’’زندگی بھر کی کمائی سے بنے میرے گھر پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ سمجھ نہیں آتی کیا کروں، کسی کو مار ڈالوں یا خود کشی کر لوں۔پولیس کے پاس جاتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کورٹ میں جاؤ۔ وکیل کہتے ہیں کیس پر دس پندہ سال بھی لگ سکتے ہیں ۔ میں پاکستان میں رہ کر مقدمہ لڑوں یا آسٹریلیا میں اپنے بال بچوں کی کفالت کروں ۔ لوگ کہتے ہیں دس پندرہ برس کے بعد بھی مکان واگزار ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔ وکیلوں کی فیس اور دیگر اخراجات بھی ضائع جائیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ اس مکان کو بھول جاؤ ۔ تمہی بتاؤ میں کیسے بھول جاؤں یہ میرے پندرہ سال کی محنت کی کمائی ہے،پاکستان میں میرا بڑھاپے کا ٹھکانہ ہے اورمیرے بچوں کا پاکستان سے تعلق قائم رکھنے کا ذریعہ ہے۔ کیسے بھول جاؤں اسے ۔ میں نے دن رات محنت کر کے ، اپنا پیٹ کاٹ کر اتنے ارمانوں سے یہ گھر بنایا ہے جس میں مجھے ایک دن بھی رہنا نصیب نہیں ہوا ۔ آخر میرا قصور کیا ہے ۔ کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے ۔‘‘
یہ بپتا آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی ادریس خان نے میرے سامنے بیان کی ۔ادریس خان بیرونِ ملک مقیم واحد پاکستانی نہیں ہیں جس کی یہ کہانی ہے بلکہ ایسی کہانیاں پردیس کی خاک چھاننے والوں کے گھر گھر کی ہیں۔ انہی میں سے ایک محمد اظہر بھی ہیں ۔ محمد اظہر پانچ برس بعدچھٹیوں پر پاکستان گئے تو بہت خوش تھے ۔ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ چھٹیاں ان کے لیے اتنی خوف ناک ثابت ہوں گی ۔ پاکستان میں قیام کے دوران محمد اظہر کے گھر میں ڈاکا پڑا ۔ ڈاکو ان کی تمام قیمتی اشیاء لے گئے جس میں ان کی بیٹی کے جہیز کے زیورات بھی شامل تھے ۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ جاتے ہوئے انہوں نے اظہر خان کی بیوی کو گولی مار کے قتل کر دیا ۔اظہر پچھلے ایک برس سے پاکستان میں رہ کر مقدمہ لڑ رہے ہیں جس میں سوائے تاریخیں ملنے کے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے ۔ ہر تاریخ پر اظہر خان اور اس کی فیملی کورٹ میں جاتے ہیں کہ شاید اس مرتبہ انہیں گواہی کے لیے طلب کر لیا جائے ۔ سارا دن رش اور گرمی میں وہاں بیٹھتے ہیں اور شام کو نامراد لوٹ آتے ہیں ۔واپس نہ آنے وجہ سے آسٹریلیا میں اظہر خان کی نوکری ختم ہو گئی ہے۔ اب اس خاندان کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ جائداد فروخت کر کے گزارا کر رہے ہیں ۔
ایسے درجنوں لوگوں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں جو وطنِ عزیز میں بعض مال اور بعض جانیں گنوا کر بے بس اور مجبور باہر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ وہاں ان کی دُہائی سننے والا کوئی نہیں ہے ۔ نہ پولیس ، نہ عدالت اور نہ حکومت ۔پولیس کی بد سلوکی کی بے حد شکایتیں ہیں ۔طویل اور تکلیف دہ عدالتی نظام اور عدم انصاف کے بے شمار گلے ہیں ۔ حکومتی ایوانوں کی بے حسی کا بے حد رونا ہے ۔ حتّی کہ سول سوسائٹی میں بھی اس بے انصافی اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے ۔ کسی پلیٹ فارم پر ان کی شنوائی نہیں ہے ۔ میڈیا میں اکّا دکّا واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ان پر گرد پڑ جاتی ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ عدالتوں میں جا کر وقت اورپیسے کے زیاں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ کیس اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ مدعی کی ہمت جواب دے جاتی ہے ۔ اتنے طویل عرصے میں کئی گواہ مکر جاتے ہیں اور کئی مر کھپ جاتے ہیں ۔اس دوران مدعی یا مظلوم خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے ۔ نہ وہ کیس چھوڑ سکتا ہے اور نہ جاری رکھ سکتا ہے ۔ پہلے ہی وہ مظلوم ہوتا ہے عدالتوں میں رُل کر مزید ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔ جو شخص مالی نقصان پہنچنے کی شکایت لے کر جاتا ہے وہ پولیس اور کچہری کے چکر میں بچی کھچی پونجی بھی گنوا دیتا ہے ۔ پولیس ، گواہان اور وکیلوں کے چکر میں انسان گھن چکر بن کر رہ جاتا ہے ۔ انصاف حاصل کرنے کے لیے عدالتوں کے چکر لگا لگا کر اس کی جوتیاں گھس جاتی ہیں ۔ جسم بوڑھا اور ناتواں ہو جاتا ہے ۔ ہمت جواب دے جاتی ہے لیکن انصاف نہیں ملتا ۔ کئی مقدمے نسل در نسل چلتے رہتے ہیں ۔ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہوتی ہے اس کی ہڈیاں بھی خاک ہوجاتی ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو پاتا ۔ یہ کیسا عدالتی نظام ہے جس میں سارا بوجھ مظلوم کو اُٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ کیسا نظامِ انصاف ہے جس میں درخواست گزار کو مالی ، سماجی اور قانونی چکی میں اس طرح پسنا پڑتاہے جیسے وہ مجرم ہو ۔ انصاف کی اُمید میں مظلوم کو وکیل کو فیس، دستاویزات کی تیاری ، گواہوں کے اخراجات اور اہلکا روں کو رشوت دینی پڑتی ہے ۔ہر تاریخ پر مدعی گواہان کو لے کر عدالت میں حاضر ہوتا ہے ، سارا دن بنچ پر بیٹھتے ہیں اور پھر گواہی لیے بغیر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ غیر معینہ مدت تک جاری رہتا ہے ۔ اس سارے عمل میں مظلوم اور اس کے خاندان کو کس کرب، تکلیف ، پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اس پیچیدہ اور تاخیری عمل سے مظلوم کو نقصان اور ملزم کو فائدہ ہوتا ہے ۔ انصاف نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں جرائم مزید پنپتے ہیں ۔ جب عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا تو بعض لوگ قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ جرم عام اور مجرم بے لگام ہو جاتے ہیں ۔ قانون کا خوف جاتا رہتا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر عمل در آمد شروع ہو جاتا ہے ۔ جس سے پورے معاشرے میں جنگل کا قانون نظر آتا ہے ۔ جس میں طاقت ور اور ظالم ہر ظلم کے لیے آزاد ہوتا ہے اور مظلوم ہر ظلم سہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں ظلم اور بے انصافی ہوتی ہے وہاں سے قدرت کی رحمتیں اور برکتیں روٹھ جاتی ہیں۔ وہاں اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے ۔ ۔ جہاں انصاف ہوتا ہے وہ قوم کبھی کسی سے شکست نہیں کھاتی ۔ معاشرے میں سکون ، امن اور ترقی ہوتی ہے۔پیار محبت ، باہمی رواداری اور احترامِ انسانیت کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ ایسا معاشرہ انسانوں کے رہنے لائق ہوتا ہے ۔
وطنِ عزیز پاکستان میں اس وقت انصاف کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے ۔ ایسا انصاف جو سستا ، فوری اور بلا تفریق ہو ۔ یہ انصاف عدالتوں میں بھی ہو اور دیگر سرکاری اور نجی اداروں میں بھی ۔ اگر ہمارا عدالتی نظام فوری او رسستا انصاف فراہم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس کا اثر دیگر تمام شعبہ جات پر خود بخود ہو گا ۔جس طرح بے انصافی سے سو معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں اسی طرح انصاف قائم کرنے سے سو اچھائیاں جنم لیں گی۔ ملک سے کرپشن ، اقربا پروری،رشوت ، سفارش اور بد انتظامی کا قلم قمع ہو جائے گا۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ۔ انصاف ہوگا تو اللہ اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے گا اور معاشرہ جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے گا ۔
اس وقت جب ملک میں ایسی جماعت کی حکومت آئی ہے جس کا نام ہی تحریکِ انصاف ہے اور جو پچھلے بائیس برس سے عوام کو انصاف مہیّا کرنے کی باتیں کر رہی ہے، انصاف کی بحالی کی اُمیدیں اور توقعات بڑھ گئی ہیں۔یہ قانون، آئین اور جمہوریت کاتقاضا بھی ہے اور اللہ کا حکم بھی ۔عوام کی ضرورت بھی اور اُن حق بھی ۔ خدا کرے ستّرسال سے انصاف کے لیے ترستی ہوئی اس قوم کو یہ حق جلد نصیب ہو ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...