عورت مارچ کا اصل مقصد عورت کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہے۔
عورت ماں ہے بہن ہے بیٹی ہے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ ہر مرد برا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں مردوں کی ایک بڑی تعداد عورتوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتی ہے۔
جو کمزور ہے وہ غلام ہے۔ مردوں کو اب اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔
دنیا میں جتنے مرد ہیں اتنی ہی عورتیں ہیں ۔ آدھی دنیا کو کیوں غلام بنا کر رکھنا چاہتےہیں۔ کب تک؟
گھر کے کاموں میں مرد کو عورت کا ہاتھ بٹانا چاہیئے۔ بیوی نوکرانی نہیں دوست اور رفیق ہے۔ گھر کے کام مل جل کر کرنے چاہیئں۔
عورت پر ہاتھ اٹھانا بند کیا جائے۔
عورت کو گالی دینا بند کی جائے۔ جو مرد کھلم کھلا دنیا کے سامنے میڈیا پر دنیا کے خوف سے بھی گالی دینا بند نہیں کرتا۔ عام زندگی میں وہ عورت کے لیے کتنا فحش گو اور خونخوار ہو سکتا ہے۔
عورتیں جب برے مردوں کے عزائم پورے نہیں ہونے دیتیں تو ان کو تیزاب سے بھی جلا دیا جاتا ہے۔ یہ اندھیر بند کیا جائے۔ اس کی سزا موت رکھی جائے۔ بلکہ اس جرم کے مرتکب افراد کو بھی تیزاب سے جلا کر مارا جائے۔
اندرون سندھ عورت کو باندی اور غلام سمجھ کر اس کے جسم کو رگیدا نہ جائے ۔ زنجیروں سے باندھ کر کوڑوں اور چھڑیوں سے مارا نہ جائے۔ اندرون سندھ عورتوں کے حقوق کے لیے پالیسی مرتب کی جائے۔ مظلوم عورت کی فریاد یا اس طرح کی خبر ملنے پر بھی فوری کاروائی کی جائے اور عورت کو بازیاب کروانے کے ساتھ متعلقہ افراد کو کڑی سزا دی جائے
اے مردو عورتوں کو ہوس زدہ نظروں سے دیکھنا بند کرو۔ یہ زنا ہے۔ زنا کی سزا خدا کے ہاں بہت بڑی ہے۔
راہ چلتی عورتوں کو اور بسوں کے سفر کے دوران عورتوں کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا جائے اس پر حکومت کی طرف سے بڑی سزا رکھی جانا چاہیئے۔
اکیلی عورت کا رات کے وقت گھر سے نکلنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ رات نو بجے کے بعد کسی بہت ضروری کام سے نکلتے ہوئے بھی عورت ڈرتی ہے آخر اتنی جنسی بھوک مردوں میں کیوں ہے۔ انہوں نے عورتوں کا چلنا پھرنا جینا حرام کرکے کیوں رکھ دیا ہے۔
سر سے پاوں تک ایسا برقعہ جس میں عورت کو چلنے اور دیکھنے میں دشواری ہو قابل قبول نہیں۔ جسم ڈھکا رکھنے کے لیے مناسب لباس کے استعمال پر کسی عورت کو کوئی اعتراض نہیں۔
عورتوں، معصوم بچوں اور بچیوں کا ریپ کرنا بند کیا جائے اس پر کم از کم سزا 14 سال رکھی جائے۔ جو کسی بھی اضافی رعایت پر کم نہ کی جائے۔ بلکہ ہر حال میں برقرار رکھی جائے۔
اندرون سندھ کاروکاری کے نام پر عورتوں کا قتل عام ہے۔ اسے ملک کے قانون کے مطابق روکا جائے۔ موت کا حکم نامہ جاری کرنے والے جرگے کے سربراہ کو عمر قید کی سزا دی جائے۔
سنگساری کی سزا صرف عورت کے لیے کیوں؟ دونوں فریقین کو برابر سزا ملنی چاہیئے۔
زنانہ اسکول جلانا بند کئے جائیں۔
گورنمنٹ کی طرف سے "ہر بچے" کی تعلیم لازم اور فری کی جائے۔
عورت کو کھانا کپڑے جوتا فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ نہ کہ عورت کما کر لائے اور مرد بیٹھ کر کھائے ہمارے ہاں عورتیں(صرف بیچاری ماسیاں ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی) دوسروں کے گھروں میں یا دفتروں میں کام کرتی ہیں اور ان کے شوہر ان کی کمائی سے جوا کھیلتے اور نشہ کرتے ہیں۔ اور پلنگ توڑتے ہیں۔
عورتوں کے مارچ میں نامناسب سلوگن اور بینرز استعمال کرنے والی لبرز خواتین کو اوپر بتائے گئے عورتوں کے مسائل کے مطابق بینرز بنانا چاہیئں۔ یہ میری اپیل تمام مارچ میں شامل عورتوں سے ہے۔ خدا کے لیے اسے عورتیں کے حقوق کا احتجاج رہنے دیا جائے۔ چند طبقوں کے ذاتی اور شخصی عزائم کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ شمسہ نجم