اوستا جو دین زرتشتی کے مطابق زرتشت پر نازل ہوئی تھی۔ اسے ایستاغ، ایستاق یا الپتاک بھی کہتے ہیں۔ دوسری قدیم کتب کی طرح یہ بھی زمانے کی دستبرو سے بچ نہیں سکی، اس لئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس میں کتنی تخریبیں اور کتنا اضافہ و حذف ہوا ہے۔ بہر کیف آج جو بھی زرتشت کی تعلیمات ہیں وہ اسی اوستاسے ماخوذ ہیں اور اسی کے ذریعہ زرتشتی مذہب کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اوستاکا ایک مختصر ساحصہ گاتھا کہلاتا ہے اور اس کی زبان دوسرے حصوں سے مختلف ہے۔ شاید اس کی زبان وہی ہے جو زرتشت کی ہے۔ بقیہ کی زبان اوستا ہے۔
زرتشتیوں کی مقدس کتاب زرتشتی روایات کے مطابق قدیم اوستا ایک ہزار باب اور اکیس نسکوں (صیحفوں) پر مشتمل تھی۔ قدیم مورخین کے مطابق یہ صخیم کتاب تھی۔ یعنی یہ بارہ ہزار بیلوں کی کھالوں پر لکھی گئی اور کہا جاتا ہے کہ کلام زرتشت پر نازل ہوا تھا۔ جس کو جدید محقیقن شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میں علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں تھی جس کا اس میں ذکر تھا۔ یورپی محقیقن کا خیال ہے اسے مختلف لوگوں کی تصنیف بتاتے ہیں۔ تاہم یہ کتاب پارسیوں کے دعوؤں کے مطابق سکندر کے حملے وقت جلادی گئی تھی اور ان میں سے بعض مسلمانوں کے حملے میں ضائع گئیں۔ مگر تاریخی طور پر ثابت ہے کہ اوستا کا اصل نسخہ ہخامنشی خاندان کے زمانے زمانے میں برباد ہوگیا تھا۔ پھر تقریباً چارسو سال کے بعد اشکانی بادشاہ بلاش اول کے دور میں اس کی تدوین ثانی کی کوشش کی گئی۔ مگر تکمیل ساسانی بادشاہ ارد شیر اربکان کے زمانے میں ہوئی۔ غالباً گاتھاکے علاوہ بقیہ حصہ کی تصنیف محض حافظہ پر اعتماد کیا گیا۔
اوستا جو کہ ایکس نسکوں پر مشتمل تھے ان کے نام اور مضامین کی تفصیل اب تک باقی ہے اور ان ایکس نسکوں میں صرف ایک حصہ وندیداد باقی اور کچھ ایسے متفرق مضامین باقی ہیں جسے وہ اوستا کا حصہ بتاتے ہیں۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام نہیں آتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ ایکس نکسوں میں سے کسی کا حصہ ہوں۔ تدوین ثانی کے وقت اس کے کل 348 ابواب دستیاب ہوئے، ان کو اکیس صیحفوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جدید محقیقین کا کہنا ہے یہ دوسرا نسخہ بھی باقی نہ رہا۔ ساسانی نسخہ میں کل تین لاکھ کلمات تھے، مگر موجودہ اوستا میں کل اٹھارہ ہزار کلمات ہیں۔ اس طرح دوسرے نسخہ کا بھی چوتھائی حصہ باقی بچا ہے۔ اس موجودہ اوستا کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (۱) یسن (۲) ویسپیرد یا ویسپرت (۳) وندیداد (۴) یشت۔ یہ مناجاتوں یا مذہبی ترانوں اور دوسرے خرافاتوں مثلاً زمین و کائنات کی تخلیق، جمشید کی داستان، ارواح خبیث بچنے کے طریقہ، کفارہ، توبہ اور تزکیہ نفس پر مشتمل ہے۔
اوستا خرد
مذکورہ چار حصوں کے علاوہ ایک مختصر سا حصہ بطور ضمیہ بھی اوستا میں شامل ہے۔ جس کو اوستا خرد کہتے ہیں۔ اس کو آذربد مہرا سپند نے جو ایک موید مویدان تھا، شاپور کے عہد میں مدون کیا تھا۔ اس کے مضوعات مذکورہ بالا کی طرح ہیں۔
ژند و پاژند
اوستاکے بعد دو اور کتابیں ہیں، جو ژند اور پاژند کے ناموں سے مشہور ہیں۔ ژند حقیقتاً اوستا کی پہلوی تفسیریں ہیں۔ مگر اصل کتاب کے ساتھ اس حد تک خلط ملط ہوگئیں ہیں کہ عام طور پر اس کو اوستا کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور لوگ اوستاکو ژند اوستا کہنے لگے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ژند کی تصنیف اشکانی بادشاہ بلاش کے عہد میں ہوئی تھی اور اس کو اصل کتاب میں شامل کردیا گیا۔ یعنی اوستائی عبارت کے ساتھ اس کی تفسیر و ترجمہ بھی درج کردیئے گئے۔ مگر اشکانی عہد کی تفسیر باقی نہیں رہی ہے۔ موجودہ ژند ساسانی عہد کی تدوین ہے۔ پاژند یا پانیتی ازنیتی ژندکی تفسیر ہے اس کی زبان پہلوی کہتے ہیں، مگر حقیقتاً پہلوی اور فارسی کے درمیان کی زبان ہے۔
زرتشتی مزہب کو ایران کی سرزمین میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہخامنشی فرمانروا اس مذہب کے ماننے والے تھے۔ اشکانی مذہب کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ مگر کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ وہ اپنے قدیم مذہب پر اردان دوم کے عہد تک قائم تھے۔ بلاش اول کے دور میں یہ سرکاری مذہب بنا نیز اوستاکی تدوین ہوئی اور اس کی تفسیر لکھی گئی۔ ساسانی عہد میں باضابطہ زرتشتی کو شاہی مذہب کو تسلیم کرلیا گیا اور اس کی اشاعت و تبلیغ کی طرف توجہ دی گئی۔ اردشیر اربکان کے عہد میں اوستا اور ژند کی تدوین ہوئی اور آتش کدہ تعمیر کیا گیا۔ دوسرے ساسانی بادشاہوں نے بھی مختلف شہروں میں بڑے بڑے آتش کدے بنوائے اور ان کے اخراجات کے لئے جاگیریں وقف کیں۔ ساسانی سلطنت مین آخیر تک دین زرتشتی کو سرکاری حثیت حاصل رہی۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...