کر الفاظ داغ رہے تھے اور میاں نوازشریف کے صادق اور امین ہونے کی تصدیق کررہے تھے۔ یکایک وہ سکرین سے ہٹے تو عمران خان کے سپوکس مین جناب فواد چودھری تشریف لائے۔ وہ قانونی اور سیاسی نکات اٹھا کر نوازشریف کی ٹھکائی کررہے تھے۔ فواد چودھری ٹیلی ویژن پر تجزیہ نگار تو ہیں ہی، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک وقت اسی طرح جنرل پرویز مشرف کا دفاع اور عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے اپنا سیاسی سفر کررہے تھے۔ کچھ عرصہ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کا دفاع کرنا بھی اُن کی سیاسی جدوجہد کی ذمہ داری میں شامل رہا۔
جناب فواد چودھری، نوازشریف پر تنقید اور عمران خان کا دفاع کرکے فارغ ہوئے تو دانیال عزیز اسی سکرین پر وزیراعظم نوازشریف کے دفاع میں عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کو کھری کھری سنا رہے تھے۔ دفاع والے وزیراعظم کے صادق اور امین ہونے کی تصدیق اور اختلاف والے وزیراعظم کو بے ایمان کہنے پر تلے ہوئے تھے۔ بندہ ان سے پوچھے، آپ حضرات کے الفاظ وبیان کی تصدیق کو کیسے مقدس مانا جائے جو انہی لبوں سے اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں۔ میرے لیے یہ سارا منظر کسی فرانسیسی ڈرامے سے زیادہ نہیں۔ ان کہانیوں، داستانوں، عدالتی فیصلوں اور جدوجہد کی حقیقت حکمران طبقات کی باہمی لڑائی سے زیادہ نہیں۔ خود عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حکمران طبقات کی حد تک لڑائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر عوام کا ایک طبقہ اور اُن کی قیادت کرتا سیاسی اور دانشور طبقہ اس لڑائی کو عوام اور حکمران طبقات کے مابین تصادم تصور کرتا ہے تو یہ ایک خواب ہے، سراب ہے، حقیقت نہیں۔ وہ طبقہ جو پانامہ کیس سے قوم کی قسمت بدلنے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا، اس کے لیے منقسم فیصلہ واقعی ہی قسمت کا بدلنا ہے کہ جو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تھے، اُن کے لیے بھی فیصلہ آگیا اور جو اُن کے حمایتی تھے، اُن کے لیے بھی۔ جائو! اپنے اپنے حصے اور خواہشات کا فیصلہ لے لو۔ یہی اس سماج کی حقیقت ہے۔ ہیرو اور ولن، درحقیقت دونوں ایک دوسرے میں گھل مل چکے ہیں۔ ہیرو ولن بھی ہے اور ولن ہیرو بھی۔ اور افسوس کہ سماج اسی ڈگر پر چلنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کے سیاسی قائدین بدلتے ہیں، سیاست نہیں۔ آج ہیرو کے ساتھ ہیں تو کل ولن کے ساتھ ہوں گے۔ عوام نہیں بدلتے،اور نہ ہی حکمران اور نہ ہی حکمرانی بدلتی ہے۔ ہاں ایک اضافہ ہوا ہے، ان حکمرانوں کے بیٹے بیٹیاں آنے سے کبھی کبھی بھولے عوام یہ محسوس کرنے لگتے ہیں، اب تبدیلی آئی کہ آئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب عوام بدلیں گے، تو حکمران بدلے جائیں گے، نظام بھی اور حکمرانی بھی۔ دراصل ہم الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ظہور کے بعد ششدر ہیں، اس کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا۔ہم نہیں بدلے۔ ٹیکنالوجی بدل گئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی آگئی اور کچھ بھی نہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے ذہن نہیں بدلے۔ جب دماغ بدلتے ہیں تو تبھی تبدیلی برپا ہوتی ہے۔ انقلاب کا لفظ استعمال کرنے سے انقلاب برپا نہیں ہوتے۔ انقلاب سیاسی شعور سے برپا ہوتے ہیں، ٹیکنالوجی سے نہیں۔ قوموں کی تقدیریں عدالتیں نہیں بدلتیں، قومیں خود اپنی تقدیریں بدلتی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول، عدالتوں میں تو میدانِ جنگوں کی طرح بڑی اور تاریخی ناانصافیاں برپا ہوتی ہیں۔ جہاں انقلاب برپا ہوتے ہیں، وہاں عدالتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ مجھ سے اب کئی نوجوان بچے بچیاں سوال کرتے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی، عمران خان تو کہتے ہیں کہ تبدیلی آگئی۔ میرا جواب ہوتا ہے، عوام تبدیلی نہیں چاہتے، اگر عوام تبدیلی چاہیں گے تو تبدیلی آئے گی۔ کسی سیاسی رہبر کے کہنے سے تبدیلی نہیں آتی۔ اور جو قومیں مسیحائوں کا انتظار کرتی ہیں، وہاں کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ یہ ایک رویہ ہے کہ وہ ایک شخص کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئے اور بہ جنبشِ قلم بیس کروڑ لوگوں کی قسمت بدل دے۔ بس اُن کو کچھ نہ کرنا پڑے۔ حکمران طبقات کو کرپٹ کہنے والے، اپرمڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ اپنی کرپشن کو کرپشن میں شمار نہیں کرتے۔ اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کی شکار قوم کو دیکھیں تو لگتا ہے سماج بہت Politicized ہوچکا ہے جبکہ حقیقت یہ نہیں۔ شخصیات پر بحث کرنے والا سماج Politicizedنہیں ہوتا بلکہ نظریات، فکر اور سیاسی منشور پر بحث کرنے والا سماج Politicized ہوتا ہے۔
حکمرانی کھیل ہے۔ ہیرو اور ولن دونوں کا تعلق اوپری طبقات سے ہے۔ آج سے تیس سال پہلے جب راقم ابھی یونیورسٹی سے نیا نیا فارغ ہوا تھا اور پاکستان میں جنرل ضیا کے خلاف جدوجہد میں سرگرم تھا، اسی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے قلم اٹھایا کہ سندھ میں عوامی بغاوت برپا ہوگئی، پنجاب میں کیوں نہیں، تو ایک کتاب سپردِقلم کی، ’’پنجاب کا مسئلہ،Depoliticization of Punjab‘‘۔ کہ پنجاب جہاں ایم آر ڈی کے سیاسی کارکن سندھ سے زیادہ تعداد میں جیلوں میں گئے، زیادہ تعداد میں سیاسی کارکنوں نے کوڑے کھائے لیکن عوامی تحریک ابھری تو سندھ میں؟ اس سوال نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب بری طرح De-politicized ہوچکا ہے۔ آج صورتِ حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ ہرطرف مظاہرے تو برپا ہوتے ہیں، لیکن ایک بھی مربوط اور منظم عوامی تحریک نے جنم نہیں لیا۔ عوامی تحریک کہ جس میں مڈل کلاس، محنت کش، طلبا، مزدور، خواتین اور زندگی کے تمام شعبوں کے لوگ شامل ہوں۔ جو لوگ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے انقلاب پھوٹنے کی توقعات لگائے بیٹھے ، وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں مصروف ہیں۔ عوام کے شعور، فکر اور اجتماعی جدوجہد سے ہی قوموں کی قسمت بدلتی ہے۔ عدالتیں، میڈیا ہائوسز، بڑے بڑے ریاستی ادارے تو حکمرانی کے ادارے ہیں۔ وہ ملک جہاں ان اداروں سے سماجی انصاف ملتا ہے، وہاں کے عوام نے سماج اور ریاست کو جدوجہد کے بعد Democratize کیا ہے۔ ریاست کو حکمران طبقات کے تابع ہونے کی بجائے عوام کے تابع کیا۔ یہاں ایسا نہیں۔ ہمارا سماج حکمران طبقات کو پالتاہے اور عوام کو غلام بناتا ہے۔ یہی کردار ریاست کا بھی ہے۔
“