تو پھر شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی نے کیا سمجھ رکھا تھا کہ اسلام کے محافظ ختم ہو گئے؟
نہیں! واللہ! نہیں! اسلام کے محافظ زندہ ہیں۔ جب تک یہ محافظین اسلام زندہ ہیں‘ عورت اس ملک میں‘ اپنی اوقات میں رہے گی! ؎
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سر بکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے
اسلام اس وقت دنیا میں ہے بھی کہاں؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہیں جانتے کان کھول کر سُن لیں کہ اسلام… اصل اسلام۔ اس وقت صرف دو ملکوں میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان! الحمد للہ! پاکستان اور افغانستان کے علماء اور فقہا ء اس اصل اسلام کے محافظ ہیں! باری علیگ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’کمپنی کی حکومت‘‘ میں لکھا ہے کہ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب دارالکفر اور دارالحرب کا مسئلہ کھڑا ہوا تو بہت سے ہندوستانی مسلمانوں نے ہجرت کرتے ہوئے افغانستان کا رُخ کیا۔ انہی میں سے ایک گروہ جلال آباد کی ایک مسجد میں بیٹھا تھا ۔اکثر حضرات قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ اتنے میں مقامی معززین تشریف لائے۔راوی کو یہ یاد نہیں کہ باری علیگ نے مقامی معززین میں علما ء کا ذکر بھی کیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کتاب کو پڑھے ہوئے چالیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا۔مسجد میں مقیم مہاجرین سے انہوں نے گفتگو شروع کی۔ مہاجرین نے بتایا کہ پشتو نہیں جانتے ۔ اس پر معززین برافروختہ ہو گئے اور کہا ’’اگر پشتو نہیں جانتے تو قرآن کس طرح پڑھ رہے ہیں‘‘۔ تو اصل اسلام وہی ہے جو افغانستان میں رائج ہے۔ اور افغانستان کے فیض سے وہی اصل اسلام پاکستان میں بھی رائج ہے کیونکہ مدرسہ اسلام آباد میں ہو یا لاہور میں یا کراچی میں یا جہاں بھی ہو‘ ڈانڈے پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے افغانستان ہی سے جا ملتے ہیں۔ اہلِ علم کو یہ بھی معلوم ہے کہ مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے فرزند جسٹس تقی عثمانی نے ایک طویل عرصہ اسلامی بنکاری کے حوالے سے تحقیق و جستجو میں گزار کر اجتہاد کا ایک دروازہ کھولا۔ یہ ایک مسلسل عمل تھا جس میں غلطیوں کا امکان بھی تھا مگر اجتہاد میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ جسٹس تقی عثمانی صاحب نے اُن مسلمانوں کو ایک راستہ دکھایا جو عام بنکوں میں رقم رکھنے یا ان سے قرض لینے سے اجتناب کر رہے تھے۔مگر ایک گروہ نے اس سارے عمل کی مخالفت کی۔ اس گروہ کے ڈانڈے بھی مبینہ طور پر وہیں سے ملتے ہیں جہاں اصل اسلام کا مرکز ہے!
افغانستان اور پاکستان میں رائج اصل اسلام ہی کا فیض ہے کہ عورتیں یہاں اپنی اوقات میں ہیں! مثلاً اِن دو ملکوں کی مسجدوں میں عورتوں کے داخل ہونے اور نماز ادا کرنے کا تصور ہے نہ اجازت!پشاور سے روانہ ہوں اور جی ٹی روڈ کے راستے لاہور کا رُخ کریں۔ سارے راستے میں اگر عورت کے لیے کسی مسجد میں وضو کرنا اور نماز پڑھنا ممکن ہو تو اطلاع دیجیے۔ یہ ’’غیر اسلامی‘‘ حرکت انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ ترکی‘ مراکش اور سارے عرب ملکوں میں ہو رہی ہے۔ خواتین پانچ وقت کی نمازیں مسجدوں میں ادا کر رہی ہیں! الحمد للہ اِس حرکت سے پاکستان اور افغانستان بچے ہوئے ہیں‘ موٹر وے پر جو مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں خواتین کے نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ دینی رہنمائوں کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ آئندہ اجتماع میں‘ حقوق نسواں بل کے علاوہ اِس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں۔ اگر موٹر وے پر بنی ہوئی مسجدوں میں خواتین کے نماز پڑھنے کا رواج‘ پورے ملک میں پھیل گیا تو ہم کل روزِ حشر کیا جواب دیں گے۔ مراکش‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ کویت ‘ قطر‘ انڈونیشیا ‘ ملائشیا اور برونائی کے
علما ء وہاں ہماری کچھ مدد نہیں کر سکیں گے!
الحمد للہ ! ہمارے کئی دینی مدارس خواتین طالبات اور خواتین اساتذہ سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ازروئے حدیث علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے مگر اس کا اطلاق ہماری دینی درسگاہوں پر نہیں ہوتا۔ دین کا علم حاصل کرنا صرف مرد ہی کو زیب دیتا ہے!
اس میں کیا شک ہے کہ مرد ہی سب کچھ ہے۔ مرد ہی آقا ہے۔ مرد ہی مالک و مختار ہے۔ چاہے تو گھر سے نکلتے وقت باہر کنڈی لگاتا جائے کہ عورت کہیں باہر نہ نکل جائے۔ ابھی چند عشرے پہلے ہی تو یہ فرمایا جاتا تھا کہ عورتوں کو پڑھنا سکھائو مگر لکھنا نہ سکھائو کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوس کے نامحرم مردوں سے خط و کتابت شروع کر دیں گی۔ چنانچہ برصغیر میں جو مسلمان خواتین گزشتہ صدی کے پہلے تین عشروں کے دوران پیدا ہوئیں ان کی اکثریت لکھنے سے نابلد تھی! افسوس! اب یہ احتیاط نہیں کی جا رہی! عورت کا کیا اعتبار! عورت پر شک کرنا اسلام کی اصل روح ہے! عورت ذات پر اعتبار جس نے بھی کیا‘ گھاٹے میں رہا!
مذہبی جماعتوں کے اجتماع میں جو ڈیڈ لائن پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو دی گئی ہے‘ ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل کر کے مذہبی جماعتوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔
… جیسا کہ مطالبہ کیا گیا ہے وزیر اعلیٰ معافی مانگیں اور حلف اٹھا کر عہد کریں کہ آئندہ خواتین کے حق میں کچھ کرنا تو دور کی بات ہے‘ سوچیں گے بھی نہیں! اِس بار انہیں معاف کیا جائے کیونکہ اسلام کی ساری ٹھیکیداری انہی حضرات کے قبضے میں ہے جو وزیر اعلیٰ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
… جس صوبائی اسمبلی میں حقوق نسواں کا بل پاس ہوا‘ اُسے تحلیل کر دیا جائے۔ ان ارکان کو دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دینا ایک غیر اسلامی فعل ہو گا۔
جو حضرات یہ پوچھ رہے ہیں کہ حقوق نسواں بل کی کون سی شق غیر اسلامی ہے اور قرآن و حدیث کے کس حکم کی خلاف ورزی ہے‘ انہیں فی الفور گرفتار کیا جائے۔ اِن عاقبت نااندیشوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہمارے سیاسی علماء نے کہہ دیا ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے متصادم ہے تو یہ حرفِ آخر ہے!
… دینی جماعتوں کے سربراہان جو اب بار بار کہہ رہے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق پہلے ہی دے رکھے ہیں‘ انہیں اِس بات پر تمغے دینے چاہئیں کہ انہوں نے ونی‘ اسوارہ‘ کاروکاری‘ غیرت کے نام پر قتل‘ قرآن سے شادی اور پنچایتوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی وحشت و بربریت کے خلاف ایک لفظ… جی ہاں… ایک لفظ بھی آج تک نہیں کہا۔ اس مستقل مزاجی اور مستقل عورت دشمنی پر لازم ہے کہ قوم اِن علماء کرام کو سلیوٹ کرے۔
افغانستان میں رائج شٹل کاک(ٹوپی والا برقع) حکماً پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔
…خواتین کے سکول کالج اور یونیورسٹیاں بشمول میڈیکل کالج فوراً بند کر دیے جائیں۔
… جب خواتین ڈاکٹر اور نرسیں ناپید ہوجائیں تو مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے والی مریض اور حاملہ عورتوں کو گولی مار دی جائے۔
… تاریخ کی کتابوں سے حضرت نفیسہ بنت حسن‘ شفا بنت عبداللہ‘ رفیدہ اسلمیہ اور اس قبیل کی دیگر خواتین کے اسماء گرامی کھرچ دیے جائیں تاکہ ہمارے اصل اسلام کو نقصان نہ پہنچے۔ حضرت رفیدہ اسلمیہ(انصاریہ بھی کہلاتی تھیں)سرجن تھیں۔ وہ اپنے خیمے میں زخمیوں اور بیماروں کا علاج فرماتی تھیں۔ جنگ خندق میں حضرت سعد بن معاذؓ زخمی ہوئے تو آقائے دو جہاںؐ نے انہیں حضرت رفیدہ کے خیمے ہی میں رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت شفابنت عبداللہ کو حضرت عمر فاروق ؓنے مدینہ کے بازار کا انسپکٹر مقرر کیا۔ وہ ڈیوٹی بازار ہی میں سرانجام دیتیں! حضرت نفیسہ بنت حسن ؓ ‘حضرت حسن بن زیدؓ کی صاحبزادی تھیں۔ امام شافعی ان کی خدمت میں طلبِ علم کے لیے حاضری دیتے رہے۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت نفیسہ ؓسے احادیث کی سماعت فرمائی۔ امام شافعی نے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ حضرت نفیسہؓ کے مکان کے سامنے سے گزارا جائے۔
…لوگوں کو یہ بتانے سے احتراز کیا جائے کہ سرورِ کونینؐ گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ جوتے مرمت کرتے تھے۔ گھر کی صفائی فرماتے تھے۔ کپڑے دھوتے تھے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے یعنی سلائی کا کام بھی سرانجام فرماتے تھے۔ اِن باتوں سے اُس اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ ہمارے ہاں یہ سارے کام صرف اور صرف عورت ہی کرتی ہے۔ اور اسے ہی کرنے ہوں گے۔
…عورتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک الگ وزارت تشکیل دی جائے۔ مذہبی جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک بورڈ اِس وزارت کا انچارج ہو۔ وزیر اعظم وقتاً فوقتاً اِس بورڈ کی خدمت میں حاضر ہوا کریں۔ پوری قوم اِس بورڈ کو اسلام کا اجارہ دار سمجھے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“