میری سَس کہا کرتی تھی ۔
"عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا ، قینچی جیسی زبان سے رشتے تو کترے جاسکتے ہیں پالک نہیں ۔”
پر میری سَس یہ بتانا بھول گئی کہ اس کے پتر کے دل کا راستہ معدے سے ہوکے نہیں جاتا تھا ۔
اسے باتیں کرتی عورتیں اچھی لگتی تھیں ۔
سَس نے مجھے تیز چھری دے کر کچن میں جھونک دیا اور پتر شہر شہر قینچیاں ڈھونڈتا رہا ۔
ویسے تو مجھے سارے سلیقے تھے مگر نرگس کی طرح ٹانگوں سے شاعری نہیں آتی تھی ۔
کرتی بھی کیسے؟
دو بچوں کے بعد وزن کہیں اور جاپہنچا اور بحر کسی اور طرف نکل گئی ۔
رہے سہے قافئیے ردیف مصالحوں کے ڈبوں پہ لکھ دئے.
میری ساس کو پتر سنبھالنے آتے تھے ۔
مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے اندر سارے راون ، رام بنے رہتے ہیں.
لڑکا گھر سے نکلتے ہی راکھشش کے سر جیسے دس کرتوت نکال لیتا تھا ۔
اب بچے بڑے ہوئے ہیں تو،توجہ کی یہ بندہ ہے ہے کیا ۔؟
جھاڑ پونچھ کے دیکھا تو شاعر نکلا ۔۔
تھوڑے سرف اور دیسی صابن سے دھویا تو مزاح نگار مل گیا،۔
اب ذرا کپڑے دھونے ڈنڈے کے ساتھ قالین کی طرح چٹخ پٹخ کر کے چمکایا تو آرٹسٹ نکل آیا ۔
مگر جو مرضی کرلو ۔
بندہ کمال کا ہڈحرام ہے ۔
رو،رو کر دومہینے بعد چوتھی پینٹنگ بنا کر دی ہے ۔
جتنے کی پینٹنگ بکے گی ۔
اس،سے دگنے پیسوں کی چائے پی گیا ہے.
پھر یہ فنکار رونا روتے ہیں کہ سرمایہ دار ان کا استحصال کرتے ہیں ۔
خیر یہ میرا اور مرزے کا کاروباری معاملہ ہے ۔
اس کی ایک اور پینٹنگ نیلامی کیلئے پیش ہے ۔
پینٹنگ کا نام ہے
روشنی
پینٹنگ کا سائز،
30″×36″
یہ بھی آئیل آن جیوٹ ہے،
(جیوٹ مطلب بوری پہ بنی ہے)
حسب سابق بغیر فریم کے ڈیلیور کی جائے گی ۔
زوم تصویریں لگادی ہیں تاکہ جیوٹ کے ڈکٹ کا اور سٹروک کا اندازہ ہوسکے ۔
چونکہ اس بار میری انوسٹمنٹ زیادہ ہے تو اس بار بولی بیس ہزار سے شروع ہوگی ۔
اس پینٹنگ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ لمبے عرصے تک محفوظ رہنے کیلئے جیوٹ پہ بنائی گئی ہے ۔
تاکہ دادا خریدے اور پوتا بیچ کر دعائیں دے ۔
ضروری نوٹ ۔۔
پینٹنگ بک گئی ہے ۔
پشاور سے شیر نواز گل نے پچاس ہزار میں خرہد لی ہے ۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...