جے یو آئی کے رہنما سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری ڈیرہ غازی خان تشریف لائے تو ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی اور پہلا سوال ہی جام کمال سرکار کی تبدیلی سے متعلق پوچھا کہ کیا یہ تبدیلی دیگر صوبوں میں بھی نظر آئے گی تو انہوں نے تفصیل سے اس کا جواب دیا بہت سی باتیں بتائیں کہ جام کمال سرکار بچانے کے لیئے ان سے کس کس اہم شخصیت نے رابطہ کیا۔ان سے وعدہ کیا تھا اس لیئے تفصیلات تو دہرانے سے قاصر ہوں تاہم لب لباب یہ کہ یہ تبدیلی فی الحال بلوچستان تک محدود رہے گی ۔سادہ الفاظ میں بس کا ڈرائیور بدلا ہے اور سواریوں کی نشستوں کی ترتیب بدلی ہے جبکہ بس متعین کردہ روٹ پر ہی چلے گی۔
ویسے بھی ڈرائیونگ سیٹ پر جام کمال ہو یا قدوس بزنجو ہو بلوچستان کے رہنے والوں کی قسمت شائد ہی بدلے۔پینے کے صاف پانی کو ترستے قابل علاج بیماریوں کے باجود زندگی کی بازی ہارنے والے بلوچستان کے باسی سرداری اور جاگیرداری جبر کے تلے سانس بھی مشکل سے لے رہے ہیں بولنا اور اپنے حق کے لیے بولنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ویسے بھی جن کو بولنے کا اختیار ہے وہ بھی پہلی بار بلامقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہوکر ٹھیک طریقے سے حلف کی تحریر نہیں پڑھ سکے ۔بزنجو سرکار میں جو بندر بانٹ ہوگی الامان الحفیظ۔جوتیوں میں دال بٹے گی اور یہ منظر بھی دیکھنے والا ہوگا۔ ہر ممبر صوبائی اسمبلی وزارت اور ترقیاتی فنڈز کا طلب گار ہوگا۔سب کچھ ہوگا مگر بلوچستان کی قسمت پھر بھی نہیں بدلے گی۔
اکتوبر ایک بحران زدہ مہنہ تھا ویسے تو حکومت اپنے قیام سے ہی کارکردگی کے بحران میں مبتلا ہے تاہم کچھ بحران خود کے پیدا کردہ اور کچھ نااہلیت کی بنیاد پر بحران پیدا ہوگئے ۔ایک بحران ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا بھی تھا ۔جو بالآخر جاری ہوگیا اور نئے ڈی جی آئی ایس آئی 20 نومبر سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ طے شدہ امر ہے کہ 20 نومبر کے بعد کا پاکستان قدرے مختلف ہوگا۔دیر سے سہی مگر تبدیلیاں نظر آئیں گی اور یہ تبدیلیاں بہرحال حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بنیں گی ۔سب کچھ ویسا نہیں ہوگا جیسا کہ چل رہا ہے۔لاڈ پیار کا زمانہ ختم ہوا اب اپنے پیروں پر چلنا ہوگا اور کام کرکے دکھانا ہوگا طے ہوگیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں جیت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی نا کہ کسی اور کی کارکردگی کی بنیاد پر۔
اور اپنی کارکردگی تو یہ ہے کہ ضمنی الیکشن لڑنے کے باوجود کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا مارچ لاہور سے نکلا اور وزیرآباد تک جاپہنچا۔بقول حکومت کے پولیس اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔حکومتی وزرا اور مشیر کا تنظیم پر بھارتی فنڈنگ کا الزام اور ٹھوک دینے کی گفتگو نے حالات مزید خراب کردئیے۔آخر کار وہی حرکت میں آئے جن کو آنا چاہیے تھا اور پھر معاملات افہام وتفہیم سے حل ہوئے اور اہم حکومتی وزرا کو نکال کر وہ معاہدہ کیا گیا جس کی تفصیلات وسیع تر قومی مفاد میں نہیں بتائی گئیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ٹی ایل پی سے پہلا معاہدہ ہوا تو وزیراعظم لاعلم تھے اور دوسرا معاہدہ ہوا تو وزیرداخلہ سمیت پوری قوم لاعلم ہے۔اب تو معاہدے کے مطابق گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جارہا ہے۔سوال یہ ہےکہ اگر حکومت نے یہی کچھ کرنا تھا تو پھر حالات اس نہج تک جانے کیوں دئیے۔
لاعلم تو قوم اس بات سے بھی ہےکہ ناراض سعودی عرب جس نے اپنا ادھار واپس مانگ لیا تھا اور ہمیں چین سے رقم لے کر ادا کرنی پڑی ایکدم راضی ہوگیا ہے ۔دو سے تین ارب ڈالر ادھار دینے کے ساتھ ساتھ ہر ماہ پندرہ کروڑ ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات بھی ادھار دے گا۔اس سے ملکی معیشت کو بلاشبہ فائدہ ہوگا مگر ان بادشاہوں کو ہم فقیروں سے ایسی کیا کام آن پڑا کہ انہوں نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے ہیں کیا ان مہربانیوں کے پیچھے بھی کوئی خفیہ معاہدہ ہے جو بتایا نہیں جارہا۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔تاہم سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ جو بھی معاہدہ کیا ہوگا قابل مذمت ہی کیا ہوگا۔
قابل مذمت تو قرضوں کے لیے کشکول اٹھائے در در پھرنا بھی ہے ۔آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے مسلسل محنت کرتے ہوئے شوکت ترین نے وہ کام بھی کردئیے جن کا کہا بھی نہیں گیا تھا۔فی الوقت اطلاع یہی ہے کہ مذاکرات کامیابی کی طرف جارہے ہیں اور ہم چھ ارب ڈالر کا پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔بس قوم کو اطلاع ہو کہ اس ضمن میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے۔ لہذا چیخ و پکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔قوم پہلےہی ہوا میں مفت سانس لے رہے ہیں اس سے زیادہ عیاشی کی توقع مت کریں۔رہی بات قرض لینے کی بجائے پھانسی لینے والی بات تو وہ سیاسی بیان تھا اس کو سنجیدگی سے مت لیا جائے۔
اور سنجیدہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو بھی نا لیا جائے کیونکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ حکومت کو مدت پوری کا موقع دیا جائے گا۔اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جس سے حکومت کے جانےکا خطرہ پیدا ہوا۔اس کے بعد فری اینڈ فئیر الیکشن کا وعدہ ہے کہ اس میں جو جتنی نشستیں جیت لایا وہی اقتدار پر براجمان ہوگا۔اب اگلے اقتدار سے متعلق اپوزیشن پریشان ہےکہ جو کچھ موجودہ حکومت کرچکی ہے اس کے بعد کا مشکل ترین اقتدار کون سنبھالے گا یہ بات ن لیگی رہنما خواجہ سعدرفیق برملا کہہ رہے ہیں اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری بھی کہہ چکےہیں کہ مسلئہ یہ حکومت نہیں بلکہ وہ حالات جو آنے والی نئی حکومت کو درپیش ہوں گے ۔موجودہ حکومت سے تو خیر کی توقع نہیں ہے تو کیا آنے والی حکومت سےبھی عوام کو ریلیف نہیں ملےگا۔کیا آنے والی حکومت بھی سابقہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے نام پر عوام کا معاشی استحصال کرئے گی۔کیا آئندہ پانچ سال بھی عوام کے مشکل ہوں گے اور ان کے لیئے بنیادی ضروریات زندگی کا حصول اسی طرح ناممکن ہوگا جیسا اس وقت ہے؟
تحرریر: ملک سراج احمد
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...