ویسے کسی پر بھی اعتبار کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے نہ صرف کسی اور پر بلکہ اپنے دل پر یہاں تک کہ اپنے آپ پر بھی بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن اس سب کے باوجود کسی نے کہا ہے کہ عورت، موسم ، نوکری ، سیاست اور صحافت پر کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں اعتبار نہیں کرنا چاہیے بقول ان کے عورت اور موسم کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور نوکری سے ہاتھ دھونے یا محروم ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی ۔ نوکری کے حوالے سے تو کئی تازہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ حال ہی میں باجی فردوس عاشق اعوان صاحبہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں اس سے کچھ عرصہ قبل اے ٹی ایم مشین کے نام سے مشہور ہونے والے جہانگیر ترین صاحب کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ۔ 2 سال قبل اعلی ترین سول بیورو کریٹ احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیل چلے گئے تا حال ان کی جان خلاصی نہیں ہو رہی ۔ اس لیئے شاعر نے کہا ہے کہ " دنیا عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے " ۔ اس لیئے کسی بھی اعلی سے اعلی عہدے اور منصب پر فائز رہ کر غرور اور تکبر میں نہیں آنا چاہیے ۔
بلوچستان کے سابق گورنر ، سابق وزیر اعلی اور مگسی قبیلے کے سربراہ نواب ذوالفقار علی مگسی بہت ہی صاف گو اور کم گو شخصیت کے مالک ہیں وہ بہت ہی کم گفتگو کرتے ہیں اور لگی لپٹی کے بغیر بولتے ہیں ۔ وہ جب بلوچستان کے وزیر اعلی تھے اور بعد ازاں گورنر بھی مقرر ہوئے تو ان سے جب صحافی سوال کرتے کہ آپ کی حکومت کب تک چل سکتی ہے یا آپ کی حکومت مضبوط ہے یا کمزور تو وہ دیگر سیاستدانوں کی طرح یہ نہ کہتے کہ میری حکومت یا میری کرسی مضبوط ہے، اس کو، کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہتے کہ،" یہ ایک نوکری ہے جب تک چلتی ہے چلنے دو اور جب فارغ ہونے کا وقت آگیا تو میں فارغ ہو جائوں گا ۔" ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اسد عمر کو وزات خزانہ سے فارغ کر دیا گیا تھا پھر کچھ ہی عرصے بعد ان کو پھر سے وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے ۔
عورت کی بے اعتباری کے بارے میں میں لکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ بیٹھے بیٹھے تبدیل ہو سکتی ہے وہ ہنستے ہنستے رونے لگ جاتی ہے تو کبھی روتے روتے ہنسنے لگ جاتی ہے ۔ کبھی عورت اپنے خاوند کو مجازی خدا کہنے اور اس کی پرستش تک آمادہ اور تیار نظر آتی ہے اس کی خدمت کرنے فرض اور باعث اعزاز سمجھتی ہے تو کبھی اور کہیں یہی عورت ایسے عامل بابا اور نجومی بابا کے آستانے پر پہچ جاتی ہے جس کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ "شوہر آپ کے قدموں پر" ۔ یہ دعوی تو نہیں کیا جا سکتا کہ تمام خواتین کی ایسی ہی سوچ ہے ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ ایسے مرد حضرات کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنی بیویوں کو چڑیل اور منحوس قرار دے کر ان پر ظلم،جبر اور تشدد کے تمام تر حربے استعمال کرتے ہیں ۔ عورت وفاداری پر آ جائے تو اپنی جان تک دے دیتی ہے اور اگر بیوفائی اور سنگدلی پر آ جائے تو جان تک لینے سے دریغ نہیں کرتی ۔ دنیا کی اولین خاتون شاعرہ سیفو نے نہ جانے کس بنا پر شادی ہی نہیں کی اور محبت کرنے والی ایسی کہ خواتین سہیلیوں کی محبت میں اسیر رہی اور ان کی محبت،وصال اور فراق میں شاعری کرتی رہی ۔ روسی خواتین عجیب مزاج کی حامل ہیں سنا ہے وہ اپنے شوہروں کو شوہر کم بندر زیادہ سمجھتی ہیں جبکہ اس کے برعکس ہندوستان اور پاکستان کی خواتین اپنے شوہروں کا سب سے زیادہ احترام کرنے والی ہیں البتہ یہاں پر بہت کم تعداد ایسی خواتین کی بھی ہے جو اپنے شوہروں کو صرف اے ٹی ایم مشین کی طرح استعمال کرنا جانتی ہے اور بس ۔
پاکستانی سیاست کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔ ہمارے اکثر سیاستدان صبح کسی ایک جماعت میں ہوتے ہیں تو شام کو کسی اور جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ ان کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا بس ان کو اقتدار، اختیار اور ڈالر چاہیے اگر اس کے عوض دین، ضمیر اور کوئی عزیز ترین رشتہ جاتا ہے تو جانے دو کوئی پرواہ نہیں ۔ ایسے بہت کم سیاستدان ہیں جو زر کے بجائے ضمیر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سیاست میں اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ کبھی عیش و عشرت تو کبھی جیل اور غربت و تنگدستی ۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے سیاست پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ " سیاست میں یا تو وزیر بن جاو گے یا فقیر بن جاو گے "۔ اگر موجود دور میں سیاست کے شعبے سے عبرت حاصل کرنا ہے تو پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی حالت دیکھ لیں ان کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہتا ہے ۔
پاکستان کی صحافت بھی پاکستان کی سیاست کی طرح ہی ہے اس پر بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔ صحافت سے وابستہ صحافی حضرات و خواتین بھی کبھی ایک ادارے سے تو کبھی دوسرے سے وابستہ ہو جاتے ہیں ان کو جہاں زیادہ پیسے ملیں گے یہ لوگ وہاں چلے جائیں گے ۔ یہاں پر بھی سیاستدانوں کی طرح اکثر صحافی دولت کو عزت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ صحافیوں کی اکثریت بھی سیاستدانوں کی طرح عیش و عشرت میں ہوتی ہے لیکن ان لوگوں پر بھی سیاستدانوں کی طرح برا وقت بھی آتا رہتا ہے جس کی توقع ہی نہیں ہوتی اگر یقین نہ آئے تو جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کی حالت سے انداہ لگا لیں اور عبرت حاصل کریں ۔ صحافت اور صحافی پر بھی اعتبار کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان لوگوں کی اکثریت بھی صرف ڈالر کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے اس میں اگر عزت سادات بھی چلی جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دولت پر عزت اور ضمیر کو ترجیح دینے والے معزز اور قابل فخر صحافی بھی ہر جگہ موجود ہیں خواہ وہ بہت کم تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں ان کو ایسی باتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ اگر اعتبار اور بے اعتباری کی بات ہی کی جائے تو دوست، پیار اور زندگی پر بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے اگر اعتبار کرنا ہی ہے تو ایک حد تک اعتبار کرنا چاہیے اور آخر میں بہترین انڈین گلوکار آنجہانی مکیش کی سوز بھری آواز میں گائے ہوئے ایک مشہور گیت کے بول آپ کی سماعتوں کی نذر
دوست دوست نا رہا پیار پیار نا رہا
زندگی ہمیں تیرا اعتبار نا رہا