ریجینالڈ سپرگ ایک جیولوسٹ تھے جو جنوبی آسٹریلیا کی ایڈیاکارا پہاڑیوں میں 1946 میں کام کر رہے تھے۔ ان کو جیلی فش کی طرح کے فاسل ملے۔ انہوں نے اپنی دریافت کے بارے میں پیپر لکھا لیکن اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ جن چٹانوں سے یہ ملے، وہ پچپن کروڑ سال سے زیادہ پرانی تھیں۔ اس وقت خیال تھا کہ اس طرح کی پیچیدہ زندگی چون کروڑ سال سے زیادہ پرانی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ کیمبرین ایکسپلوژن کا وقت تھا۔ زمین کی تاریخ کا وہ دلچسپ ترین دور جب پیچیدہ زندگی کی انواع و اقسام نے جنم لیا۔ سپرگ کی دریافت کی اہمیت سمجھنے میں سائنسدانوں کو کئی دہائیاں لگیں۔ ان کی جیلی کی طرح کی چیزیں ملنے والی دلچسپ دریافتوں کے سلسلے کی پہلی قسط تھیں۔ ان سے ہمیں پتا لگا کہ کیمبرین ایکسپلوژن سے پہلے زندگی کی پیچیدگی کا ایک اور ایکسپلوژن ہوا تھا۔ یہ کیمبرین ایکسپلوژن کی طرح مشہور تو نہیں لیکن زمین پر خوبصورت اور پیچیدہ زندگی کا سویرا تھا۔ یہ ایوالون ایکسپلوژن تھا، جو کیمبرین سے ساڑھے تین کروڑ برس پہلے ہوا۔
کیمبرین کے دور سے پہلے کے فوسل، مثلا کرپٹوزون، ہمیں دو سو سال سے مل رہے تھے لیکن سپرگ کے نرم جسم والے فاسل وہ پہلی مرتبہ تھی جب کسی جاندار کی پوری کمیونیٹی ملی تھی۔ کیمبرین ایکسپلوژن سے پہلے نہ صرف کثیرخلوی زندگی موجود تھی بلکہ کسی کے خیال سے بھی زیادہ پیچیدہ اور متنوع تھی۔ لیکن ماہرین کو اپنا خیال بدلنے کے لئے مزید شواہد درکار تھے۔ 1957 میں برطانیہ کے چارن وُڈ جنگل میں کھیلتے لڑکے نے ایک عجیب فاسل دریافت کیا۔ کسی نے یہاں پر فاسل دیکھنے میں توجہ نہیں دی تھی کیونکہ یہاں پر پتھر ساٹھ کروڑ سال پرانے تھے۔ اس وقت تک پیچیدہ زندگی کے آغاز کی تاریخ سمجھنے جانے کی تاریخ سے قبل کے۔ یہ چارنیا تھا جو کئی سینٹی میٹر لمبا تھا اور واضح طور پر آرگنائزڈ سٹرکچر رکھتا تھا۔ چارنیا کی دریافت سے ماہرینِ ارضیات کو ان جگہوں میں دیکھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی جن کو وہ نظرانداز کرتے رہے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں محققین کو ایک بڑا خزانہ ہاتھ آیا۔ کینیڈا کے ایوالون پیننسولا میں، اس جگہ پر جس کو مسٹیکن پوائنٹ کہتے ہیں۔ چھپن سے اٹھاون کروڑ سال پرانی چٹانوں میں چند ایک فاسل نہیں تھے۔ ہزارہا فاسل تھے۔ یہاں کی زمین کے سینے نے یہ سب راز اگل دئے۔
کیمبرین ایکسپلوژن سے پہلے کی زندگی کیسی تھی؟ اس میں سب سے زیادہ رینجیوموف تھے۔ جو دیکھنے میں چارنیا کی طرح کے تھے، لمبے اور کسی پتے کی شکل جیسے۔ لیکن یہ پودے نہیں تھے۔ یہ کم گہرے سمندر کی تہہ میں رہتے تھے، جہاں فوٹوسنتھیسز نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ پودے تو نہیں تھے لیکن یہ جانور بھی نہیں تھے۔ یہ جانوروں کی طرح نہیں بڑھتے تھے۔ فریکٹل کی صورت میں شاخ در شاخ بڑھتے تھے۔ یعنی ایک بنیادی پیٹرن جو بار بار دہرایا جاتا تھا۔ ہر شاخ پورے جاندار کی چھوٹی صورت تھی۔ اس وقت جتنے جاندار زندہ ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس طریقے سے نہیں بڑھتا۔ دوسرے پری کیمبرین جاندار بھی اسی قدر منفرد اور مختلف تھے۔ مثال کے طور پر آج کے جانوروں میں سے اکثریت بائی لیٹرل سمٹری رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہوں یا شیر ، چھپکلی یا گولڈ فش، جھینگر یا اودبلاوٗ۔ سب کی دو سمٹرکل اطراف ہیں۔ (ایک طرف آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، بازو، پیر وغیرہ تو دوسری طرف بھی)۔ کچھ پری کیمبرین جاندار جیسا کہ ٹرائی براکیڈیم ہے، تین سمٹریکل سیکشن رکھتے تھے۔ آج کے دور کا کوئی جانور، پودا یا کوئی بھی اور چیز ایسی سمٹری نہیں رکھتے۔
زندگی کے درخت میں یہ کہاں پر فٹ ہوتے ہیں؟ اس پر اتفاق نہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سٹیم اینیمل ہیں اور جدید جانوروں کے آباء جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ فنگس یا پروٹسٹ کے۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ زندگی کی ایک الگ ہی کنگ ڈم تھی جو تمام کی تمام معدوم ہو گئی۔
لیکن کیمبرین سے پہلے کی تمام زندگی اس قدر مختلف نہیں تھی۔ ان میں سے کئی جاندار اور خاص طور پر وہ جن کا ارتقا بعد میں ہوا، ان میں ایسی خاصیتیں تھیں جو جانوروں میں ہیں۔ یہ پہلے میٹازوا تھے۔ جانور جن کے جسم کے الگ الگ حصے ہوتے ہیں اور سپیشلائیزڈ خلیے۔ اس کی ایک مثال ہےاوٹیا کی ہے۔ یہ ابتدائی سمندری اینیمون تھے۔ ان میں ہمیں پٹھوں جیسے خلیوں کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کے بعد وہ جاندار جن میں بائی لیٹرل سمٹری تھی اور حرکت کر سکتے تھے۔ ان میں سے ایک کمبریلا تھا۔ نرم جسم والا مولسک کی طرح کا جاندار جس نے اپنے نشان پتھروں پر چھوڑے۔ اس جاندار کی مچھر کی طرح کی سونڈ بھی تھی۔ اور پھر سپرگینا جس کا نام سپرگ پر رکھا گیا، لمبا اور سیگمنٹ والا جاندار، جس کا سر ہلال کی شکل کا تھا اور ابتدائی حسیاتی اعضاء تھے۔ خیال ہے کہ یہ ٹریلوبائیٹ کا جد تھا۔
ان تمام جانداروں کی موجودگی کے شواہد نے سائنسدانوں پر زندگی کی تاریخ کا نیا باب آشکار کر دیا۔ جس کا بیسویں صدی تک ہمیں علم نہیں تھا۔ زندگی کے اس باب کا نام 2008 میں رکھا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ورجینیا ٹیک سے تعلق رکھنے والی پیلینٹولوجسٹ کی ٹیم نے پری کیمبرین فاسلز پر ہونے والی تمام تحقیق کا مطالعہ کیا اور پتا لگایا کہ یہ سب کچھ ارتقا کی تاریخ کا ایک اہم باب تھا جس کو اپنی شناخت اور نام دیا گیا۔ اس کا نام ایوالون ایکسپلوژن ٹھہرا۔ کینیڈا میں اس جگہ کے نام پر جس نے اس قدر حفاظت سے اور اس قدر زیادہ شواہد سنبھال کر رکھے۔
سوال یہ کہ زندگی میں اس قدر تنوع اس دور میں آیا کیوں؟ جراثیموں کے قالین اور سادہ سفنج سے پٹھوں والے جاندار اور حسیات محسوس کرنے والے اعضاء تک زندگی محض چند کروڑ سال میں پہنچی کیسے؟ تیریسٹھ کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے طویل سردی کا دور ختم ہوا تھا۔ یہ ساڑھے آٹھ کروڑ سال پر محیط کرائیوجینین دور تھا۔ گلیشئیر پیچھے ہٹے تھے۔ پگھلتی برف اپنے ساتھ غذائییت سے بھرپور مٹی کو سمندروں میں بہت بڑی مقدار میں بہا کر لے گئی تھی۔ اس سے آکسیجن پیدا کرنے والے سائینوبیکٹیریا کے بہت بڑے بلوم پھیل گئے تھے جنہوں نے آکسیجن کی سطح سمندروں میں بڑھانا شروع کی تھی۔ سمندر میں زندگی کے لئے انتہائی موافق حالات پیدا ہو گئے تھے۔ اس سے چھ کروڑ سال کے عرصے میں وہ ٹپنگ پوائنٹ آیا جو ایوالون ایکسپلوژن تھا۔ چونکہ یہ دور زمین کے اپنے کیلنڈر کا اہم واقعہ ہے، اس لئے جیولوجی کے ٹائم سکیل کا ریکارڈ رکھنے والے آفیشل ٹیم (انٹرنیشنل یونین آف جیولوجیکل سائنسز) نے 2004 میں اس دور کو ارضیاتی کیلنڈر میں داخل کر لیا۔ یہ اضافہ اس کیلنڈر میں کئی دہائیوں کے بعد ہونے والی پہلی ترمیم تھی۔ یہ دور ایڈیاکرن پیرئیڈ کہلایا جو کہ 635 ملین سال سے لے کر 541 ملین سال پہلے کے درمیان کا پیرئیڈ ہے۔ اس کا نام آسٹریلیا کی ان پہاڑیوں پر رکھا گیا جہاں پر اس کا سراغ سب سے پہلے سپرگ نے تلاش کیا تھا۔
اس دور کا خاتمہ ہمیں فاسل ریکارڈ سے اس طرزِ زندگی کے ختم ہونے فاسلز کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ شاید سمندر میں آکسیجن کے گرتے لیول اور کیمبرین دور کے شکاری جانوروں کی آمد نے ان کا خاتمہ دس لاکھ سال کے عرصے میں کر دیا۔ زندگی کے اس اٹل اصول کے تحت: جو مطابقت نہیں رکھ سکتا، مٹ جاتا ہے، کیونکہ دنیا تو بدل رہی ہے۔
ابھی ہمیں اس کا بھی ٹھیک علم نہیں کہ ایڈیاکرن کے دور کے جانداروں کا رشتہ موجودہ جانداروں سے کس طرز کا تھا لیکن جب سپرگ نے 1946 میں چٹانوں میں وہ نرم سے جانداروں کے فاسل دیکھے تھے، اس وقت سے اب تک ہم جاننے کا ایک لمبا سفر کر چکے ہیں۔
نیچرل ہسٹری اور جیولوجیکل ٹائم کے بارے میں ہماری ڈیفی نیشن بدل رہی ہے۔ کیونکہ کسی وقت کسی ایسے پتھر پر، جہاں پر پہلے کسی نے نہ دیکھا ہو، ملنے والے دلچسپ نشان ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اور یہ شواہد ہماری سمجھ کو کئی بار یکسر تبدیل بھی سکتے ہیں، جیسا کہ ایوالون ایکسپلوژن کے بارے میں ہوا۔ کیونکہ یہی سائنس کا طریقہ ہے۔