خدا اس قوم پر ویسے ہی حکمران مسلّط کر دیتا ہے جیسی وہ خود ہوتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ، حکمران افراد یا اشرافیہ کے دوسرے لوگوں کی مانند امیر اور بے پرواہ ہیں یا جرنیلوں کی طرح سخت گیر اور طالع آزما۔ ایسا تو خیر ہے ہی نہیں اور نہ ہی غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا ہو سکتا ہے۔ تو کیا وہ یعنی قوم ان کی طرح شاطر، عیّار، مطلب برار، طوطا چشم، متکبّر و مغرور اور خودغرض ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کے باسیوں کی اکثریت اشرافیہ ہوتی۔ پھر ہم کیسے ہیں جن پر ہم جیسے حکمران "مسلط" ہیں؟
اگر ہمارے لوگ امیر نہیں تو امیر ہونے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ جس کو بھی موقع ملے وہ امیر ہونے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے سے نہ تو ہچکچاتا ہے نہ گریز کرتا ہے۔ بے پرواہ کوئی ایسے ویسے کہ سر پر سے ریل گاڑی دندناتی ہوئی گذر جائے تب بھی اف نہیں کرتے، کچومر بن جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سخت گیر، کیوں نہیں؟ جس پر بس چلے ، اس سے سختی برتنے میں تامّل نہیں کرتے، اپنے سے کمزو پر، اپنے بچوں پر اور اپنی بیویوں پر۔ طالع آزمائی، بس موقع مل جائے تو پاؤں پسارتے دیکھو۔ البتہ نہ وہ شاطر ہیں، نہ عیار، نہ مطلب برار، نہ طوطا چشم، نہ متکبّر و مغرور اور نہ ہی خود غرض۔ اصل میں ان میں پہلے دو وصف یعنی شاطر پن اور خوئے عیاری مفقود ہیں، جس کی بناء پر وہ باقی اوصاف سے عاری ہیں۔ ان میں سے جن جن کے پاس پہلے دو وصف موجود ہیں وہ باقی چار پانچ اوصاف کا بھی بخوبی مظاہرہ کرنے کے قابل ہیں۔
کیا یہ تمام نقائص، جنہیں اوصاف کہہ کر ان کی توقیر کرنے کی سعی کی گئی ہے، ہم اور ہم جیسی قوموں میں اپنے طور پر موجود ہوتے ہیں یا ان کو کچھ خاص قسم کے حالات پیدا کرتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ کہ ہم یعنی پاکستانی ایک قوم ہونے سے کوسوں دور ہیں۔ بفرض محال ہم اسے قوم مان لیتے ہیں تو پہلا نقص جو معاشرے میں من حیث المجموع موجود ہے وہ اس کا خالصتا" سرمایہ دارانہ یا خالصتا" جاگیردارانہ نہ ہونا ہے۔ ہر معاشی نظام کے اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں جن کا تعلق معاشرے کی خوشحالی یا بدحالی اور معاشرے میں افراد کی مجبوری یا مختاری سے ہوا کرتا ہے۔ خالصتا" سرمایہ دارانہ معاشرے میں لوگوں کی اکثریت معاشی طور پر آسودہ ہوتی ہے یا اسے آسودہ ہونے کا کم از کم احساس ضرور دلایا جاتا ہے مثال کے طور پر کریڈٹ کارڈز فراہم کرکے۔ خالصتا" جاگیردارانہ معاشرے میں لوگوں کی اکثریت کو اپنے محکوم ہونے کا اگر یقین نہ بھی ہو تو احساس ضرور ہوتا ہے۔ رہا اشتراکی یا اشتمالی نظام تو اس میں خواہ مخواہ مطمئن ہونے اور مجبور ہونے کی مجبوری ہوتی ہے۔ البتہ اشتمالی و سرمایہ دارنہ نظام کے ملغوبہ نظام میں مواقع بھی ہوتے ہیں اور کہنے سننے کی آزادی بھی۔
دوسرا مسئلہ جو ہمارا المیہ ہے وہ ہمارا اس بارے میں بے یقین ہونا ہے کہ ہماری قوم کے لیے کونسا نظام حکومت زیادہ مناسب ہے جمہوری طرز حکومت یا آمرانہ حاکمیت۔ مذہبی نظام حکمرانی یا سیکیولر ریاست۔ اس تذبذب کے پیچھے کسی نظام حکومت یا طرز حکمرانی سے متعلق لاعلمی یا کم علم ہونا ہی نہیں بلکہ دھڑے بندی ہے۔ دھڑے بندی درحقیقت جاگیردارانہ سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے یعنی اس کا تعلق مفاد یا بھلائی کی بجائے انا اور ہٹ دھرمی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سیکیولر جماعتیں جمہوریت کی بات کریں گی تو مذہبی گروہ لوگوں میں یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ ملک کو کسی خمینی یا کسی سخت فوجی حکمران کی ضرورت ہے۔ البتہ اب چونکہ فوج کے خلاف ایک عمومی بددلی پائی جاتی ہے تو لفظ فوجی حذف کرکے سخت حکمران کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے مگر مطلب اصل میں وہی ہوتا ہے۔
تیسرا نقص سوچ کا محدود ہونا ہے۔ سوچ کے محدود ہونے کی وجوہ میں علم کی کمی اور امید کا فقدان ہے۔ علم کے حصول اور امید رکھنے کی خاطر کم از کم بنیادی ضروریات کا آسانی سے پورا ہونا ضروری ہے۔ کم و بیش پچاس فیصد آبادی اس "آسائش" سے محروم ہے۔ علم صرف دستخط کر لینے یا اخبار پڑھ لینے کا نام نہیں ہوتا بلکہ علم وسیع تر معلومات اور اندازہ لگانے و تجزیہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لینے کو کہا جاتا ہے۔
ہمارا اصل سوال یہی تھا کہ عوام پہلے یا حکام؟ درحقیقت حکام نے، بلا تخصیص چاہے وہ یہ تھے یا وہ عوام کو ہاتھ کھولنے سے دور رکھا ہے۔ جب ہاتھ بندھے ہوئے ہوں تو اذہان کا کھلنا مشکل ہوتا ہے۔ اذہان میں اگر وسعت نہ ہو تو اندازہ لگانا، تجزیہ کرنا، انتخاب کرنا، اپنی غرض سے ہٹ کر اجتماعی بھلائی کے لیے سوچنا عبث ہوتا ہے، چنانچہ اب اس تحریر کے اولیں فقرے کو اگر ایسے کر لیا جائے کہ "خدا نے ہمیں ہم جیسی قوم بنانے کے لیے ایسا کرنے کے قابل حکمران برداشت کرنے کی توفیق دے دی ہے" تو زیادہ درست رہے گا۔