جگر مراد آبادی
جگرؔ مراد آبادی، نام علی سکندر تخلص جگرؔ۔ ولادت ۶؍اپریل ۱۸۹۰ء مرادآباد (اتر پردیش) ۔ قرآن پاک ، فارسی اور اردو کی تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق گھر پر ہوئی۔ ان کے والد علی نظر شاعر تھے۔ جگر کے خاندان کے دوسرے اصحاب بھی شاعر تھے،اس طرح جگر کو شاعری ورثے میں ملی ۔چناں چہ جگر کی شعر گوئی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۴ برس کے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے حیات بخش رسا کو کلام دکھایا، پھر حضرتِ داغ سے رجوع کیا اور کچھ عرصہ امیر اللہ تسلیم سے بھی اصلاح لی۔ جگر صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف اضلاع میں گزرا۔ ان کا پیشہ چشموں کی تجارت تھا۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگر کی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ جگرؔ مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر تھے ۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔بحیثیت انسان وہ نہایت شریف واقع ہوئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے جگرؔ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی سے انھیں پانچ ہزار روپیہ کا انعام ملا۔ اور دو سو روپیہ ماہ نامہ وظیفہ مقرر ہوا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ شراب ترک کرنے کے بعد ان کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی۔ وہ مستقل طور پر گونڈہ میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ ۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء کو تقریباً صبح ۶بجے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔