”اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات” قومی اعزاز یافتہ ریسرچ اسکالر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رفیع الدین ناصر(پروفیسر مولانا اازاد کالج، اورنگا باد،مہاراشٹر) کی ایک اہم تحقیقی کاوش ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی چونتیسویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل ان کی تینتیس کتابیں منصہ شہود پر آکر سائنسی ادب کے باذوق قارئین سے داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں اور اس ” اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات” کتاب کے بعد بھی مزید تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا شمار سائنسی ادب کے صف ِ اوّل کے قلمکاروں میں ہوتاہے۔ یہ مولانا آزاد کالج، اورنگ آباد، مہاراشٹر کے شعبہ ٔنباتیات کے صدرشعبہ اور ریسرچ گائیڈ ہیں۔ بہت ہی فعال ادیب بھی ہیں۔ ان کے تین سو سے زائد سائنسی مضامین قومی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت و تحقیقی مقالات کی پیشکش کے لیے اٹھارہ ممالک کے سفر کرچکے ہیں۔قبا ذکر طور پر موصوف قاہرہ یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر اور ریفری بھی ہیں۔ ان کی کتابوں پر مہاراشٹر، بنگال اور اترپردیش تینوں اکیڈمیوں سے انعامات بھی مل چکے ہیں۔ اردو ادب کے لیے یہ باعث افتخار ہے کہ انھیں فرانس، بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک نے بھی مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا۔ سائنس جیسے خشک موضوع پر لکھنے والے ادباء کی تعداد اردو ادب میں بہت ہی کم ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ اردو ادب میں سائنسی مضامین لکھنے والا ڈاکٹر رفیع الدین ناصر جیسا ایک جیالا شخص بھی موجود ہے جس کا تعلق اس خانوادے سے ہے جو سائنسی ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔
تحقیقی کام آسان نہیں ہوتا ہے۔ اس میں منزل پانے کے لیے خاردار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تحقیق میں نئے علم کی تلاش ہوتی ہے اور موجودہ علم کے استعمال کو نئے تصورات’ طریق ِ کار اور تفہیم کے ذریعہ مزید وسعت دی جاتی ہے۔ اس میں ترکیب اور تحقیق کا تجزیہ اس حد تک ہوسکتا ہے کہ اس سے نئے تخلیقی نتائج برآمد ہوں۔ سائنسی تحقیق کچھ زیادہ ہی دشوار ہوا کرتا ہے۔ یہ وہ تحقیق ہے جو ڈیٹا کو حاصل کرنے، تجزیہ کرنے اور تشریح و تقابلہ کرنے کے لیے منظم اور تعمیر شدہ سائنسی طریقوں کو استعمال کرکے کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر ان تمام کوائف سے کلی طور سے خوب واقف ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب ” اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات” ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی ایک شاندار تحقیقی کاوش ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے 234 پودوں کا ذکر ِ خاص کیا ہے۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ ان پودوں کے نام اردو حروفِ تہجی کے مطابق ترتیب دے گئے ہیں۔ کتاب کے آخر میں سائنسی نام کو انگریزی حروف تہجی کے مناسبت سے بھی سجایا گیا ہے۔ ان پودوں کی دستیابی کہاں ہوسکتی ہے، اس کی بھی نشاہدہی کی گئی ہے۔ ان کے طبی فوائد کے متعلق ضروری معلومات بھی درج ہیں۔الغرض یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے ، جو گھر بیٹھے کرلیا گیا ہو۔ ملاحظہ فرمائیں ڈاکٹر رفیع الدین ناصر اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں:
” زیر ِ نظر کتاب دراصل اسی طرح کے تحقیقی کام کا نچوڑ ہے جو اورنگ آباد کے جنگلات پر آٹھ سال کی گئی ہیں۔ اس دوران اورنگ آباد ضلع کے تعلقہ جات کے مختلف جنگلات میں ماہرین کی مدد سے پودوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی۔ ان پودوں کو جمع کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں مختلف ماہرین ِ نباتات کی مدد سے ان پودوں کے سائنسی نام اور دگر نام تلاش کئے گئے۔ (اپنی بات ص۔ XXI)
اس اقتباس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے کس تندہی ،لگن اور مشقت سے یہ گراں قدر تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔ آٹھ برس کی طویل ریاضت کے بعد انھوں نے یہ کتاب ہم تک پہنچائی ہے۔ اس کام کے لیے انھوں نے مختلف دیہاتوں کے وید ، حکیم ، بھگت اور طبی ماہرین سے معلومات حاصل کی۔ صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ جنگلات بھی گئے اور وہاں ان حضرات نے انھیں پودوں سے روشناس کرایا۔ ڈاکٹر موصوف نے پودوں کے نام کے ساتھ ان کے خصوصیات اور باریکیوں کو سمجھا نیز تجزیہ کیا ، تب کہیں جاکر مطمئن ہوئے اور تمام معلومات کو ضبط ِ تحریر میں لائے، اور تمام پودوں کو بہترین رنگین تصاویر کے ساتھ پیش کیا۔ اس کام میں محکمۂ جنگلات کے افسران کا تعاون بھی شامل ِحال رہا۔ ان تمام باتوں کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ آپ ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کی کام کرنے کی اسپرٹ کو سمجھ سکیں۔ مشہور فلسفی بقراط نے قیاس اور تجربے کے علاوہ یقینی مشاہدے کو تحقیق کے لیے ضروری بتایا تھا۔ لگتا ہے ڈاکٹر موصوف بھی اسی خیال کے حامی ہیں اور وہ تحقیقی کام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ذہنی یکسوئی کے ساتھ، موضوع سے ہم آہنگ ہوکر اپنی طے شدہ منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔ پودوں کے متعلق اس قدر معلومات اکٹھا کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ پودوں کے متعلق ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کا کہنا ہے:
” پودوں کا انسان سے رشتہ نہایت قدیم ہے۔ ہم اس رشتے کو طلوعِ انسانیت سے جوڑ سکتے ہیں جہاں انسان اپنی ضروریات جیسے غذا ‘ ادویات اور رہائش کے لیے پودوں اور درختوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔” (مقدمہ۔ بنیادی نباتات)
اس بات سے ڈاکٹر موصوف اچھی طرح واقف ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں:
” اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار وسائل کی دولت سے مالا مال کیا ہے جس میں درخت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ قدرت کے اس لازوال دولت کا اگر ہم تفصیلی مطالعہ کریں تو ہمارا ذہن اس کے اختتام تک نہیں پہنچ سکتا۔”: (اپنی بات۔ اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات)
زیر ِ تبصرہ کتاب کا موضوع گرچہ بہت سخت ہے لیکن ڈاکٹر رفیع الدین ناصر کا کمال یہ ہے کہ اس موضوع کو انھوں نے سہل اور رواں دواں زبان میں لکھا ہے کہ عام قاری بھی پودوں اور اس کی افادیت کو آسانی سے سمجھ لے۔ ادبی چاشنی بھی خوب ہے ۔ سائنس اور ادب کا یہ حسین امتزاج ان کی فنکاری کی دلیل ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ان کی تحریر میں بتدریج گہرائی اور پختگی آئی ہے۔ موصوف کی نگارشات میں علمی بصیرت’ زبان و بیان کی چاشنی اور محققانہ حسن کاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ وہ ثقیل الفاظ سے اپنی تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتے۔ مجموعی طور پر ” اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات” نہ صرف تحقیق کا ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے بلکہ متاعِ بیش بہا ہے۔
اس زبردست تحقیقی کاوش کے لیے خاکسار موصوف کو مبارکباد پیش کرتاہے۔ دعاگو ہوں کہ اردو ادب کا یہ جیالا صحتمند اور توانا رہے تاکہ اس تا کہ کی تحقیقی کتابوں سے اردو ادب مالا مال ہوتا رہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...