بارش بے حد تیز ہو چکی تھی ۔ وہ لحاف میں دبکی ہو ئی لیٹی تھی، اسے نہ موسلا دھار با رش کی آواز سنا ئی دے رہی تھی اور نہ ہی بادلوں کی گرج۔ ہاں کبھی کبھی آسمانی بجلی کی چمک اس کے کمرے کے ٹوٹے ہو ئے روشندان سے اندر داخل ہو کر پورے کمرے کو جگمگادیتی اور اس کی روشنی لحاف کے ان حصوں سے جہاں جہاں سے روئی ہٹ کر صرف کپڑا رہ گیا تھا ایک لحظے کے لئے اندر آ جا تی تو وہ چونک سی جاتی۔
اس کے کا نوں میں تو اس کے باپ کی آ وازیں آ رہی تھیں جو اس کی ماں کو روئی کی طرح دھن رہا تھا اور گالیاں دے رہا تھا ۔
یہ روز کا معمول تھا ”جب تک ابا کو پان، سگریٹ اور جوئے کے لئے پیسے ملتے رہتے سب کچھ ٹھیک رہتا ۔ جب ماں پیسے دینے کو منع کر تی تو باپ ماں کے ساتھ یہی سلوک کر تا ۔“ وہ لحاف کے اندر لیٹے لیٹے سوچ رہی تھی ۔ اس کا دل چا ہتا کہ باپ کو گھر سے نکال دے۔ اس کو اپنے باپ سے نفرت سی ہو نے لگی تھی۔ ایک دفعہ وہ اس کی ماں کو مار رہا تھا ، اس سے دیکھا نہیں گیا تھا ، وہ بیچ میں آگئی اور رو رو کر کہنے لگی
” ابا مت ما رو میری ماں کو ۔ “ تو باپ نے ماں کو چھوڑ کر اسے مار نا شروع کر دیا تھا ۔
اس دن ماں نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور سختی سے بولی تھی ” دیکھ ارشد میں تجھے سمجھائے دیتی ہو ں میرے دونوں بچوں کی طرف کبھی نظر مت ڈالنا ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا ۔ “ اور ابا بڑ بڑا تا ہو، ا با ہر نکل گیا تھا ۔اس نے لحاف سے منہ با ہر نکالا۔ ماں اپنے
آ نسو پونچھتی جارہی تھی اور کمرے کی چھت جہاں جہاں سے ٹپک رہی تھی اس کے نیچے برتن رکھ رہی تھی ۔وہ آہستہ سے لحاف کے اندر ہو گئی ۔ تھوڑی دیر بعد ماں آکر اس کے برابر لیٹ گئی۔
صبح جب آ نکھ کھلی ، بارش تھم چکی تھی ،ٹوٹے ہو ئے روشن دان سے اندر آ تی ہو ئی سنہری دھوپ کی کر نیں کمرے میں روشنی پھیلا رہی نھیں ۔ صغرا جلدی جلدی ناشتہ بنا رہی تھی ۔ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہاتھا جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔ زینی اسکول جانے کے لئے اٹھی اور بھائی کو کندھے سے ہلا تی ہو ئی بو لی ۔
” ثاقب ۔ اٹھ جلدی اسکول کو دیر ہو رہی ہے۔ “ثاقب آنکھیں ملتا ہو ا اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
” زینی بیٹا آج سارے اسکول بند ہیں ۔ پورا شہر تا لاب بنا ہو ا ہے۔ “ ماں بولی ۔
زینب کو سب پیار سے زینی بلا تے تھے ۔ بہت سے لوگ تو اس کے ” زینب “ نام سے واقف ہی نہیں تھے۔
” تو ماں آج تم بھی کام پر نہیں جا ﺅگی ۔؟“ زینی نے خوشی سے ملے جلے جذبات سے پو چھا۔
” غزالہ بیگم صاحبہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی ۔ دوسرے گھروں میں جا ﺅں یا نہ جاﺅں ان کے گھر ضرور جا ﺅں گی ۔ وہ ہمیشہ وقت بے وقت میری مدد کر تی ہیں ۔ تمہا ری اسکول کی فیس یا کتابوں وغیرہ کے لئے جب بھی پیسے مانگے ، انہوں نے کبھی منع نہیں کیا۔ مجھے بھی ان کا خیال کر نا چاہئے۔ مجھے جانا ہو گا ۔ “ صغرا نے زینی کو سمجھا تے ہو ئے کہا ۔
غزالہ بیگم کے نام کے ساتھ ہی زینی کی نگا ہو ں کے سامنے ان کا بڑا سا گھر آ گیا اور خاص طور پر ان کا ڈرائنگ روم ۔۔۔بڑا سا ہال اسمیں سرخ ، ہرے ، پیلے ، بیل بوٹے والا قا لین ، دبیز صوفے ، ریشمی سر سر اتے ہو ئے پر دے ، قیمتی گل دان ، دیواروں پر آ ویزاں بڑی بڑی پینٹنگز۔۔ اس دن اس کے اسکول کی چھٹی تھی ۔ وہ ماں کے ساتھ غزالہ بیگم کے گھر چلی گئی تھی ، غزالہ بیگم کے گھر مہما ن آ ئے ہو ئے تھے ۔ ماں نے چائے کی ٹرے دے کر اسے بھیجا تھا۔ وہ جیسے ہی چائے کی ٹرے لے کر داخل ہو ئی ۔اسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نرم گداز چیز کے اندر اس کا پیر دھنس گیا ہو ۔پھر اس کی نظر خوبصورت سجے سجا ئے بڑے سے ہال نما کمرے پر پڑی ۔ اسے ایسا محسوس ہو ا جیسے وہ کسی جنت میں آ گئی ہو ۔
” زینی کیا سوچ رہی ہے ۔؟“ماں اسے دیکھتے ہو ئے بولی۔ماں کی آ واز کے ساتھ ہی اس کے خیا لات کی ڈور ٹوٹ گئی ۔
” ماں ہما را گھر غزالہ بیگم صاحبہ کی طرح کیوں نہیں ہے ۔ “ زینی نے بڑی معصو میت سے پوچھا ۔
” ارے پگلی ! وہ امیر لوگ ہیں ۔ غزا لہ بیگم صا حبہ کے شوہر ایک امریکی کمپنی میں بہت بڑے افسر ہیں ۔ ہم کہاں ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ “ ماں نے پیار سے اسے لپٹاتے ہو ئے کہا ۔ اور مزید ہدایت دیتے ہو ئے بو لی ۔
” اچھا سنو میں جا رہی ہو ں تم اور ثاقب ناشتہ کر کے پڑھنے بیٹھ جا نا ۔اندر سے کنڈی بند رکھنا ۔کسی کے لئے بھی نہیں کھولنا۔ “ وہ جب بھی با ہر جاتی اور زینی گھر میں ہو تی ،ہمیشہ اسی طرح سمجھا کر جاتی۔
” کتنی ہمت اور صبر والی ہے میری ماں ۔۔ رات کو اس پر کتنا کچھ گزرا ۔۔لیکن صبح اٹھ کر وہ اسی طرح کام میں لگ گئی جیسے کچھ ہو ا ہی نہ ہو ۔ ناشتہ تیار کیا ۔اباکو ناشتہ کر ایا اور اب خود کام پر جا رہی ہے۔ اور ابا بستر پر لیٹا سگریٹ کے کش لگارہا ہے۔آخر ابّا کو ئی کام کاج کیوں نہیں کر تا ۔ ؟ سارا دن گھر میں پڑا رہتا ، سگریٹ پیتا رہتا ہے۔ پان چباتا رہتا ہے۔ اور جیسے ہی شام کو پانچ بجے وہ میاں جی کے ہو ٹل جو ئے خانے کا رخ کر تا ہے۔ اگر اس کو جانے میں دیر ہو جا ئے تو اکرم چاچا بلانے آ جا تے ہیں ۔ آدھی رات تک جوا کھیلتارہتا ہے ۔ جوئے میں ہار کر آ تا ہے تب بھی ماں کو مارتا ہے اور جوا کھیلنے کے لئے پیسے چاہئے ہو تے اور ماں نہ دیتی ، تب بھی ماں کی شامت آ تی ۔ ماں سے خدمت بھی لیتا رہتا ہے۔ “
وہ یہ بھی سوچتی ” اگر میاں جی کا ہو ٹل ہمارے گھر کے پاس نہ ہو تا تو ابّا بھی شاید کوئی کام کاج کر لیتا ۔ کم از کم اسے جوئے کی لت تو نہ پڑ تی ۔ میاں جی دیکھنے میں تو بڑے شریف نظر آ تے ہیں ۔ لو گوں میں بھی ان کی بڑی عزت ہے۔ اللہ والے بھی بہت ہیں ، پنج وقتہ نما زی، اذان ہو تے ہی سامنے مسجد میں نماز پڑھنے پہنچ جا تے ہیں ۔ پھر انہوں نے یہ جوئے کا اڈا کیوں کھول رکھا ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ تا ۔ اور ماں ۔۔ ابا کے کتنے ظلم و ستم سہتی ہے مگر ابّا کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کر تی ۔۔۔ کہتی ہے ” مرد تو سر کی چھت ہو تا ہے ، کیا ہوا جو مارتا ہے ، محبت بھی تو کر تا ہے ۔ “
” آ پی مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔ “
ثا قب کی آ واز نے اس کے خیالات کے تسلسل کو توڑ دیا ۔ وہ اٹھی اس نے خود بھی ناشتہ کیا اور ثاقب کو بھی نا شتہ کر ا یا اور پھر اپنے کورس کی کتابیں لے کر پڑھنے بیٹھ گئی۔زینی بہت محنت کر تی تھی ، ہمیشہ بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو تی تھی۔ فرسٹ وہ اس لئے نہیں آ سکتی تھی کہ فرسٹ تو ارم کو ہی آ نا تھا ، وہ امیر ماں باپ کی بیٹی جو تھی ۔۔اور پھر اس کے پا پا اسکول کے سر پرست اعلیٰ بھی تھے زینی اور ارم کے نمبروں میں اکثر ایک ، دو نمبر کا ہی فرق ہو تاتھا ۔ زینب اپنے بھائی ثاقب کو بھی بہت محنت سے پڑھا تی تھی اور ثاقب خود بھی بہت محنت کر تا تھا ۔دونوں بھائی بہن زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن میں مصروف تھے ۔
آ ج کا سو رج زینی کے لئے خوشی کا پیغام لے کر آ یا ، اسکے ہاتھ میں اخبار تھا ۔ جس میں میٹرک کا نتیجہ درج تھا ۔ زینی کی فرسٹ ڈویژن آ ئی تھی ۔ اور صغرا وہ تو خوشی سے پا گل ہو رہی تھی ۔۔ بار بار زینی کو لپٹاتی ، اس کی پیشانی چومتی۔ صغرا نے مٹھائی لا کر اپنے خاص خاص لو گوں میں تقسیم کی۔ اور میاں جی کے پا س تو وہ خود لے کر گئی تھی ۔ وہ محلے کے مُکھیا جو تھے۔ میاں جی نے زینی کو بڑی شا باش بھجوائی اور صغرا کی بہت تعریف کی کہ یہ سب اس کی محنت اور تر بیت کا نتیجہ ہے۔ صغرا نے ہو ٹل کے دونوں ملازمین فیضو اور امیر علی کو بھی مٹھائی دی
اس بستی کی یہ پہلی لڑکی تھی جس نے میٹرک پاس کیا تھا ، اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن حا صل کی تھی ورنہ اس بستی میں تو اب تک کسی لڑکے نے بھی میٹرک تک نہیں پڑھا ۔
” صغرا بی بی اب زینی کے ہاتھ پیلے کر دو۔ “ میاں جی نے لڈو منہ میں رکھتے ہو ئے کہا ۔
” میاں جی میرا ارادہ زینی کو آ گے پڑھانے کا ہے ، وہ بھی آگے پڑھنا چا ہتی ہے، آپ ہما رے لئے دعا کر یں آپ اللہ والے ہیں ۔ “ صغرا بولی۔
زینی چارپا ئی پر بیٹھی بڑے شو ق و انہماک سے فرسٹ ایئر کی کتا بیں دیکھ رہی تھی جو اس نے کسی سے مستعار لی تھیں ۔ ارشد نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرااور بو لا
” یہ اب کیا پڑھنے لگی ہے ۔ میٹرک کر لیا کا فی ہے ۔ اب کچھ گھر گرہستی سیکھ لے۔ “ زینی خا موش رہی ۔ مگر صغرا بولی ۔
” ابھی سے پڑھے گی تبھی تو اچھے نمبر حاصل کر ے گی ۔ “
” بس بس بہت ہو گئی پڑھئی وڑھائی ۔ اب اس کا بیاہ کر نا ہے ۔ وہ چکی والا جو سیٹھ ہے ، اس نے مانگا ہے تیری بیٹی کو۔ ارشد بولا
” وہ کرم دین ۔۔۔۔ صغرا کے منہ سے ایک دم نکلا ۔
” ہاں ہاں وہی کرم دین جس کی چکی ہے۔“ ارشد نے جواب دیا ۔
” اس کو شرم نہیں آ تی ۔۔۔دو بیویاں پہلے سے مو جود ہیں اب تیسری کر نے جا رہا ہے۔ اور اس کی عمر دیکھی ہے تم نے ۔“ صغرا غصّے سے سرخ ہو گئی۔
” مرد کی صورت اور عمر کون دیکھتا ہے۔ کما ئی دیکھی جاتی ہے۔۔۔ کما ئی ، اور تجھے اس سے کیا ، وہ دو بیویاں رکھے یا تین بیویاں رکھے۔۔ ۔تیری بیٹی کو عیش سے رکھے گا ۔۔۔یہ دیکھ اس نے پہلے ہی مجھے پچیس ہزار روپئے دیئے ہیں تا کہ ہم شادی کا انتظام کر سکیں ۔ “ ارشد نے صغرا کو نو ٹوں کی گڈیاں دکھاتے ہو ئے کہا ۔
” صغرا نے ہاتھ بڑھا کر وہ نوٹوں کی گڈیاں لینے کی کو شش کی ۔ مگر ارشد نے صغرا کو دھکا دیا ، نو ٹوں کی گڈیاں واسکوٹ کی جیب میں ڈالیں اور تیزی سے با ہر نکل گیا ۔
زینی جو بظاہر کتا بیں الٹ پلٹ کر رہی تھی مگر اس کا دل ، دماغ ، کان سب ماں ، باپ کی گفتگو کی جانب لگے ہو ئے تھے۔جیسے ہی صغرا گری ، وہ تیزی سے اٹھی اور فرش پر گری ہو ئی ماں کو سہا را دے کر اٹھایا۔
صغرا تھوڑی دیر تک گم سم بیٹھی رہی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟غم وغصے کی اس کیفیت کے دور ان اچانک اس کو غزالہ بیگم صاحبہ کے یہ الفاظ یاد آ ئے۔
” صغرا کبھی کو ئی پریشانی ہو تو سیدھی میرے پاس آ جا نا ۔ میرا تعلق ”خواتین کے حقوق کی تنظیم “ سے ہے ۔میں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گی ۔ یہ تنظیم خواتین کے حقوق کی حفاظت کر تی ہے۔ کسی بھی عورت کے ساتھ اگرکوئی بھی زیادتی ہو رہی ہو تو یہ تنظیم اس کی مدد کر تی ہے ۔ “ غزالہ بیگم نے صغرا کو سمجھانے کے انداز میں کہا تھا ۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ صغرا کا شوہر اسے ما رتا پیٹتا رہتا ہے ۔ اگر چہ وہ منہ سے کبھی کچھ نہ کہتی ۔لیکن اس کے چہرے اور ہا تھوں پر پڑے نیل کے نشان اس بات کی گوا ہی دیتے ۔ انہں نے یہ بات اس لئے بھی کہی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بے سہا را نہ سمجھے۔
صغرا خاموشی سے اٹھی ، برقع پہنا اور با ہر چلی گئی ۔ جاتے جاتے ہمیشہ کی طرح تا کید کر کے گئی ۔ ” دروا زہ اندر سے بند کر لینا ۔“
غزالہ بیگم صا حبہ کے بنگلے سے واپس آ نے والی صغرا اس قدر بدلی ہو ئی تھی کہ اس کی اس تبدیلی کو اس کے بچوں نے بھی محسوس کر لیا۔ اس کا چہرہ زبر دست قوت ارادی کا آ ئینہ بنا ہو ا تھا ۔ اس نے اپنے شوہر اور بچوں سے بھی کوئی خاص بات نہیں کی ۔
رات گزر گئی ۔ اگلا دن طلوع ہوا ۔ صغرا نے حسبِ معمول خا موشی سے گھر کے کام نمٹا ئے ۔ ناشتے کے دوران ارشد بہت خوش تھا ۔ سیٹھ کرم دین کے پیسوں سے رات اس نے خوب جوا کھیلا تھا ، اور جوئے میں ہا را بھی تھا ، لیکن کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔؟ رقم خاصی تھی ، بچی ہو ئی رقم سے وہ زینی کے ہاتھ پیلے کر سکتا تھا ۔کچھ کمی بیشی ہو ئی تو صغرا قرض لے کر بھگتا دے گی۔
اچانک خلا فِ معمول دروازے کی کنڈی زور زور سے بجنے لگی ۔ باہر کوئی ارشد کے نام کی آ وا زیں لگا رہا تھا ۔ ارشد نے چائے کی پیالی پاس بیٹھی ہو ئی صغرا کے ہاتھ میں تھمائی اور دروا زے کی طرف دوڑ گیا ۔ با ہر کچھ لوگ کھڑے تھے ان کے درمیان سیٹھ کر م دین بھی مو جو د تھا ۔ لیکن کچھ ڈرا ڈرا سا اور خفیف خفیف ، مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔ ارشد ابھی کچھ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہاتھاکہ ان میں سے ایک آدمی نے آ گے بڑھ کرپو چھا ۔
” تمہارا نام ارشد ہے ۔؟ “
”ہاں مگر آپ لوگ ۔۔؟ “ارشد نے حیرت اور تعجب کے ملے جلے لہجے میں سوال کیا ۔
” ہم لوگ ’ خواتین کے حقوق کی تنظیم ‘ سے آ ئے ہیں ۔ اس نے تنظیم کا شناختی کارڈ دکھا تے ہو ئے کہا ۔ تم اپنی بیٹی کی شادی اس آ دمی کے ساتھ کر رہے تھے وہ بھی اس کی اور اس کی ماں کی مرضی کے خلاف یا اپنی بیٹی کو بیچ رہے تھے۔ ‘ ‘ا س نے سیٹھ کرم دین کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے کہا ۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہمارا فرض ہے ۔ ہم لوگ تمہیں اور اس سیٹھ کو جیل بھجوا سکتے ہیں۔وہ ارشد کی طرف دیکھتے ہو ئے بولا۔
دیکھتے ہی دیکھتے کچی آ بادی کے بہت سارے لوگ اکھٹّے ہو گئے ۔ میاں جی کو اطلاع ملی تو وہ بھی پہنچ گئے۔ویسے بھی اس بستی کے چھو ٹے بڑے تمام جھگڑے میاں جی ہی نمٹاتے تھے ۔ سب ان کے فیصلوں کو مانتے تھے ۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ ان کے خلاف جا ئے۔ میاں جی نے ” خوا تین کے حقوق کی تنظیم “ سے آئے ہو ئے لو گوں سے پوچھ گچھ کر نے کی کوشش کی کہ آ خر معاملہ کیا ہے۔ ۔؟ مگر ان کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ معاملے کا تعلق جس سے ہے صرف اسی سے بات کر نا ہے۔
ارشد سر جھکا ئے کھڑاتھا۔
’ ’ سیٹھ کے پیسے واپس کرو ۔ “ وہی آدمی ارشد سے مخاطب ہو ا ۔
ارشد اندر گیا اور نوٹوں کی گڈی لا کر اس آدمی کے ہاتھ میں پکڑا دی۔
” یہ تو بیس ہزار ہیں ۔ “ اس آدمیں نے نوٹ گننے کے بعد کہا ۔
” پانچ ہزار خرچ ہو گئے ہیں۔ “ ارشد نے آہستگی سے کہا ۔
”خرچ ہو ئے یا جوئے میں اڑا دیئے۔ ؟ بیٹی کو بیچتے شرم نہیں آ ئی ۔؟
اگر چہ ” خواتین کے حقوق کی تنظیم “ کی طرف سے آ نے وا لے آٹھہ لوگ تھے مگر بات صرف ایک آ دمی ہی کر رہا تھا ۔ اس نے سیٹھ کرم دین کو پیسے دیتے ہو ئے کہا ۔
” یہ رکھو بیس ہزار ہیں ۔ پانچ ہزار تمہیں بعد میں مل جا ئیں گے ۔ “ پھر ارشد سے مخا طب ہو ا ۔
” یہ پانچ ہزار جلد ادا کر نے کی کوشش کرنا ۔ اور آئندہ اپنی بیٹی کی شادی اس کی یا اس کی ماں کی مرضی کے خلاف کر نے کی کو شش کی تو سیدھے جیل کی ہو ا کھا ﺅ گے ۔ “
”خوا تین کے حقوق کی تنظیم “ کے لو گوں کے جانے کے بعد میاں جی نے ارشد اور سیٹھ کرم دین کو اپنے ہو ٹل بلوا بھیجا ۔ دونوں کو خوب ڈانٹا پھٹکا را ، کرم دین کو تو اس کی چکی پر پولیس کا چھا پہ پڑ وا نے تک کی دھمکی دی۔ دونوں نے بہت معافی ما نگی ، بڑی منت سما جت کی کہ آئندہ کبھی ایسا نہیں ہو گا ۔ کو ئی بھی معاملہ آپ کے علم میں لا ئے بغیر نہیں ہو گا ۔ “
ارشد نے پھر کبھی شادی کی بات نہیں کی ۔ صغرا کو مارنا چھوڑا تو نہیں لیکن کم ضرور کر دیا۔
ثاقب آ ٹھویں کلا س میں آ گیا ہے ،اور زینی کالج کے پہلے سال میں ۔ دونوں کی پڑھا ئی کا خرچ اور اوپر سے یہ پانچ ہزار کا قر ض کیسے ادا کروں گی ۔ ؟صغرا پہلے تو دل ہی دل میں سوچتی رہی پھر بلند آواز میںخود سے مخاطب ہو گئی ۔
” سو چا تھا کمیٹی نکلے گی تو بچوں کے کپڑے بنوا ﺅں گی اور کچھ پیسے ان کی پڑھا ئی کے لئے اٹھا کر رکھ لوں گی ۔ مگر اب یہ پانچ ہزار کا قرضہ بھی سر پر آ ن پڑا ہے۔ ۔۔ غزالہ بیگم صا حبہ سے پیسے مانگتے ہو ئے اب شرم محسوس ہو تی ہے ۔ انہو ں نے دونوں بچوں کی پڑھائی کے سلسلے میں میری بہت مدد کی ہے ۔“
زینی پاس ہی بیٹھی تھی۔صغرا کی ساری با تیں سن رہی تھی جو وہ سر گوشی جیسے انداز میں خود سے کر رہی تھی ۔
” ماں تم فکر مت کرو ۔ میں پڑھا ئی کے ساتھ ساتھ ٹیو شن بھی کر وں گی تمہیں اب کسی سے پیسے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔“
زینی نے ماں کو تسلی دیتے ہو ئے کہا ۔ اور پھر واقعی جو اس نے کہا تھا کر دکھایا ۔وہ صبح کالج جاتی وہاں سے آ نے کے بعد ٹیو شن میں جٹ جاتی
اور پھر رات دیرتک پڑھا ئی میں مصروف رہتی ۔
وقت کا پرندہ پر پھیلا ئے اپنی اُڑان میں مصروف تھا ، لیکن وقت کیسے گزر رہا تھا ، یہ تو صغرا اور زینی ہی جانتی تھیں ۔ زینی نے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کرلیاتھا ۔ غزالہ بیگم کے شو ہر کی سفا رش سے زینی کو ایک بینک میں ملازمت دلوادی۔کچھ عرصے بعد زینی نے بنک سے لون لے کر شہر کی ایک اچھی Localityمیں چھوٹاسا فلیٹ خرید لیا۔ اور اس میں ضرورت کی چیزیں خرید کر ڈال دیں تا کہ اس میں رہا جا سکے۔ ثاقب بی کام کر نے میں مصروف تھا ۔ دونوں بھا ئی بہنوں میں ذزبر دست ذ ہنی رفاقت تھی۔دونوں ہی زندگی میں آ گے بڑھنے کی کو شش میں لگے ہو ئے تھے۔ دو نوں بھائی بہن اس آ با دی کے ما حول سے نکلنا چا ہتے تھے ۔
ایک دن زینی نے ماں کا اچھا موڈ دیکھ کر ڈرتے ڈرتے کہا ۔ ” ماں کیوں نہ ہم اپنے فلیٹ میں چل کر رہیں ۔ “
” ہم یہ جگہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں ۔ ساری برادری ہماری یہیں پر ہے ۔ “ صغرا نے کہا ۔
” ماں چھوڑنے کو کون کہہ رہا ہے ۔ ہم لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ “ ثاقب نے ماں کو راضی کر نے کی کو شش کی ۔
کافی دنوں تک صغرا اس بات پر راضی نہیں ہو ئی کہ وہ یہ بستی چھوڑ کر کہیں اور بس جائے۔وہ اسی بستی میں پلی بڑھی تھی ، اس کو اس بستی سے ، یہاں کے رہنے والوں سے محبت تھی ۔
لیکن آہستہ آہستہ دونوں بھائی بہنوں نے مل کر صغرا کو راضی کرہی لیا فلیٹ میں چل کر رہنے کے لئے۔
” ماں ٹیکسی آ گئی ہے۔ “ ثاقب نے کہا ۔
سارا سامان ٹیکسی میں رکھا گیا ۔ سب لوگ چلنے کے لئے تیار تھے ۔ ارشد بھی اپنا بیگ ہاتھ میں اٹھائے ہو ئے آگیا ۔
” ماں یہ ابّا کہاں جا رہے ہیں ۔ “ زینی نے باپ کی طرف دیکھ کر بولا ۔
” جہاں ہم جا رہے ہیں ۔“ صغرا نے جواب دیا۔
” ا بّا ہما رے ساتھ نہیں چلیں گے ۔یہ ہما رے ساتھ نہیں رہیں گے ۔“ زینی نے پہلی مر تبہ باپ کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے۔
” کیا کہا۔۔ یہ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے ۔۔؟ یہ تیرا باپ ہے اس کے نام کے ساتھ تیرا نام جڑا ہو ا ہے۔ یہ ہما رے سر کی چھت ہے ۔ “ صغراا نے پہلی مر تبہ اپنی لاڈلی بیٹی پر تھپڑ ما رنے کے لئے ہاتھ اٹھا یا ۔
ارشد نے صغرا کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا ۔ ” یہ ٹھیک کہتی ہے ۔“ اور سر جھکا ئے ہو ئے اپن کوٹھڑی میں چلا گیا اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر چار پا ئی پر بیٹھ گیا ۔ اسنے محسوس کیا اس کی بیوی ، زینی اور ثاقب سے جھگڑ رہی ہے۔ آوازوں نے یہ بتا دیا تھا کہ بچے اس کو ساتھ نہ لے جانے پر اٹل تھے۔ وہ شاید یہی کہہ رہے تھے۔
” ا بّا نے ہما رے لئے کیا ہی کیا ہے۔۔۔ان کو ہم سے کو ئی مطلب نہیں ہے ۔۔ ان کو تو اپنے دوستوں سے ۔۔ اپنے جوئے سے مطلب ہے۔ ہم ا بّا سے کو ئی تعلق نہیں رکھنا چا ہتے ۔۔ ماں تم ہما رے ساتھ چلو ۔“
با لآ خر آوازیں بند ہو گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹیکسی کے روانہ ہو نے کی آ واز یں سنائی دیں ۔ ۔۔ پھر ہر طرف سنّا ٹا چھا گیا ۔ سنّا ٹے نے ارشد کے پورے وجود کو اپنے اندر سمیٹ لیا، زندگی میں پہلی مر تبہ وہ اکیلا پڑ گیا تھا ۔۔ با لکل اکیلا۔۔ اکیلا پڑنا کیا ہو تا ہے۔ اس کا انکشاف اس کے پورے وجود کو ہلا دے رہا تھا ۔ ۔میاں جی کا ہو ٹل ۔۔ میاں جی ۔۔ فیضو ۔۔ کرم دین ۔۔ اس کا دوست اکرم ۔۔ اس کے دوسرے دوست جن کے ساتھ وہ جوا کھیلتا تھا۔۔ یہ اس کے کو ئی نہ تھے ۔۔ اس کے اپنے بچے ۔۔ اس کی بیوی ۔۔جو اس کی طویل زندگی کی ساتھی تھی ۔۔ جو اس کی حاجت روا تھی ۔۔ اس کے ہر اچھے برے حکم کے آ گے سر جھکانے والی ۔۔گھر گھر چاکری کر کے اس کا اور اس کے بچوں کا پیٹ پالنے والی۔۔ جوا کھیلنے کے لئے پیسے مہیا کر نے والی ۔۔ اور ۔۔ اوراس کی مار کھا کر بھی اس کی خدمت کرنے والی ۔۔ وہ بھی اس کی کو ئی نہ تھی ۔۔ اس کا کو ئی نہ تھا ۔۔ آسماں کے نیچے ، زمین کے اوپروہ اکیلا تھا ، اس اکیلے پن پر اسے رونا آ گیا ۔۔ پہلے آنکھوںمیں آنسو آئے۔۔ پھر گریہ اندرسے ابھرا ۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگا ۔ اس کا سا را وجود رونے میں اس طرح مصروف تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ صغرا کب بچوں کو رخصت کر کے گھر کے اندر آئی۔ دونوں بچوں کے لاکھ سمجھانے کے با وجود وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر ان کے ساتھ جانے پر رضا مند نہیں ہو ئی ۔ ۔ گھر کے اندر داخل ہو کر اس نے دروازے کی کنڈی لگائی ، اپنے روتے ، سسکیاں لیتے شو ہر کو دیکھا ۔ کچھ دیر کھڑی رہی ،پھر جھکی۔۔ جھک کر اپنے شوہر کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔ اس کے شوہر کا بدن کانپا ۔۔ اور وہ اس کی بانہوں میں سمٹ گیا ۔۔ جیسے بچہ اپنی ماں کی گود میں سما جا تا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔