اک لمحہ جو آنکھ سے ٹپکا پھر اس کو کئی برس بیت گئے ۔۔۔اس بیتے لمحے کی کہانی ساکن پانیوں جیسی ہے اس پانی میں چہرا اپنا دیکھوں تو عکس تمہارے نام نکلتا ہے دیکھو میں ٹھیک کہتا تھا تم غلط نکلی کہ مجھے اپنی عادت نہ ڈالو کیونکہ بچپن سے میں نے خود کو اپنی عادتوں کا غلام پایا ہے مگر تم کہ ہمیشہ سے ضد کی پکی آہستہ آہستہ میرے رگو پے میں سرایت کر گئی میرا تخیل میرا تصور تم بن گئی ہاں مجھے اعتراف کرنے دو کہ میں نے تمھیں جیا ہے
اب کون مجھ کو غیر محسوس آنکھوں سے محسوس کرے گا ہاں کون خود کو مجھ میں روز سنوارے گا کیسا المیہ ہے کہ سب کے بیچ تم مجھ کو تنہا کر گئی ماں باپ ہمارا بچہ سب موجود ہیں مگر کیسا بے معنی سا تعلق رہ گیا میں نے گردو پیش کا جائزہ لیا میرا نومولود بیٹا بیڈ پر لیٹا آہستہ آہستہ ہونٹوں کو ایسے جنبش دے رہا ہے جیسے تخیل میں دودھ پی رہا ہو انسان پیدائش سے ہی کیسا بے بس ہے اگر مامتا میسر نہ آئے تو کیا زندگی کا آغاز ممکن ہے شاید نہ ممکن ہو عورت کے ہر رشتہ میں مامتا پوشیدہ ہوتی ہے بہنیں بھائیوں کی مائیں بھی ہوتی ہیں کیا بات یاد آئی جب تم نے کہا تھا کہ تم نے مجھے میری ماں سے گود لیا ہے میں نے کتنے غصہ سے تمھیں دیکھا تھا اور معاشرتی مذہبی کتنے حوالے دے کر تمھیں غلط ثابت کیا تھا تم لاجواب اور خاموش تھیں مگر میں آج تک تمہاری آنکھوں میں چھلکتی مامتا بھلا نہی سکا قدرت نے عورت کی مٹی رحم اور مامتا سے گوندھی ہے ورنہ جس طرح کے کمپرمائزز عورت کو کرنے پڑتے ہیں شاید کہ وہ نہ کرپاتی۔جانوروں میں جس کی ماں مر جائے وہ یتیم کہلاتا ہے جبکہ ہمارے سماج میں جس انسان کا باپ مر جائے وہ یتیم کہلاتا ہے کیونکہ باپ اولاد کا کفیل ہوتا ہے اس لیے اس کے مرجانے سے بچہ کفالت سے محروم ہوجاتا ہے تو سن بلوغت سے پہلے اُس کو یتیم کہا جاتا ہے اور بلوغت کے بعد اُس کے ماضی کی نسبت سے یتیم کہا جاتا ہے تو کیا کفالت سے محروم ہوجانا یتیم ہوا جو مامتا سے محروم ہوجائے اُسے کیا کہیں یقیناً وہ بھی یتیم ہی ہوتا ہے ہمارا بیٹا ہی تمہارے چلے جانے سے یتیم نہی ہوا ہے مجھے لگتا ہے میری جنت بھی مجھ سے چھن گئی ہے