عورت فنانشلی انڈیپینڈنٹ ہونے کی وجہ سے خلع لیتی ہے؟
عورت خلع فنانشل انڈی پینڈس کی وجہ سے نہیں لیتی ۔ بلکہ ایموشنل انڈی پینڈنس کی وجہ سے لیتی ہے۔ مرد اسے خود پر فنانشلی ڈی پینڈنٹ کرنے کی بجائے ایموشنلی ڈیپینڈنٹ بنائے ۔ اسے اتنی وفا اور اتنی عزت دے جو اسے کہیں اور سے نہ مل سکے۔ اسے ساتھی مانے کمتر نہیں۔اسے ذہین مانے ناقص العقل نہیں ۔اس پر فیصلے تھوپنے کی بجائے اسے فیصلے میں شریک کرے ۔
جب اسے کمانے کے لیے گھر سے باہر کا رستہ دکھائے تو اس پر اعتماد بھی رکھے ۔ اس کی گھر بار کے لیے کی جانے والی محنت کو اس کی بدکرداری یا آزادی حاصل کرنے کا ارادہ نہ مانے ۔ جیسے مرد دنیا میں نکلتا ہے تو جہاں چار مردوں سے ملتا ہے وہاں دو عورتوں سے بھی لامحالہ گفتگو کرتا ہو گا ۔ بعینہ عورت گھر کے باہر کام کرنے نکلے گی تو اسے بھی سب سے ہی واسطہ پڑے گا ۔ اسے اس کی کردار کہ کجی پر منتج مت کیجیے کہ وہ اپنے مرد کولیگ سے گفتگو کیوں کرتی ہے ۔
جب ہاتھی والوں سے دوستی کی جاتی ہے تو گھر کے دروازے اونچے کرنے پڑتے ہیں ۔ جب فنانشل انڈیپینڈنٹ تعلیم یافتہ ، خود آگاہ اور حقوق آگاہ عورت سے شادی کی جاتی ہے تو اپنا ظرف بھی بڑھا لیا جانا چاہیے ۔ ایک معاشی طور پر مضبوط خاندانی باکردار عورت شوہر کی پابند ضروریات کے لیے نہیں ہوتی بلکہ محبت الفت انسیت عزت اور باہمی احترام و اعتماد کے لیے ہوتی ہے ۔ اولاد ایک مضبوط ترین رشتہ ضرور ہے جو خلع یا طلاق کو ٹال ضرور سکتا ہے لیکن اسے روکنا صرف مرد و زن کے باہمی عزت و محبت اور اعتماد باہمی سے ہی ممکن ہے ۔
ہاں جیسے شوہر کو بیوی ناپسند ہو تو وہ دوسری شادی کے لیے آزاد ہے اسی طرح یہ حق عورت کو بھی اسی رب نے دیا ہے کہ وہ خلع لے سکتی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مرد پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کر سکتا ہے عورت کو علیحدگی کرنا ضروری ہے۔ سو اگر تمام شرعی تقاضے پورے کر کے مرد دو تین یا چار شادیاں کرتا ہے اور معاشرہ اسے قبول کرتا ہے تو اگر عورت خلع طلاق یا بیوگی کے بعد دوسری تیسری یا چوتھی جگہ گھر بساتی ہے جیسا کہ عرب معاشرے میں عام ہے تو اسے بھی قبول کیجیے ۔
جب آپ مرد پاکستانی خواتین کو عرب معاشرے کے مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں اور ان کی بیگمات کے صلح صفائی سے ایک ساتھ رہنے کی مثال دیتے ہیں تو یہ یاد رکھیے کہ وہ خواتین اس لیے پرسکون ہوتی ہیں کہ جب وہ خلع کے بعد نئی جگہ بسیں گی تو کوئی انہیں جج نہیں کرے گا بلکہ اسے ان کا حق مانا جائے گا ۔
جو مرد اپنا گھر بسانا چاہتا ہے اور اپنی سربراہی بھی قائم رکھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ
۔۔ گھر کا کفیل وہ خود بنے
۔۔ گھر کی عورت کو گھر کے لیول پر خود مختار کرے ۔
۔۔اسے گھر کا کھلا خرچ دے اور زرا زرا سی چیز کے لیے نہ ترسائے ۔
۔۔ بیوی کی عزت کرے تاکہ بیوی سے عزت حاصل کرے ۔ ہاتھ اٹھانے یا گالی گلوچ کرنے والے مرد سے عورت ڈر تو سکتی ہے لیکن اس کی عزت نہیں کر سکتی
۔۔مرد کی وفاداری عورت کو باوفا رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔ عورت اور مرد کی وفا راست متناسب ہے۔ باوفا رہیے ۔ گھر بچا رہے گا
۔۔ سمارٹ سکرین پر موجود ہستیوں سے توجہ بھٹکا کر ذرا اپنی ذاتی بیوی پر بھی نظر کرم کر لیا کیجیے ۔ یا اسے بھی فون دلا دیجیے وقت تو اسے بھی کاٹنا ہے اور خوبصورت لچھےدار گفتگو اسے بھی اتنی اچھی لگتی ہے جتنی آپ کے ساتھ مشغول ہستیوں کو لگ رہی ہے ۔
۔۔جاب والی عورت کے لیے گھر میں وہی ماحول دیجیے جس کے آپ اپنے لیے خواہاں ہیں ۔ عزت محبت سکون پکا پکایا کھانا چائے ۔۔
۔۔ اولاد کے سامنے زوجین ایکدوسرے کی تعریف ہی کریں ۔ کبھی کوئی ہلکی بات اولاد کے سامنے نہ کیجیے ورنہ آپ خود اپنے مقام سے گر جائیں گے
۔۔عورت کے گھر والوں کو عزت دیجیے ۔ یہ حساس معاملہ ہے ۔ وہ اپ کے گھر آ تو گئی ہے لیکن اپنے پچھلوں کو قبر میں گاڑ کر نہیں آئی، رشتے ختم کر کے نہیں آئی ۔ اس پر میکے کے حوالے سے بےجا پابندیاں مت لگائیں ۔ اچھا نرم خود داماد بیٹے کی مانند ہوتا ہے ۔خوامخواہ کے جواد جی مت بنیں
۔۔ بیوی سے دوستوں کی طرح بھی گفتگو کیا کیجیے ۔ وہ صرف چند لمحات کی ضرورت نہیں ۔ زندگی کی ساتھی ہے جس کا جینا مرنا ، مستقبل کے ارادے آپ سے الگ نہیں ۔ اسے خود سے دور ہونے کا موقع مت دیجیے ۔
۔۔جیسے مرد کو جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون چاہیے ویسے ہی عورت کو بھی ذہنی جسمانی روحانی تمام سکون شوہر سے ہی درکار ہے ۔ گھر جاتے ہوئے مکمل توانائی باہر خرچ کے مت جائیں ۔ بیوی کے لیے بھی چند پیار بھرے پل بچا لیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی مرد مغرب کی نقالی میں ایسی کماو بیوی چاہتے ہیں جو گھر کا آدھا یا پورا ہی بوجھ اٹھائے اور پھر گھر میں مشرقی بیوی کی طرح تمام گھرداری بھی خوش اسلوبی سے چلائے ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ نہ اپنا کمانا جتائے نہ گھر کے کام سے ہونے والی تھکن بتائے ۔ ایسا کریں شادی کے فورا بعد بیگم کی بیٹری تبدیل کر کے اوساکا بیٹری ڈلوا لیجیے ۔ زیادہ دیر چلے گی
اس سلسلے کی تمام کڑیاں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنکس کلک کیجیے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1938671049756586&id=1500174830272879
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1938671049756586&id=1500174830272879
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1939356586354699&id=1500174830272879
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔