پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم انکارپوریٹڈ(پالف) آسٹریلیا کے زیرِ اہتمام یوم آزادئ پاکستان شایان شان منانے کے لیے ایک آن لائن تقریب کا انعقاد14 / اگست کی رات کو کیا گیا جس میں آسٹریلیا، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے پاکستانیوں نے حصہ لیا۔پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے جب کہ صدارت پالف کے صدر افضل رضوی نے کی۔
پاکستان سے ”ہم سماج“ کے سربراہ جناب ارشد قریشی نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی جس کے لیے پالف ان کی شکر گزار ہے۔
مہمانِ خصوصی جناب پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب نے یومِ آزادی ُپاکستان کے حوالے سے آن لائن سامعین کو اپنے خیالات سے مستفید کرتے ہوئے کہا کہ 14اگست 1947 ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور آج ہم آزادی کی تہترویں سالگرہ منارہے ہیں۔ انہوں نے آزادی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اسے بہت بڑی نعمت قرار دیا۔آزادی کے پسِ منظر کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ برصغیر پاک وہند پر انگریزوں کی حکومت اور ہندو اکثریت کے ساتھ ان کی ہمدردیاں تھیں اور وہ مسلمان اقلیت پر جورو ستم ڈھارہے تھے چنانچہ مسلمان اکابرین نے محسوس کیا کہ ہم ہندو اکثریت میں زندگی نہیں گزار سکتے اس لیے دو قومی نظریے کی بنیا د پر پاکستان کے حصول کی تحریک شروع کی جس کی بدولت بالآخر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ڈاکٹر صمدانی نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ان تھک جدو جہد ہی قیام ِ پاکستان کی اہم کڑی تھی کیونکہ انہوں نے اس آزادی کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ تاہم پاکستان آسانی سے معرضِ وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کے لیے بہت بھاری قیمت ادا کر نا پڑی۔ پاکستانی معاشرت اور اس کے بنیادی اصولوں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد، ایمان اور یقین پاکستان مین بسنے والوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قائد اعظم کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے نوجوانوں کو مستقبل کا معمار قرار دیا۔انہوں نے کہا قائدِ اعظم نے ہمیشہ نوجوانوں کو تنظیم اور اتحاد کا پیغام دیا۔ بعد ازاں مزید کہا کہ پاکستان عالم ِ اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت ہے۔
صدر پالف افضل رضوی نے کہا کہ پاکستان بے بہا قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔ انہوں نے مہانِ خصوصی کا شکریہ بھی ادا کیا اور آن لائن تقریب کے شرکاء کے جوش و جذبہ کو دیکھ کر کہا کہ علامہ اقبالؒ نے سچ کہا تھا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
تقریب کے میزبان عاطف مجید ملک نے سب شرکاء کوپالف آسٹریلیا کی طرف سے خوش آمدیدکہا اور جشنِ یوم ِ آزادیئ پاکستان کے اس پروقار پروگرام کا آغاز مصعب بن عمیر نے تلاوتِ قرآنِ مجید سے کیا۔تنظیم کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد پاکستان کا ”قومی ترانہ“ بجایا گیا جس کا اہتمام تنظیم کے ایگزیکٹو ممبر قتادہ محمد نے کیا۔
اس پروگرام کے پسِ منظر میں سوچ اور فکر یہ تھی کہ بچوں اور نوجوان طبقے کو یومِ آزادی ئ پاکستان کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔چنانچہ پاکستان اور آسٹریلیا سے بچوں نے ملی نغمے پیش کیے اور اپنی تقاریر سے سب کو متاثر کیا۔حورین عاطف نے اپنی پیاری سی آواز میں جان جان پاکستان اور دل دل پاکستان کے دو مصرعے گائے اور کہا کہ مجھے پاکستان سے پیار ہے، مجھے پاکستان پسند ہے۔ حالانکہ اس چار پانچ سال کی بچی جس کی پیدائش آسٹریلیا میں ہوئی ہے اور اس کے مہ وسال یہیں گزرے ہیں اس کی زبان سے ایسے پیارے الفاظ کا ادا ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس کے والدین میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور نسلِ نو کو اسی عزم حوصلے اور امید کے ساتھ منتقل ہورہی ہے کہ یہ سلسلہ آئیند بھی جاری رہے گا۔
طروبہ درانی اورمہدی درانی نے ”اس وطن پہ دل وجان قربان“ ملی نغمہ پیش کرکے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔خاص طو پر ننھے مہدی نے اپنے رقص اور اپنی توتلی زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر سب کو خوش کر دیا۔ اس کے بعد نوال ظفر عثمانی نے راقم الحروف کی پاکستان کے تہترویں یومِ آزادی کے موقع پر تحریر کردہ نظم ”یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے“ اپنے مخصوص اور دلربا انداز میں پاکستانی بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے پیش کی۔
یہ فیصلہ ہم نے کر نا ہے
ہم نے گَر آگے بڑھنا ہے
تو ہر محاذ پہ لڑنا ہے
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے
ترقی کے زینے پر چڑھنا ہے
تو سبق صدق کا پڑھنا ہے
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے
وطن کی خوشحالی کی خاطر
دن رات ایک کرنا ہے
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے
اپنے پاؤں پر چلنا ہے تو
گِر گِر کر ہم کو سنبھلنا ہے
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے
وطن کی خاطر پیارے بچو!
ہم سب نے جینا مرنا ہے
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے
ازاں بعد پاکستان سے ننھے منھے بچے سید عاشر نویدنے یومِ آزادی پاکستان کے حوالے سے اپنی پر جوش تقریرسنائی جو واقعی بہت عمدہ تھی جس پر سامعین نے خوب سراہا۔
میلبورن سے زینب، فاطمہ اور زارا نے بھی ملی نغمہ”دل دل پاکستان“ پیش کیا۔ ان کے بعد سید فہد اور سید سیفی نے ”اے راہِ حق کے شہیدو“ پیش کرکے ماحول کسی حد تک مغموم بھی کیا اور جوش بھی پیدا کیا۔
عاطف مجید نے کہا کہ سامعین!انہی بچوں اور جوانوں کے لیے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
باقاعدہ تقریب کے بعد اوپن سیشن کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں ماؤ نٹ گیم بئر سے سعد حبیب نے کہا کہ پالف نئی نسل کو اپنے ادب وثقافت سے جڑے رہنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے جو ایک بہت ہی اچھی بات ہے۔ ڈاکٹر مفضل نے اپنی گفتگو میں قائد اعظم کے اقوالِ زریں کے حوالے سے روشنی ڈالی۔قبل ازیں حسیب احمد نے پاکستان کے قیام کی بابت کہا کہ یہ خالصتاً ردِ وطنیت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔اس لیے ہمیں بھی اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
رپورٹ: سیدہ گیلانی-آسٹریلیا