ہمارے معاشرے، گھر، خاندان، محلے میں جو سب سے قابلِ احترام ہستی ہے، وہ عورت ہے۔ گھر کے ہر سُکھ دُکھ، اُمید، خوشحالی حتٰی کہ زندگی والے دروازے کی چابی بھی عورت ہی کے پاس محفوظ ہوتی، جس گھر میں عورت نہیں وہاں پودوں پر پھول نہیں صرف کانٹے اُگتے ہیں۔
ایک مرد کی نسبت عورت کا قد چھوٹا، طاقت کم، وزن کم، خون کم، صحت کم، دماغ کم، سال کے بارہ میں سے دو ماہ عورت بیمار، بچے پیدا کرتے بھی عورت بیمار، بچوں کو دو سال دودھ بھی پلانا ہوتا، اس سب پر مستزاد کے عورت کی جسمانی ساخت بھی اللّہ پاک نے مغلوب ہی بنائی۔
ان بہت ساری وجوہات کی بنا پر پوری انسانی تاریخ میں عورت کبھی بھی مرد پر بالا دست یا گھرانے کی سربراہ نہیں رہی۔
فرض کیا عورت سربراہ ہے۔ دشمن ملک نے حملہ کر دیا اور ملکہ عالیہ کے حکم کا انتظار ہے ، لیکن پتا چلا کہ ملکہ صاحبہ اس وقت ماں بننے جیسا عظیم فریضہ ادا کر رہی ہیں تو کام کیسے چلے گا۔
اب اگر ایک گھر میں برابر اختیارات کے دو حاکم ہوں تو وہ گھر یا ادارہ کبھی بھی نہیں چل سکتا لہزا فیصلہ کُن طاقت صرف ایک ہی ہو گی تو تمام سسٹم چلے گا۔ ویسے بھی ایک مرد کو عورت کا حاکم بنا کر اُسی مرد کے بچوں کو چاہے وہ دس ہوں ، ماں کے احکامات کا پابند کر دیا گیا تو مزید حاکمیت کی ضرورت کیا ہے ۔ عورت مرد سے علیحدگی لے سکتی لیکن بچے تو دین یا دنیا میں، کبھی بھی ماں کی حاکمیت سے علیحدہ نہیں ہو سکتے ۔ سو سال کا مرد بھی مرتے مرتے آخری سانس میں اپنی ماں کو ہی پکارتا ۔ یہ عورت ہی ہے کہ جو بیک وقت باپ، خاوند اور پھر اپنے بچوں کی جائیداد میں جائیز اور قانونی وارث ہے۔
آج کل جو یہ خواتین میں گھریلو سربراہی کا جنون پیدا ہو رہا یہ انجام کار خواتین ہی کے حق میں زہر قاتل ہے۔ اس وقت ہر قانون عورت کے حق میں اور عورت کی مرضی مطابق جا رہا۔ یورپ امریکہ وغیرہ میں کوئی مرد شادی کے صرف ایک دن بعد بھی عورت کو علیحدہ کر دے تو قانوناً اس کی آدھی جائیداد کی مالک عورت ہے۔
عورتوں نے یہ قانون بنوایا تو اپنے فائیدے کے لئیے تھا لیکن فطرت سے بغاوت کی سزا بھی اب عورت ہی کو مل رہی ہے۔ اب نام نہاد جدید ممالک کے زیادہ تر مرد شادی سے ہی انکاری ہیں۔ وہ شادی کر کے اپنی تمام عمر کی آدھی کمائی عورت کو کیوں دیں۔ نئے آنے والے بچوں کی تعداد کم اور بوڑھوں کی زیادہ ہوتی جا رہی ۔ وہاں کے مرد اب چاہتے ہیں کہ بغیر شادی کے ہی گرل فرینڈ ساتھ مل کر رہو۔ کچھ دن عیاشی کرو۔ جب بچے پیدا ہو جائیں تو اس عورت کو چھوڑ دو اور اگلی بغیر بچوں والی عورت پاس چلے جاؤ ۔ اس کے بعد پہلے والے بچے جانیں اور انکی ماں جانے کیوں کہ سربراہ کے خانے میں نام اُسی عورت کا ہے۔
بل کلنٹن نے کبھی کہا تھا کہ کچھ سال بعد امریکہ میں کسی کو پتا ہی نا ہو گا کہ اس کا باپ کون ہے۔
تو مرد گھر کا سربراہ اس لیئے ہے کہ وہ اس سربراہی کی فِطرت لے کر ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا، مرد سربراہی کی طاقت اور اہلیت رکھتا ہے۔