ہندو متھیالوجی کے مطابق اس شخص کی نجات ممکن ہی نہیں، جس کے ہاں اولاد نہ ہو۔ یعنی ایک ہندو کی نجات تب ہی ممکن ہے، اگر اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد اس کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے خیرات کرے، جسے شرادھ کہا جاتا ہے۔ اور ہندوؤں کے علاوہ دوسری اقوام میں اولاد کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ عام طور پر یہ یقین کیا جاتا ہے، کہ اولاد جوان ہونے پر اپنے والدین کے لئے ایک آسرا ثابت ہو گی۔
جن عورتوں کے بطن سے اولاد پیدا ہو، وہ بہت مطمئن رہتی ہے، اور جن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو، یعنی یہ بانجھ ہوں، ان کی زندگی کا خوشگوار بسر ہونا ممکن ہی نہیں۔ اولاد سے محروم ہونا ان کے لئے قدم قدم پر تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ اولاد سے محروم عورت نہ صرف خود ہمیشہ مغموم رہتی ہے، بلکہ یہ سوسائٹی میں بھی قابل و قعت قرار نہیں دی جاتی۔ اور عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اگر شادی کے بعد دو تین برس عورت کے بطن سے کوئی بچہ پیدا نہ ہو، تو اس عورت کی ساس اپنی بہو کے متعلق تشویش محسوس کرتے ہوئے اس خیال میں مصروف ہو جاتی ہے، اس کے بیٹے کی دوسری شادی ہو، اور اکثر حالتوں میں دوسری شادی کر دی جاتی ہے، جو پہلی بیوی کے لئے ناقابل برداشت مصائب و مشکلات کا باعث ہوتی ہے۔
بانجھ ہونے کی صورت میں عورت کوشش کرتی ہے، اگر اس کے بطن سے اولاد کا ہونا ممکن نہیں، تو وہ کسی دوسرے کے بچہ کو اپنی گود میں لے، اور اسے پالے، تاکہ ماں کی محبت کا قدرتی لطف وہ حاصل کر سکے۔ حالانکہ اس میں جبری محبت کے جذبات کو اختیار کرتے ہوئے وہ ایک نئی ذ ہنی کوفت میں مبتلا ہوا کرتی ہے، جب اس کو یہ خیال آتا ہے، کہ یہ بچہ دوسری عورت کا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری عورت کا بچہ پالنے کی صورت میں جب اس بچہ سے توقعات پوری نہ ہوں، تو ان توقعات کا پورا نہ ہونا اس کے لئے انتہائی اور ناقابل برداشت کوفت کا باعث ہوتا ہے۔
مثلاً ہندوستان کے ایک بہت بڑے کانگرسی لیڈ ر مسلمان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو۔ اس لیڈر کی بیوی نے اپنی حقیقی بہن کی بیٹی کو گود میں لے لیا۔ یہ لڑکی جوان ہوئی، تو اس کی محبت ایک نوجوان سے ہو گئی، جس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ مگر اس کو پالنے والی اس کی خالہ (جسے اس کی ماں ہی کہنا چاہیے ) چاہتی تھیں، کہ اس لڑکی کی شادی اس کے رشتہ داروں میں ہو۔ چنانچہ جب لڑکی نے اپنی ماں کی خواہش کے خلاف اظہار کیا، تو اس کی ماں یعنی لیڈر کی بیوی نے غصہ کے عالم میں لڑکی سے شکایت کرتے ہوئے کہا:۔
”اگر تم میرے بطن سے پیدا ہوتی، تو انکار نہ کرتی، اور جیسا میں کہتی، ویسا ہی کرتی۔ چونکہ میرے بطن سے پیدا نہیں ہوئی، اس لئے میری خواہش کی پرواہ نہیں کر رہی“۔
یہ سن کر لڑکی نے زار رونا شروع کر دیا۔ کیونکہ ایک تو اس بے چاری پر احسان فراموشی کا الزام تھا، اور دوسرے اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہو رہی تھی۔ مگر یہ مجبور تھی، کیونکہ شادی آخر وہاں ہی ہوئی، جہاں کہ وہ نہ چاہتی تھی۔
عورت فطرتاً اپنی سوتن کے بچوں سے محبت نہیں کرتی۔ مگر بانجھ ہونے کی صورت میں دیکھا گیا ہے، کہ یہ اپنی سوتن کے بچوں سے محبت کرنے پر بھی مجبور ہے۔ کیونکہ سوتن کے بچوں سے محبت کرنے کے مقابلہ پر محبت کے خلا میں زندگی بسر کرنا، اس کے لئے زیادہ تکلیف کا باعث ہے۔ راقم الحروف کے ایک دوست کی دو بیویاں ہیں۔ بیوی کے بطن سے کئی بچے ہیں، اور دوسری بیوی کے بطن سے کوئی بچہ نہیں۔ دوسری بیوی کے تعلقات اپنی سوتن یعنی شوہر کی پہلی بیوی سے انتہائی ناخوشگوار، بلکہ عداوت کے حد تک خراب ہیں۔
مگر سوتن کی لڑکیوں سے اس کو محبت ہے، اور ان لڑکیوں کو وہ اخلاص اور محبت کے ساتھ اپنے پاس رکھتی، اور ان کی پرورش کرتی ہے۔ کیونکہ یہ اپنی اولاد نہ ہونے کے باعث مجبور ہے، کہ کسی دوسری عورت کے بچوں کو پالے، یہ بچے چاہے اس کی سوتن کے ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر اس کے بطن سے بچے پیدا ہوتے، تو یہ ممکن ہی نہ تھا، کہ یہ سوتن کے بچوں کو پالتی، اور ان سے محبت کرتی۔
بانجھ ہونے کی صورت میں نہ صرف عورت دوسرے کے بچوں کو محبت کرنے پر مجبور ہے، بلکہ مویشیوں، پرندوں اور دوسرے جانوروں میں بھی یہی سپرٹ پائی جاتی ہے۔ کتا چھ ماہ کی عمر میں پہنچنے پر بالغ ہو جاتا ہے، اور کتیا عام طور پر ایک برس میں بچے دینا شروع کر دیتی ہے۔ میری ایک کتیا جس کا نام لکی ہے، بانجھ ہے، مگر اس کی ماں مسلسل بچے دیتی رہی۔ یہ لکی جب تین برس کی ہو گئی، اور یہ حاملہ نہ ہوئی، تو ایک روز جب اس کی ماں نے بچے دیے، تو یہ اپنی ماں کے پاس جا کر بچوں کے سامنے لیٹ گئی، اور اس نے اپنی دودھ دینے والی جگہ بچوں کے سامنے کر دی، تاکہ بچے اس کا دودھ پئیں۔ حالانکہ جس صورت میں کہ یہ کبھی حاملہ نہ ہوئی، اور اس کے بطن سے کبھی بچہ پیدا نہ ہوا۔ اس کے تھنوں میں دودھ کا سوال ہی کیا تھا؟ مگر یہ فطرتاً مجبور تھی، کہ دوسری کتیا کے بچوں سے ہی محبت کرے، اگر اس کے اپنے بطن سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
میرے ایک دوست ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس ہیں، جو آج کل ڈیرہ دون میں مقیم ہیں۔ ان کی پہلی اور مرحوم بیوی کے بطن سے کئی بچے ہیں، جو جوان ہیں۔ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں، اور وہ بانجھ ہے۔ دوسری بیوی نے پہلے تو اپنی سوتن کی لڑکیوں کو محبت کے ساتھ پالا۔ یہ لڑکیاں جب جوان ہوئیں، اور شادی ہونے کے بعد یہ جب اپنے سسرال چلی گئیں، تو اس بیوی نے پھر محبت کی فضا میں ایک خلا سا محسوس کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے، کہ یہ اپنے پڑوسی کے بچوں کو گود میں اٹھائے پھرتی ہے۔
میں جب ان کے ہاں جاتا ہوں، تو اس کی گود میں نیا بچہ دیکھتا ہوں۔ کیونکہ کسی بچہ کی ماں یہ گوارا نہیں کر سکتی، کہ وہ اپنا بچہ مستقل طور پر اسے دے۔ چنانچہ ایک دن میں ان کے ہاں لیا، تو میں نے مذاق سے کہا، کہ آپ کے ہاں نیا بچہ پیدا ہو گیا؟ میرے یہ الفاظ سن کر ویسے تو وہ مسکرا دی، کیونکہ یہ مذاق تھا، مگر اس کی آنکھیں کچھ تر سی ہو گئیں۔ کیونکہ اس نے محسوس کیا، اپنی اولاد نہ ہونے کے باعث یہ دوسروں کے بچے پالنے اور بدلنے پر مجبور ہے۔
دہلی میں میرے پڑوس میں ایک حلوائی رہتے تھے، جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں۔ اس حلوائی کی بیوی نے ایک دوسری عورت کی لڑکی اس شرط پر گود میں لی، کہ اس لڑکی کے ساتھ اگر اچھا سلوک نہ کیا گیا، تو یہ لڑکی واپس لے جائے گی۔ چنانچہ لڑکی کی اصلی ماں اپنی بچی کو دیکھنے کے لئے سال میں ایک مرتبہ دہلی آتی ہے۔ اور گو لڑکی کو علم ہے، کہ اس کی اصلی ماں کون ہے، مگر اس کو اصلی ماں سے کوئی زیادہ رغبت نہیں، کیونکہ پچھلے چودہ پندرہ برس سے یہ اپنی پالنے والی ماں کی محبت کی آغوش میں ہے۔
اس سے ہی مانوس ہے، اور یہ اپنی پالنے والی اس ماں سے جدا ہونے کے لئے تیار نہیں۔ کیونکہ بچہ سے اگر اخلاص کے ساتھ محبت کی جائے، اور اس کی سہولتوں کا خیال رکھا جائے، تو یہ بچہ فطرتاً اپنے اصلی ماں باپ کو بھی بھول جاتا ہے۔ اور بچہ کی جب یہ کیفیت ہو، تو اس کے پالنے والے والدین بھی اس سے اپنی حقیقی اولاد سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔