عصر حاضرکے مہلک و خطرناک سماجی دور میں "صنف نازک کا تحفظ "مشکل سے مشکل تر ہواجاتاہے ۔اس حساس مسئلہ کو لے کر ہز زندہ دل اور باحیا خاندان سماجی زبوں حالی کا شکوہ کررہاہے کہ نوجوان لڑکیوں کی کیسے حفاظت کی جائے ان کے کردار پرکوئی آنچ نہ آنے پائے ۔جبکہ انٹرنیٹ نے گھر گھر میں واٹس ایپ ،فیس بک اور یوٹوب و۔۔۔کے ذریعہ برائی کی راہوں کو مزید ہموار کردیا ہے ۔جس کے چلتے وہ ایک اجنبی شخص سے ملاقات کرتیں ہیں اور……
زناکاری ایک ایساپیچید ہ مسئلہ ہے جس کی پولیس شکایت کرنےسے زیادہ تر لوگ صرف اس لئے کتراتے ہیں کہ کہیں خاندانی وجاہت اورذاتی عزت پر کوئی آنچ نہ آجائے اور بعد میں دیگر مسائل کا سبب بن جائے……!
عالمی سطح پر جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اسے بطور خلاصہ پیش کیا جارہاہے :۔
جنوبی افریقا میں سال بھر میں تقریبا500000 عصمت دری کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔درآنحالیکہ نو میں سے صرف ایک یا دو کی رپورٹ کی جاتی ہے ۔
سویڈن میں ہر چھ عورتوں میں سے ایک ساتھ تجاوز کیاجاتاہے ۔
امریکہ میں تقریبا83 فیصد 12 سال سے لے کر 16سال کی لڑکیوں کو پبلک اسکول میں کسی نہ کسی قسم کا شہوانی تجربہ ہوچکا ہوتاہے۔روزانہ 230 لڑکیوں کاجسمانی استحصال کیاجاتاہے ۔پورے سال میں 12اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے 29000آبروریزی کے واقعات درج ہیں ۔پر تین میں ایک عورت اپنی پوری زندگی میں شہوانی حملہ کا ضرور شکارہوتی ہے ۔
برطانیہ اور ویلس میں روزانہ 230 اور پورے سال میں 85000زناکا ری کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔جن میں 73000لڑکیاں اور 12000 ہزار لڑکے ملوث ہوتے ہیں ۔
ہندوستان میں 18 تا 30 برس کی عمر کی لڑکیوں کےساتھ جنسی تجاوز کیاجاتاہے ۔تقریبا ہر بیس سے پچیس منٹ میں اس قسم کی واردات سامنے آتی ہیں ۔جن میں دہلی کا شہر سر فہرست آتاہے ۔جہاں گذشتہ برس 1636واقعات رونما ہوئے تھے ۔جبکہ ممبئی میں 391 ،جے پور میں 192اور پونے میں 171حادثات کے شکایات درج ہیں ۔مدھ پردیس میں ہر دن 11اور پورے ملک میں روزانہ 90 لڑکیوں کی آبرولوٹی جاتی ہے ۔
نیوزی لینڈ میں ہر دو گھنٹہ میں ایک لڑکی کی آبرولوٹی جاتی ہے ۔16 سال سے کم عمر کی ہر تین میں سے ایک لڑکی اور چھ میں سے ایک لڑکا غالبا شہوانی حملہ کاشکار ہوتاہے۔2013 ء میں نوجوان لڑکوں نے حالت نشہ میں لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی تھی ۔
کناڈامیں ہر سال کم و بیش 460000جسمانی بدفعلیاں ہوتی ہیں ۔
آسٹریلیا میں ہر چھ میں سےایک لڑکی اس بد فعلی کا شکارہوتی ہے ۔ایک تخمینہ کے مطابق ہر 15 سال سے زائد عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تجاوز ہوچکاہوتا ہے ۔اور ان حیوانی افعال کو انجام دینے والے ستر فیصد گھر ،اسکول دوست اور دیگر دوست ویارہوتے ہیں ۔
زمبابوے میں ہر نوے منٹ میں ایک ،روزانہ16اور ہر ماہ میں تقریبا 500 ہم جنسی بد کاری ہوتی ہے ۔
2014ء میں ایک مطالعہ کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ فن لینڈ میں تقریباً47 فیصد عورتوں نےجسمانی یا شہوانی بد فعلی کا تجربہ کیا ہے ۔اور ہر بیس میں سے ایک لڑکی جنسی تجاو زکا شکار ہوتی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ پوری دنیام میں 36فیصد عورتوں کو جسمانی یا شہوانی حملہ سے دوچارہونا پڑتا ہے ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک جہاں عصمت دری کی واردات اپنے عروج کو جا پہونچی ہیں ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے ۔جس کا واحد سبب اسلامی قوانین کااتباع کرنا ہے ۔اسلا م نے عورت کو اتنا عظیم مرتبہ دیا ہے کہ اہل خانہ کے لئے رحمت ،شوہر کا نصف ایمان اور ماں بن جانے کے بعد اس کے پیروں تلے جنت قرار ددیا ہے ۔سماج میں اس کی حرمت کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ وہ ایسے لباس زیب تن نہ کرے جو لوگوں کی بری نگاہوں کاسبب بنے اور دوسری طرف سے نا محرم حضرات کواس کی طرف شہوت کی نگاہوں سے دیکھنا عظیم جر م قرار دیا ہے کہ مبادا جسم کی رونمائی اور شہوتی نگاہیں کسی حرام فعل کے وجود میں آنے کاسبب نہ بن جائیں ۔
اگر کوئی شخص یہ جرم کرتے پکڑاگیا یا معتبر گواہوں نے اس کی کی شہادت دیدی تو اسلامی ملک میں قانون کے ماتحت اسے جرم کے لحاظ سے سزا دی جاتی ہے ۔
آج اگر دشمنان اسلا م بغض و عداوت کے پردے کو ہٹاکر اپنے ممالک کا اسلامی ممالک سے مقائسہ کریں تو یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ انسان کی شکل میں کہاں حیوان پنپتے ہیں ؟!انہیں اسلام کی عداوت نےدائرہ انسانیت سے خارج کر دیاہے تبھی تو ان کی ناموس سر برہنہ و عریاں کھلے بازار گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں اور……!
اگر وہ خود کو انسان تسلیم کریں اور اپنے خاندان و ناموس کی عزت کی حفاظت کرنا مقصود ہوتو انہیں لازم طور پر جان لینا چاہئے کہ اسلامی حجا ب پر پابندی عائد کرنے کے بجائے حجاب اسلامی کی پابندی کریں۔اورعورت جیسے قیمتی گوہر او رنعمت الٰہی کی قدرو حفاظت کریں ۔یہ بھی جان لیں کہ عورت چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں !مربی قوم ملت ہے شوکیس میں سجانے والی عریاں گڑیاں نہیں! ہمیشہ قیمتی اور نایاب گوہر صدف میں ہوتے ہیں اور بے قیمت سنگریزے قدموں کی ٹھوکر میں!
پس !حجاب ناموس کی حفاظت کادوسرا نام ہے۔نہ کہ محدودیت اور بے جاپابندیاں ……!
“