کہا جاتا ہے عورتیں عمر چھپاتی ہیں، انہیں چھوٹا بننے کا شوق ہوتا ہے۔ 29 سے 30 سال اور 39 سے 40 سال کا ہونے میں دس دس سال لگا دیتی ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ
لیکن میرا مشاہدہ تو کچھہ اور ہے۔
حال ہی میں کچھہ نئے فیس بک مرد دوستوں کے بارے میں جاننے کیلئے ان کی پروفائلز دیکھیں تو ان کی تاریخ ہائے پیدائش اس طرح درج تھیں ۔۔
13 مارچ
22 جولائی
28 ستمبر
یکم جولائی
یعنی سن غائب ۔۔۔۔ ظاہر ہے عمر چھپانے کا شوق !
اب اپنے آس پاس کی خواتین کا سوچا تو یہ نتیجہ نکلا کہ انہیں چھوٹا بننے کا نہیں، بعض کیسز میں تو بڑا بننے کا شوق ہے۔
اپنے گھر سے شروع کرتا ہوں۔۔۔ ایک مضمون میں مسرت کلانچوی کی عمر دو سال کم چھپ گئی۔ اس نے خوش ہونے کی بجائے اس پر احتجاج کیا اور درست کرنے کیلئے کہا۔ ریکارڈ میں اس کی عمر ایک سال زیادہ لکھی ہے، لیکن اس نے اس کا ذکر شاذ ہی کیا۔ یوں 59 برس کی عمر میں ریٹائر ہوئی۔ ہوا یوں کہ میٹرک کا داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ عمر کم ہے۔ اس پر عمر ایک سال بڑھا کر داخلہ بھیجا گیا۔
میری سگی سہیلی غزالہ نثار 50 سال کی کیا ہوئی کہ دیگیں پکوا کر سارے محکمے میں اعلان کیا۔
یونیورسٹی کی ایک اور دوست تھی ، اسے جب یہ پتہ چلا کہ وہ مجھہ سے چار ماہ بڑی ہے تو اس کے بعد وہ مجمع میں بھی یہ کہہ کر ڈانٹ دیتی کہ ۔۔۔’’ بیٹا، بڑی ہوں تم سے !‘‘
ایک فیس بک دوست سندھ سے لاہور آئی تو مجھے بھی ملی ۔ تھوڑا عرصہ پہلے فیس بک نے اس کی سالگرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے عمر بھی بتائی تھی۔ وہ ملی تو لگا جیسے فیس بک نے دس سال بڑا بتایا ہے ۔ شاید ٹائپ کرتے ہوئے 1994 کی بجائے 1984 لکھا گیا ہو۔ پوچھا کہ فیس بک پر عمر زیادہ لکھی ہے؟ تو جواب میں اصرار کیا کہ نہیں اتنی ہی ہے۔
ایک کشمیری کہانی کار دوست ہر دوسرے تیسرے دن اپنی مصروفیات کی نئی تصویر فیس بک پر لگاتی ہے ۔ چوبیس پچیس کی لگتی ہے۔ لیکن وہ بضد ہے کہ 31 سال کی ہوگئی ہوں۔
فیصل آباد کی پروفیسر صاحبہ مجھہ سے 9 سال چھوٹی ہیں۔۔ لیکن ایسے مخاطب کرتی ہیں جیسے میری بزرگ ہوں۔ ویسے اب انہوں نے خود لکھا ہے کہ بڑا بننے کا ان کو بچپن سے شوق تھا۔
بے بے ، آپا کہلانا اچھا لگتا ہے۔
سلمیٰ اعوان صاحبہ مجھہ سے پانچ چھہ سال ہی بڑی ہوں گی لیکن وہ مجھے اور مسرت کو بیٹا، بیٹی کہتی ہیں۔
فرخندہ لودھی بھی ، مسرت کی بڑی بہن تو ہوسکتی تھیں لیکن بنتی ماں تھیں۔ آخری علالت میں بھی خیال رہا ، ہسپتال سے صابر لودھی صاحب کو مسرت کے کالج بھیجا کہ اسے کتاب ( جنڈ دا انگیار) دے کر آئیں۔
کم زیادہ عمر کے ذکر سے ایک بڑی مسجد کے سرکاری خطیب یاد آگئے۔ ساٹھہ سال کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ سب شان وشوکت تو ختم ہونے والی ہے۔ کسی وزیر شذیر سے رابطہ کیا ، درخواست دی کہ ریکارڈ میں عمر غلط درج ہے۔ ساٹھہ کا نہیں پچاس کا ہونے والا ہوں ۔ وزیر اعلیٰ نے منظوری دے دی اور وہ 60 سے پھر 50 سال کے ہوگئے !
ایک عزیزہ نے بھی افسری کی مدت بڑھانے کیلئے کم عمر والا شناختی کارڈ بنوایا لیکن انہیں اس کا خیال بہت دیر سے آیا۔ ریکارڈ میں تاریخ پیدائش تبدیل کرنے کی درخواست پر کسی کارروائی سے پہلے ریٹائرڈ ہوگئیں۔
ہاں ہماری ایک ملنے والی نے کم عمر والا نیا شناختی کارڈ ہونے والے سسرال کو دکھانے کیلئے بھی بنوایا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“