حویلی کے صحن میں کھڑے بھولا ، اس کی بیوی اور سات سالہ لڑکے کو دیکھ کر مہاجن نخوت سے بولا ،
کاہے کو آگیا ہے رہے ۔۔سویرے سویرے بھولا !!
سرکار ۔۔اس ورش پھسل سب نشٹ ہوگئی ۔۔بیوی کے سواگ کے گہنے رکھن جو کرج لیا تھا ۔۔۔مافی دے دو !
کیسے فصل خراب ہوگئی ؟
مائی باپ۔۔جیادہ ورشا کے کارن۔
اونھ! کیا بھگوان کو میں نے بولا تھا زیادہ بارش برسانے !!۔۔چل بھاگ ۔۔قرض چکانا پڑے گا ! ورنہ زمین گئی !!
سرکار جی۔۔آگے ورش چکا دیوو۔
چل بے ۔۔۔بھاگ۔۔لکھن! ۔دھکے مار کر نکال دے ۔۔۔مہاجن نے گرجتے ہوئے حکم دے ۔۔۔حویلی کے اندر چلا آیا ۔۔۔اس کا جہاندیدہ مشیر بولا ۔۔۔سرکار ۔۔پوری بستی سونے کے انڈے دینے والی ۔۔۔۔اس کا اور دوسرے کئی ہیں ۔۔جن کے کھیت نشیب میں ہیں ۔۔زیادہ بارش سے پانی کا نکاس نہیں ہو سکا۔۔۔اگلی بار وصول لیں گے ۔۔۔ان کے آگے دانہ دنکا ڈالتے رہنا چاہیے ۔۔۔کھان پان سے ان کی عقل ماری جاتی ہے ۔۔بھوک بغاوت کرتی ہے ۔
چل بے !۔۔بڑا آیا مجھے عقل سکھانے والا ۔۔مہاجن نے اسے جھڑک دیا ۔
دوسری صبح مہاجن حویلی کے اوپری کمرے میں بیٹھا تھا کہ ۔۔مشیر خبر لایا ،
سر۔۔بھولا نے چھت سے لٹک کر خودکشی کرلی !
چلو ۔۔خس کم جہاں پاک۔۔
نہیں سرکار ۔۔۔بستی میں سناٹا ہے !۔۔کسی بڑے طوفان کو پیش خیمہ !!
ہمارے پالتو کتے کب کام آئیں گے ۔۔مہاجن کی بات مکمّل نام ہوئی تھی کہ ۔۔،،چھن ،، کی آواز آئی اور کانچ کے ریزے فرش کی آ گرے۔۔کون ہے یہ ؟۔۔مہاجن گرجتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا ۔۔ایک سات سالہ بچہ پھاٹک عبور کررہا تھا ۔۔
اس بچے کی یہ ہمت؟
سرکار ۔۔یہ بچہ نہیں ۔۔۔عوام ہیں ۔۔یہ پہلا پتھر ہے !!،،
کچل دو ان سب کو !!
سرکار۔۔مشکل ہے ۔۔بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ موسلا دھار بارش ۔۔۔پہلے پتھر کے ساتھ ۔۔عوامی تبدیلی !!
دفعاں ہو جا منحوس !۔۔اس منحوس کے دفع ہونے سے پہلے طوفان نے آگھیرا ۔۔۔حویلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔۔۔مہاجن کو لاٹھیوں سے لہولہان فرش پر لہراتے گرتے دیکھ ۔۔جہاندیدہ کے آخری الفاظ تھے ۔
میں نہ کہتا تھا ۔۔۔پہلے پتھر کی دیر ہے !!