ماہرین لسانیات نے اوستا کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ روس (یا یورپ) میں کچھ گروہ جو ہجرت کرکے ہندوستان آرہے تھے۔ راہ میں ایک گروہ علیحدہ ہوکر زرتشتی بن گئے اور ایران میں وہ اوستا بولنے لگے اور باقی ہندوستان آگئے اور سنسکرت بولنے لگے اور ویدوں کی تشکیل کی۔ چونکہ اوستا بولنے والے ایران میں تھے – اس لیے اسے ایرانی زبان کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ہندوستان کے سنسکرت اور آوستا بہنیں ہیں اور یہ دونوں تخیلاتی مادری زبان سے جنم لیتی ہیں۔
اوستائی سے مراد اوستا کی زبان جو غلط طور پر ژند اور کبھی کبھی قدیم باختری بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن آخر الذکر نام نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ کیوں کہ دلائل سے پتہ چلتا ہے جس طرح کے دلائل اسے باختری زبان قرار دینے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ویسے ہی دلائل اسے شمال مغرب یا آذربائیجان کے پیش کیے جانے کے لیے دیے جاسکتے ہیں۔ صرف اوستا ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں قلمبند ہے۔ اس کا ایک حصہ گاتھا اس سے قدرے مختلف ہے اور قدیم زبان سے مختلف ہے۔ اوستائی رسم الخط پہلوی سے ماخوذ ہے لیکن اس سے قدرے بہتر ہے۔ آپرٹ کا کہنا ہے کہ پہلوی میں اوستا کی صورت اوستاک (ڈارم شٹیڑر اپساک) سریانی میں پستاکا، عربی میں ابستانی اور اینڈریاس کے مطابق قدیم فارسی کا اُپستا (مدد، حمایتٰ سے مشتق ہیں اور اس کے معنی اصل متن کے ہیں۔
محققین اور ماہر لسانیات یہ خیال ہے کہ اوستا کا مطلب زرتشت کا مقدس متن ہے اور ژند کے معنی زرتشتی زبان میں تفسیر۔ ایک غلط خیال کے مطابق ماضی میں ایران یا زرتشتیوں کی تین ہزار سال قبل بولی جانے والی زبان کو اوستا کا نام دیا گیا۔ جس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور جیمس ڈیمستر کے مطابق اوستا پارس کی مذہبی لیکن غیر ملکی زبان (جسے میں اجنبی کہوں گا۔ جیسے کہ آگے چل کر واضح ہوگا) تھی۔ گو یہ قدیم فارسی سے ملتی جلتی تھی اس لیے قدیم ایرانیوں کے لیے اجنبی نہیں تھی اور اس کی مشابہت ویدی زبان سے تھی۔
ہم دیکھتے ہیں قدیم فارسی کی مشابہت سنسکرت سے بھی ہے۔ اس کی مشابہت پراکرت سے بھی تھی۔ یہ پراکرات جو کہ بھارت میں بولی جاتی تھیں اور قبل مسیح اس کی بہت سی شاخیں تھیں۔ اس ویدی زبان میں پراکرت کے الفاظ داخل کر دوسری صدی میں اس قابل ہوئی کہ اس میں کتبات لکھے جاسکیں اور یہ پرکرت (خود رو) کے بالمقابل سنسکرت (سنواری ہوئی) کہا جاتا تھا۔ سنسکرت طرح چوتھی صدی مسیح میں اس قابل ہوئی کہ ادبی زبان بن سکے۔ جب کہ مہابھارت، رامائن، پننی کی دیاکرن، ارتھ شاستر اور منودھرم شاستر سنسکرت میں ہیں اور یہ سب کتابیں پانچویں قبل مسیح سے دوسری قبل مسیح کی بتائی جاتی ہیں۔ لہذا یہ کتب قبل مسیح کی نہیں ہوسکتی ہیں جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ کتابیں چھٹی صدی کے بعد کی کتابیں ہیں اور نامعلوم مصنفوں نے لکھ کر اپنے یا کسی اور کے نام سے منسوب کیں ہیں۔
یعنی ایران اور ہندوستان میں آنے والے عام آریوں کی زبان بالترتیب اوستا اور ویدی نہیں تھی صرف مذہبی متنوں کی زبان تھی اور مختلف علاقوں اور قبائل میں مختلف زبانیں بھی بولی جاتیں تھیں جو ملتی جلتی تھیں اور ان زبانوں میں ایک زبان قدیم فارسی جو ہخامنشیوں کی زبان تھی قدیم ایران کی سرکاری زبان کہلائی۔ کچھ ایسی صورت حال ہندوستان میں بھی پیش آئی۔ ویدی زبان صرف مذہبی متنوں کی زبان تھی اور عوام کی زبان اس سے کچھ مختلف تھی۔ جس کہ بارے میں ایک غلط خیال ہے کہ ویدی زبان مین مقامی زبانوں کے الفاظ شامل کرکے پرکرات وجود میں آئی۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان زبانوں نے مقامی الفاظ ضرور قبول کیے اور شاید کچھ کے لہجے میں تبدیلی بھی ہوئی۔ مگر پورے برصغیر میں پراکرت کے الفاظ تقریباً ایک ہی ہیں۔ گو ان کے لہجوں میں فرق ضرور ہے۔ یہاں تک موجودہ زبانوں کے الفاظ وہی قدیم زمانے کے ہیں۔ ان کے لہجوں صرف تبدیلیاں ہوئیں ہیں۔ اب بھی کوئی شخص برصغیر کے کسی گوشہ میں جہاں آریائی زبان بولی جاتی ہو۔ وہاں جائے اور جب وہ اس لہجہ سے مانوس ہو گا تو اس کے الفاظ اس کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے اور اس کے سمجھ میں آئے گی۔ یہ پراکرت جو عوام کی بولیاں کہلاتی ہیں آریائی زبانیں کہلاتی ہیں۔ ہم دیکھتے تھے کہ بدھ کا زمانہ جو ویدی عہد کے فوراً آتا ہے عام لوگ ویدی زبان سے الگ زبان بولتے تھے اور ان سب کی بولیوں میں فرق تھا مگر یہ سب ایک دوسرے کی زبان سمجھتے تھے۔ گو بدھ کی زبان پالی جو بعد کے زمانے میں سرکاری اور مذہبی زبان بن گئی۔ مگر یہ بھی دوسری زبانوں سے زیادہ مختلف نہیں تھی جیسا کہ اشوک کے کتبوں، بدھی اور دوسری کتب اور برتنوں پر ملنے والی عبارتوں سے واضح ہوتا ہے۔
اس طرح کا ارتقاء یورپ اور ایران میں ہوا۔ یورپ میں ایک فرانسیسی کے لیے جرمن یا انگلش اتنی ہی اجنبی ہے جتنی ایک سرائیکی بولنے والے کے لیے پنجابی اور سندھی۔ جیسا کہ بعد کے دور میں مختلف ترک قبائل کی زبانوں میں فرق ضرور تھا اور یہ ایک دوسرے کی زبان کو سمجھ لیا کرتے تھے اور یہ سب ترکی زبان کہلاتی تھیں۔ کچھ ایسی صورت ہندوستان میں قدیم زمانے میں تھی جہاں مختلف بولیوں میں فرق تھا مگر ایک دوسرے کی بولی سمجھ لیا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے ہر زبان میں الگ الگ لہجہ رہے ہیں ایسی صورت بلوچی، پنجابی، سندھی اور پشتو کی ہے اور ہر زبان میں مختلف لہجے ہیں یا مختلف انداز میں بولتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں۔ یعنی یہ خیال غلط ہے کہ یہ سب لوگ ویدی زبان بولتے تھے۔