مسزکم لاری نے ربع صدی تک گل فروش کی حیثیت سے ملازمت کی۔ جولائی 2020 میں جب آسٹریلیا میں کورونا وائرس کا پھیلاؤکافی حد تک قابومیں آگیا تو اس نے ملبورن میں پھولوں کی اپنی دکا ن کھول لی۔لیکن اس کے چند ہفتوں کے بعد شہر کورونا کی نئی لہر کی زد میں آگیا اور وبا سے روزانہ متاثر ہونے والوں کی تعداد سات سے بھی تجاوز کر گئی۔
مسز لاری کو اپنی دکان بند کرکے گھر بیٹھنا پڑ ا جہاں رات کا کرفیو نافذ تھا اور دن میں بھی بلاوجہ گھر سے نکلنا منع تھا۔ یہ سلسلہ 112دن تک جاری رہا حتی کہ آسٹریلیا نے وبا پر قابو پا لیا۔پچھلے تیس دن سے آسٹریلیا میں کورونا کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔مسز لاری کہتی ہیں کہ ’یہ حقیقتاََ تباہ کن تھا جب میں ہفتوں تک دُکا ن نہ کھول سکی اور میرا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا‘۔ مسز لاری ان لاکھوں آسٹریلین کاروباری افراد میں سے ایک تھی جن کے کاروبار کرونا کی وبا کی وجہ سے سخت متاثر ہوئے۔ لیکن حکومت نے بر وقت قدم اٹھایا اور ایسے کاروباروں کی مالی معاونت کر کے انہیں مکمل تباہی سے بچا لیا۔اب یہ کاروبار پھر سے کھل گئے ہیں۔ اس دوران حکومت نے بے روزگاروں، کم آمدنی والوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی بھر پور مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف لوگ مالی پریشانی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ مجموعی ملکی معیشت بھی دیگر ممالک کی نسبت بہت کم متاثر ہوئی۔
کاروباری لیڈروں نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکومت کی سخت پالیسی پر تنقید کی لیکن اس پالیسی کے نتیجے میں یہ خونی وبا آسٹریلیا میں زیادہ پنپنے نہیں پائی۔ آسٹریلیا میں کل 27965 افراد کرونا سے متاثر ہوئے اور 908 اموات ہوئی ہیں جو بفضلِ تعالیٰ یورپ،امریکہ اور دیگر ممالک کی نسبت انتہائی بہتر صورت حال ہے۔امریکہ، برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک میں کورونا کے خونی پنجوں نے معاشروں کو جکڑ رکھا ہے۔ اب حالات اس نہج کو پہنچ گئے ہیں کہ صحت کے مراکز کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور لوگ طبی امداد سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ان مریضوں اور ان کے لواحقین کی مایوسی ناقابل بیان ہے۔ یہ صورتحال اسی وقت بہتر ہو گی جب ویکسین کا استعمال عام ہو گا۔ اللہ کرے وہ وقت جلد آجائے کیونکہ اس وقت انسانی جانیں داؤ پر لگی ہیں۔
اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں بہتر حکمت عملی کی وجہ سے اب حالات نارمل ہیں اور لوگ احتیاط کے ساتھ مگر آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ڈائریکٹر آف ہیلتھ سٹیفن ڈکٹ نے کہا کہ’آسٹریلیا کی کامیابی اس لیے بھی قابل ذکر ہے کہ ہم جمہوری ملک ہیں اور چین کی طرح لوگوں کو زور زبردستی گھروں میں بند نہیں کر سکتے تھے۔اس کا کریڈٹ عوام کو بھی جاتا ہے جنہوں نے کاروباری افراد کے بجائے صحت کے ماہرین کے مشوروں پر عمل کیا۔یہ آسٹریلیا کی حکومتوں کی اعلیٰ پالیسیوں اور مضبوط لیڈر شپ کی بدولت ممکن ہوا ہے‘۔
میرے خیال میں عوامی شعور اور قانون پر عمل داری بھی اس کی وجوہات ہیں۔ اب جب کہ کورونا کافی حد قابو میں آچکا ہے لوگ اب بھی صحت کے اصولوں پر بدستور عمل پیرا ہیں۔اب بھی کوئی ہاتھ نہیں ملاتا،باہمی فاصلہ قائم رکھتے ہیں،ہاتھ دھوتے رہتے ہیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔جہاں تک قانون کی عمل داری کا تعلق ہے اس کی ایک مثال نیو ساوٗتھ ویلز کا وزیر ڈان ہارون ہے جسے لاک ڈاؤن کے قوانین کی خلاف ورزی پر نہ صر ف ایک ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑا بلکہ وزارت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔مسٹر ہارون کا ایک گھر سڈنی اور ایک سڈنی کے شمال میں واقع نیو کاسل شہر میں ہے۔ ڈان ہارون نے سڈنی سے نیو کاسل اپنے دوسرے گھر کا سفر کیا جو پولیس کے مطابق غیر ضروری تھا اور لاک ڈاؤن کی پالیسی کے مطابق نہیں تھا۔ لہذا پولیس نے اس پر جرمانہ کر دیا۔ حقیقی جمہوری ملک میں کوئی شخص حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا جب یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے قانون شکنی کی ہے۔ لہذا مسٹر ڈان ہارون کو وزارت سے بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ جہاں قانون پر اس حد تک عمل ہوتا ہو وہاں کورونا جیسی وباپر قابو پانے میں بھی یقیناََ مدد ملتی ہے۔
آغاز میں جب سخت قوانین نافذ تھے تو جنازے میں صرف دس افراد کی شرکت کی اجازت تھی۔ انہی دنوں میرے ایک دوست کے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ میں جنازہ ادا کرنے قبرستان گیا تو ان کی فیملی او رقریبی دوستوں کی کل تعداد پچیس کے قریب تھی۔ لہذا ہم نے تین قسطوں میں جنازہ ادا کیا۔ حالانکہ وہاں پولیس یا کوئی اور دیکھنے والا موجود نہیں تھا۔آسٹریلیا میں اب زندگی معمول پر آتی جارہی ہے۔حالیہ دنوں میں آسٹریلیا اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان سڈنی میں ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی میچز ہوئے تو تیس ہزار تماشائی میدان میں موجود تھے۔ جب کہ کچھ عرصہ پہلے تماشائیوں سے خالی میدانوں میں بے رونق مقابلے ہو رہے تھے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق کاروباری افراد میں اعتماد لوٹ آیا ہے اور وہ تندہی سے مصروفِ کار ہو گئے ہیں۔ماہرین کی رائے کے مطابق اس کی وجہ آسٹریلیا کی کامیاب کورونا حکمت عملی بھی تھی اور دیگر کئی عوامل بھی کار فرما تھے۔جس میں اس کا جغرافیائی محل وقوع،موسم، آبادی،سیاسی کلچر اور وبا پھیلنے کا وقت بھی اہم تھا۔
1996میں طب میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے آسٹریلین سائنس دان پیٹر ڈورتھی نے کہاکہ ’آسٹریلیا اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا کہ یہاں اتنے غیر ملکی نہیں آتے جتنے یورپ اور امریکہ میں آتے ہیں لہذا باہر سے وائرس اتنا نہیں آیا جتنا کہ دیگر ممالک میں۔ ویسے بھی آسٹریلیا کے اندر دیگر کئی وائرس موجود نہیں ہیں جو دنیا کے کئی ممالک میں عام ہیں۔آسٹریلین حکام نے بہت جلد لاک ڈاؤن شروع کر دیا، غیر ملکی پروازیں بند کر دیں اور ہوٹل قرنطینیہ کا مربوط سلسلہ شروع کیا جو انتہائی مفید ثابت ہوا‘۔
ابھی بھی غیر ملکیوں کی آمد مکمل بند ہے۔ جو آسٹریلین شہری وطن واپس آتے ہیں یا کسی دوسری ریاست میں جاتے ہیں انہیں گھر جانے سے پہلے اپنے خرچ پر 14 دن ہوٹل قرنطینیہ میں رہنا پڑتا ہے۔جب سے یہ وبا پھیلی ہے آسٹریلن عوام کا حکومت پراعتماد مضبوطی سے قائم ہے اور وہ تمام اصول و ضوابط پر سختی عمل پیرا ہیں۔آسٹریلیا میں کورونا ٹسٹ عام،سہل اور مفت ہے اور حکومت ہر شہری کو ٹسٹ کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسی طرح کسی شخص کا ٹسٹ مثبت آتا ہے تو اس سے ملنے والے تمام افراد اور اس کے جانے والی جگہوں کا پتا چلایا جاتا ہے اور تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے اس وبا کو پھیلے سے روکنے میں کامیابی رہی۔
آسٹریلین حکومت نے مختلف ذرائع سے بڑے پیمانے پر کرونا ویکسین کا انتظام کر لیا ہے جو جلد ہی عوام کے لیے دستیاب ہو گی۔یوں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگا پور کے ساتھ ان تین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس وبا پر قابو پانے میں بقیہ دنیا سے سبقت حاصل کی ہے۔دنیا کو ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔اُمید ہے کہ بنی نوع انسان اس موذی وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...