عورت اور ابارشن
مرد عورت کو نہیں سمجھ سکتا
کیوں کہ وہ حاملہ نہیں ہوسکتا
وہ نہیں جان سکتا کہ :
ماں بننا کس قدر متضاد تجربہ ہے!
عورتوں نے ابھی تک اس بات کو
کسی کے ساتھ شےئر نہیں کیا کہ:
وہ بچپن سے ہی ماں کی طرح محسوس کرتی ہیں
جب وہ اپنے چھوٹے بالوں میں کنگھی کرتی ہے
تب وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی ہیں
جب وہ رات کو کھلے آسمان تلے سوتی ہیں
تب وہ اپنے بچوں کے نام سوچتی ہیں
جب وہ مٹی کے کھلونے بناتی ہیں
تب ان میں بچوں کے نرم گالوں کا لمس محسوس کرتی ہیں
اور جب پیار کے پاگل پن میں پریگننٹ ہوجاتی ہیں
تب ابارشن کا آئڈیا انہیں کس قدر اذیت دیتا ہے!
انہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کی روح جسم سے الگ ہوجائے گی!!
ابارشن کا حق حاصل کرنے کی آوا ز عورت کی تھی
ؒ مگر عورتوں نے یہ حق زندگی ک حق کی طرح نہیں
خودکشی کے حق کی طرح مانگا تھا
انہوں نے بہت ساری راتیں روکر سوچا تھا
وہ اس بچے کوپ دنیا میں کیوں لائیں؟
جسے پیار نہیں پاپ سمجھا جائے گا
وہ اس بچے کو دنیا میں کیوں لائیں؟
جسے محبت نہیں نفرت ملے گی
وہ اس بچے کو دنیا میں کیوں لائیں؟
جس کے لیے کوئی شاپنگ نہیں کرے گا
جس کے لیے کوئی ریشمی کپڑے کے نرم جوتے نہیں خریدے گا
جس کے لیے کوئی پالنا اور اس کے اوپر لٹکتا ہوا جھنجھنا نہیں لائے گا
جس کا کوئی خوبصورت نام نہیں رکھے گا
جس کو ہر کوئی ’’غیر قانونی‘‘ کہے گا
عورت صرف یہ سوچ کر اپنے وجود میں موجود زندگی کو
موت کے حوالے کرنے کوتیار ہوجاتی ہے کہ:
یہ اس کی سزا ہے کہ اس نے جسمانی طور پر مرد
اور روحانی طور پر نامرد شخص سے پیارکیا!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔