ایک ممتاز محقق موسیو فرانسوا نو کا خیال ہے کہ اوستا کی روایات تقرہباً ساتویں صدی کے وسط تک زبانی روایات سے منتقل ہوتی رہیں تھیں اور اسے آٹھویں صدی میں لکھا گیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عہد ساسانی کی سریانی تصانیف میں عیسائیوں اور مرذائیوں (زرتشتیوں) کی بحثوں کہیں بھی زرتشتی کتابوں کا ذکر نہیں آیا ہے۔ البتہ زرتشتیوں کو اپنی مذہبی روایات کو زبانی یاد رکھتے تھے۔
پروفیسر آتھر آسٹین نے اس پر اعتراض کیا اور وہ کہتے ہیں اگرچہ اوستا کتاب کا ذکر نہیں ہوا ہے تو اس کی وجہ عیسائیوں کا تعصب ہوسکتا ہے۔ اگر اوستا کو تحریری شکل میں یزدگرد سوم (آخری ساسانی بادشاہ) کے زمانے سے بتشترموجود نہیں ہوتی تو جلدی میں زرتشتی صرف ایسے متن کو ضبط تحریر لاتے جو عبادات اور عقائد کے متعلق ہوتا اور ایسی صخیم کتاب کو لکھنے کی زحمت نہ کرتے کہ جس میں تاریخ طبیعی، جغرافیہ، ضابطہ اخلاق اور بہت کچھ جس سے خوا مخواہ اوستا کا حجم بڑھ گیا۔ یعنی آٹھویں صدی میں اس کا پہلوی ترجمہ اور شرح لکھی اور نویں صدی میں دین کرد کے مصنف نے اوستا کا خلاصہ لکھنے بیٹھا تو اس ترجمہ کے بعض حصہ اس مختصر عرصہ میں تلف ہوچکے تھے۔
پروفیسر آتھر کرسٹین کا کا خیال ہے کہ اوستا کی بربادی وجہ زندگیوں کی سختیوں نے زرتشتیوں کو فرصت نہیں دی کہ کتب مقدس کے صخیم مجموعے کی نقل کرتے۔ اس لیے قانونی مسائل پر بحث تھی وہ بھلا دیے گئے۔ عربی حکومت کی ابتدائی صدیوں میں زرتشتی مزہب اصلاع کی گئی اور عامیانہ اساطیر اور عقائد کو خود زرتشتیوں تلف کردیے اور نئے عقائد مدون کیے گئے۔ لیکن وہ نستک جن میں مسلہ آفزیش اور دوسرے اصولی عقائد تھے کیوں محفوظ نہ رہے؟ یہ موقف اس وقت اپنایا جاسکتا ہے کہ جب یہ تسلیم کیا جائے کہ اوستا کا ایک صخیم مجموعہ تھا۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوستا زرتشتیوں نے اوستا کی تدوین کرنے کی کوشش میں اس قدر صخیم کتاب مدون دینے میں کامیاب ہوگئے تھے ؟ جیسا کہ پروفیسر آتھر کرسٹین نے خیال ہے۔
ایرانی اگر اوستا کو خود تلف کرتے موجود اوستا کو بھی تلف کیوں نہیں کی۔ اوستا کے موجودہ حصہ میں بیشتر دعائیں اور کچھ خرافات ہیں۔ پروفیسر کا اعتراف ہے کہ موجودہ اوستا میں افرائیش، متھرا، اناہتا اور زروانیت کے خیالات و عقائد اب بھی موجود ہیں اگرچہ مبہم ہیں۔ جو اس کی بات کی دلیل ہے کہ اوستا میں اسی حالت میں ہیں جو کہ ساسانی عہد میں تھی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے اب متھرا اور اناہتا کی پرستش ختم کردی ہے مگر ان کا تقدس تو ختم نہیں کیا ہے۔ حقیقت میں اوستا لکھنے والوں کا ادبی معیار اس درجہ بلند نہیں تھا۔ اگر اس میں دلائل، استدلال نہیں ہیں البتہ زروانی عقائد عرفانیت اور یونانی فلسفہ کے معمولی اثرات ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ خیالات شاپور کے عہد کی تدوین کی کوشش میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر دین کرت اور دساتیر میں اوستا کہ گمشدہ نسکوں کی تفصیلات درج کی ہیں وہ عہد قدیم سے نہیں بلکہ مسلمانوں دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ قدیم دور میں معاشرے شعور نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی۔ اگر زرتشتی اوستا کو تلف کرتے تو اس تلف کرنے سے پہلے کوشش ہوتی تھی کہ اوستا کی تدوین کرکے اس کو قدر بہتر کرلیتے۔
ایرانی عہد قدیم سے ہی ایک بڑی فوجی طاقت تھے اور انہوں نے اہنے ارد گرد کی قوموں کو کبھی بھی اپنے سے برتر طاقت کی حثیت سے قبول نہیں کیا۔ رومیوں کی بالادستی جو ارد گرد کی قوموں میں قائم تھی مگر ایرانیوں نے اسے کبھی قبول نہیں کیا اور انہیں بارہا شکست دی بلکہ رومی بادشاہوں کو اسیر بھی کیا۔ رومیوں ان چبقلش کا میدان مشرق وسطہ بنتا تھا۔ وہاں ان کا سامنا جن قوموں سے پڑا وہ سب کی سب علم نواز قومیں تھیں اور ان میں یہودی ایک صخیم کتاب رکھتے تھے اور مشرق کی جانب برصغیر میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک ان کی بالادستی اکثر قائم رہی۔ جہاں کے ہندو وید رکھتے تھے۔ ان صخیم مذہبی کتابوں سے وہ متاثر تھے۔ اس لیے زرتشت کے خیالات کو مدون کرنے کا شوق اور ذوق پیدا ہوا۔ مگر چوں کہ ایرانی قدیم زمانے میں ادبی ذوق نہیں رکھتے تھے اور اس لیے کوئی آسان رسم الخط تریب دے سکے۔ اس لیے اوستا کو مدون کرنے میں انہیں ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بقول ابن المقتع کے سات مختلف رسم الخط مروج تھے۔ ان میں ایک رسم الخط لکھا جاتا آرامی میں اور اسے پڑھا جاتا فارسی میں۔ جہاں رسم الخط میں اتنے اختلاف تھے وہاں ادب میں ترقی کیا ہوگی اور ایرانیوں میں ادب و فنون میں اس ترقی کی جب وہ عربی رسم الخط اپنایا۔ یہی وجہ ہے ہمیں اوستا کے تدوین کی کوشش کی مختلف روایات نظر آتی ہیں۔ جو اسے مدون کرنے کی کوششوں کی نشادہی کرتے ہیں۔ حقیقت میں وہ بار بار کوششوں کے لیے دستیاب موداد بہت کچھ ملا۔ باوجود بہت مختصر حصہ ترتیب دے پائے جو اب موجود ہیں اور اسے ہم اوستا جانتے ہیں اور یہ لاطائل اور منتشر خیالات کا مجموعہ ہے اور اس سے بھی نشادہی ہوتی ہے کہ ایرانی ادبی ذوق نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کے خیالات منتشر اور تصاد سے بھر پور ہیں۔ جسے دیکھ کر البیرونی اور پروفیسر ایڈویر براؤن نے کہا تھا اوستا کو پڑھنے سے طبعیت گھبرا جاتی ہے۔
جب یورپ میں آکتیل نے اوستا کا ترجمہ پیش کیا تو لوگوں کا خیال تھا یہ کتاب عقل و دانش کا ایک عظیم مرقع ہوگی۔ لیکن اس میں طفلیانہ خرافات، خشک اعتقادات، تھکا دینے والے مکررات اور مضحکہ احکام کا ایک لا حاصل انبار کو دیکھ کر ولیم جونز نے آکتیل پر جعل سازی کا الزام لگایا تھا۔ فرانسوا نو نے کہا ہے آٹھویں صدی میں اوستا لکھی گئی تھی۔ لیکن آٹھویں صدی میں فارسیوں نے مسلمانوں کے زیر اثر ادب اور رسم الخط میں خاطر خواہ ترقی کرلی تھی اور عہد ساسانی کے آخر میں ان میں انشاء کا ذوق پیدا ہوگیا تھا اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ لیکن اس میں زیادہ ترقی رسم الخط کی مشکلات نہیں ہوئی۔ تاہم عہد مسلم میں عربی رسم الخط اپنانے کے بعد ادب میں بڑے پیمانے پر ترقی کا دور شروع ہوا۔ اگر اوستا مسلم عہد کی لکھی جاتی تو اگلی صدی میں لکھی جانے والی دوسری پہلوی کتب کی طرح علم، دلیل و فہم اور استدلال کا مجوعہ ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہے اور اوستا خرافات اور خشک اعتقادات مبنی ہے۔ جس کا انداز علمی نہیں بلکہ بچگانہ ہے لہذا یہ اشکانی دور اور اس میں مزید اضافہ ابتدائی ساسانی دور میں ہوا ہے۔ ساسانیوں کے زمانے میں اوستا خرد، پاژند تفسیر وغیرہ لکھی گئی اس میں بھی وی بنیادی فرائض کے بارے میں تھی یعنی نماز وغیرہ جو اس بات کا ثبوت ہے ساسانیوں کے زمانے بھی وہی مختصر سی اوستا تھی اور مسلمانوں یا زرتشتیوں نے اس کو نہ تلف کیا گیا اور نہ اس کو مدون کیا گیا۔ لہذا اوستا نہ صخیم کتاب تھی اور نہ وہ تلف ہوئی بلکہ جو اوستا لکھی گئی وہ ہمارے سامنے اب بھی موجود ہے۔