آسٹریلیا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ انڈیا کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ اور پاکستان سے نو گنا بڑا ملک، جس کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے۔ اتنا بڑا ملک اتنا غیر آباد کیوں؟ اس کا آسان جواب تو یہاں کا صحرا اور پانی کی کمی ہے لیکن اس کی بڑی وجہ یہاں کی مٹی، جغرافیہ اور موسم کا سائیکل ہے۔ آسٹریلیا کی مٹی یہاں کا سب سے بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ بہت کم غذائیت رکھنے والی مٹی، پودوں کی سب سے سست رفتار بڑھوتری کو سپورٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اور سب سے کم پیداوار دینے والی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی مٹی دنیا میں سب سے پرانی ہے۔ اربوں سالوں میں بارشیں ان سے غذائیت نچوڑ چکی ہیں۔ زمین کی سطح پر موجود سب سے پرانی چٹانیں یہاں پر ہی ہیں جو مغربی آسٹریلیا کی مرچیسن رینج ہے۔
مٹی سے غذائیت کم ہونے کے بعد تین بڑے پراسس اس کو تازہ کرتے ہیں۔
پہلا پراسس آتش فشانی عمل ہے۔ اس سے زمین کے اندر سے تازہ میٹیرئل سطح پر آتا ہے۔ جاپان، انڈونیشیا یا ہوائی کی زرخیز مٹی کی وجہ یہ عمل ہے۔ آسٹریلیا میں سینکڑوں ملین سال سے آتش فشانی عمل صرف مشرقی آسٹریلیا میں محدود پیمانے پر ہوا ہے۔
دوسرا گلیشئیرز کا چلنا پھرنا ہے۔ گلیشئیر گھوم پھر کر زمین میں اگاڑ پچھاڑ کر دیتے ہیں، کھود کر، پیس کر، توڑ کر زمین کی سطح کو بدل کر تازہ کر دیتے ہیں۔ اس جگہ پر اور جہاں پر یہ مٹی خود جہاں اڑ کر بھی جاتی ہے، یہ علاقے زرخیز ہو جاتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں پچھلے دس لاکھ برس میں نصف علاقے پر گلیشئیر چلتے پھرتے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں محض ایک فیصد علاقے سے بھی کم پر یا پھر تسمانیہ کے جزیرے پر۔
تیسرا عمل سطح کا آہستہ اوپر اٹھنا یا اپ لفٹ کا سائیکل ہے۔ جس سے نئی مٹی ابھرتی ہے۔ برِصغیر، امریکہ اور یورپ کے زرخیز ہونے میں یہ عمل رہا ہے۔ آسٹریلیا میں پچھلے چند سو ملین سالوں میں یہ بھی بہت کم ہوا ہے۔
اس وجہ سے آسٹریلیا کی مٹی اس قدر ناقص ہے۔
اتنی کم پیداوار رکھنے والی مٹی کی وجہ سے آسٹریلیا کی معیشت پر اس کے بڑے اثرات ہیں۔ اتنی کم زرعی پیداوار دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتی۔ کاشت کرنے کے لئے وسیع رقبہ اور مصنوعی غذائی اجزاء کی ضرورت ہے۔ زرعی مشینری اور ایندھن کے بھاری استعمال کی بھی۔ اس کی گندم کی بیلٹ گویا ایک بڑا سا گملا ہے جس میں قدرتی مٹی محض ایک سبسٹریٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس وجہ سے آسٹریلیا میں اگنے والی زرعی اجناس مہنگی ہیں اور دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ مقامی مالٹے کے مقابلے میں آٹھ ہزار میل دور برازیل سے آنے والے سستے ہوتے ہیں۔ کینیڈا سے آنے والا گوشت آسٹریلیا کو سستا پڑتا ہے۔ صرف چند ہائی ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس میں آسٹریلیا کے کسان دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اس کا دوسرا نقصان درختوں کی زراعت یا ایگروفارسٹری کو ہے۔ جنگل کٹ جانے کے بعد آسانی سے واپس نہیں اگتے۔ ستم ظریفی یہ کہ یہاں کا مقامی درخت بلیوگرین گم دنیا کے دوسرے علاقوں میں یہاں سے بھی بہتر اگایا جا رہا ہے۔
اس کا تیسرا اور زیادہ حیران کرنے والا نقصان مچھلیوں کو ہے۔ مچھلیاں تس سمندر اور دریاوٗں میں ہوتی ہے۔ ان کا مٹی سے کیا کام؟ لیکن ایسا نہیں۔ دریا غذائیت کو بہا کر لے جاتے ہیں اور اس مٹی سے آبی زندگی پھلتی پھولتی ہے۔ اس وجہ سے یہاں کا پانی بھی ویران پڑا ہے۔ دنیا کے دو سو ممالک میں تیسرے نمبر پر سب سے بڑا ساحل آستریلیا کے پاس ہے لیکن سمندری شتریز میں اس کا دنیا میں نمبر 55واں ہے اور تازہ پانی کی فشریز میں یہ کسی شمار میں ہی نہیں آتا۔
جب یہاں پر پہلی مرتبہ یورپ سے لوگ رہنے آئے ہوں گے تو انہوں نے یہاں پر اونچے درخت دیکھے ہوں گے۔ وکیٹوریا کے بلیوگم درخت چار سو فٹ تک اونچے ہو سکتے ہیں۔ انہیں گمان ہوا ہو گا کہ یہاں کی مٹی زرخیز ہے۔ جب یہ درخت کٹے ہوں گے اور بھیڑوں نے گھاس چر لی ہو گی تو پھر ان نئے آنے والوں کو اندازہ ہوا ہو گا کہ یہ واپس کس قدر سست رفتار سے اگتے ہیں۔ اپنی کالونیل دور سے اب تک آسٹریلیا کا زرعی شعبہ زمین کی کلئیرنس، سرمایہ کاری، دیوالیہ پن اور چھوڑ دئے جانے کے کئی سائیکل دیکھ چکا ہے۔
اس کا دوسرا بڑا مسئلہ یہاں کا نمک ہے، جس کی اپنی وجہ یہاں کا جغرافیہ ہے، جس کو بزھانے کی ایک وجہ یہاں پر کی جانے والی زراعت کی کوششیں ہیں۔ سوائل کیمسٹری کے جدید علم کے بغیر یہاں فصلوں سے زندگی بسر کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہوں گی۔ یہاں کا ایک اور بڑا مسئلہ یہاں کے موسم کا پیٹرن ہے جو ایک سال سے دوسرے سال میں تبدیل ہوتا ہے۔ ایک دہائی سے دوسری دہائی میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہاں پر دیر تک رہنے والے سردیوں کی بارشوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔ یہ ایل نینو کی جنوبی اوسیلیشن کی وجہ سے ہے اور کلائمیٹولوجی کے ماہرین کو بھی اس کا علم حال میں ہوا ہے۔ یہاں پر پہلے رہنے والوں کے لئے موسم کا اندازہ لگانا ممکن نہیں رہا ہو گا اور بارش والے سال ان کو دھوکا دیتے رہے ہوں گے۔ گلوبل وارمنگ اب اس چکر کو مزید پیچیدہ کر رہی ہے۔
آسٹریلیا کی آبادی کیوں کم ہے؟ کیونکہ یہاں کی مٹی زیادہ آبادی سپورٹ ہی نہیں کر سکتی۔ زمین میں زیادہ آبادی کو سپورٹ کرنے کے وسائل ہی نہیں ہیں۔
وسائل محدود ہیں۔ سائنس سے ہم ان کو گہرائی میں جانتے ہیں۔ مسائل کو سمجھتے ہیں اور پھر ان کو دانشمندی سے استعمال کرنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ ان کا علاج اور حل تلاش کرتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی ٹولز سے ان پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ دوسرے تمام جانداروں کے مقابلے میں انسان میں فرق اس علم کا اور اس سے حاصل ہونے والی دانش کا ہے۔ دوسرے جانداروں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھاتے رہتے ہیں، اس وقت تک جب تک وسائل ختم ہو جانے سے بڑی تعداد میں ان کی آبادی ختم نہ ہو جائے۔ عقل و فہم رکھنے والے انسان اس سے بہتر کر سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کو اپنے وسائل کی مینجمنٹ میں اندرونی طور پر پریشر گروپس کی طرف سے، خاص طور پر زراعت کے شعبے سے منسلک طاقتور گروپس کے طرف سے مزاحمت رہی ہے۔ لیکن ابھی تک آسٹریلیا ان محدود وسائل کو ٹھیک طریقے سے استعمال کرنے اور مینج کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک وسائل کو استمعال کرنے میں ناکام ہیں۔ جو ماحول کی حفاظت اور وسائل کا توازن نہیں کر سکتے، وہ معاشی طور پر بھی پیچھے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کا شکار بھی۔
اس فہرست کو نیچے دئے گئے لنک سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ماحولیات پرفارمنس انڈیکس
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...