عورت کو اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب میں خصوصی مقام حاصل ہے مگر عورت کو جو عزت اور احترام اسلام میں حاصل ہے اتنا کسی اور مذہب میں نہیں ہے جس کی سب سے بڑی مثال پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اپنی صاحب زادی اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ کو عزت و احترام کے لحاظ سے اعلی مقام و مرتبہ عطا فرمایا، جبکہ ماں کی حیثیت سے عورت کو اسلام میں یہ مقام عطا ہوا کہ اس کی عزت و احترام اور خدمت کرنے سے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ مذہبی عقائد اور نقطہ نظر کے علاوہ بھی دنیا کی نامور شخصیات کی اکثریت نے عورت کو ہر روپ میں عزت و احترام اور پیار و محبت کی لائق قرار دیا ہے انہی میں روس کے عوامی اور انقلابی شاعر، ادیب، دانشور، صحافی اور مترجم رسول حمزہ توف بھی شامل ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ شاعری عورت پر کی گئی ہے اور وہی سب سے زیادہ موضوع سخن رہی ہے ۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں ہو یا محبوبہ کے، اسے ہر روپ میں عزت و احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا اور سمجھا گیا ہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے شعراء نے عورت کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ رسول حمزہ توف نے بھی عورت کو جو عزت اور احترام اور محبت سے مخاطب کیا ہے وہ دنیا بھر میں قابل داد و تحسین ہے ۔
رسول حمزہ توف 8 ستمبر 1923 میں روس کی ریاست داغستان کے ایک گاوں " آوارہ گائوں سدا " میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب حمزہ سدا سا بھی ایک مشہور شاعر تھے ۔ رسول حمزہ توف نے 11 سال کی عمر میں پہلا شعر کہا اور پھر یہ سلسلہ اس طرح چل پڑا کہ ان کا شمار دنیا کے بڑے شعراء میں ہونے لگا ۔ ان کی سب سے مشہور شعری کتاب " میرا داغستان " ہے ۔ رسول حمزہ توف کی وفات 3 نومبر 2003 کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہوئی۔ رسول حمزہ توف 1994 میں پاکستان کے دورے پر بھی آئے تھے ۔ انہوں اکادمی ادبیات پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی " اہل قلم کانفرنس " میں خصوصی طور پر شرکت کی تھی ۔ حمزہ توف سے پاکستان کے متعدد بڑے شعراء کی دوستی رہی ہے ان میں فیض احمد فیض اور ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ صاحب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ انہوں نے حمزہ توف کی شاعری کے اردو زبان میں ترجمے بھی کئے ہیں ۔ یہاں ہم حمزہ توف کی عورت کے موضوع پر ایک شاہکار نظم کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ مستنصر حسین تارڑ نے کیا ہے اور ایک مختصر نظم کا فیض صاحب نے ترجمہ کیا ہے ۔
اے عورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک ہزار لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو رسول حمزہ بھی ان میں ایک ہوگا
اگر سو لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو ان میں رسول کو بھی شامل کر لو
اگر دس لوگ تمہیں پیار کرتے ہیں تو ان میں رسول حمزہ ضرور ہوگا
اے عورت اگر پوری دنیا میں صرف ایک شخص تمہیں پیار کرتا ہے تو وہ میرے سوا کون ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم تنہا اور اداس ہو اور کوئی تمہیں پیار نہیں کرتا تو سمجھ لینا کہیں بلند پہاڑوں میں رسول حمزہ مر چکا ہے ۔
فیض احمد فیض صاحب نے رسول حمزہ توف کی " ماں " کے موضوع پر ایک خوب صورت نظم کا اردو ترجمہ کیا ہے
ماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے بنام خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
مرے پلے ذرا نہیں پڑتی۔