چھ فٹ لمبے رشید کمال نے میرا سوال سنا‘ آنکھیں بند کیں اور ایک لمحے بعد کھولیں تو کرب اسکے چہرے پر چھایا ہوا تھا۔
”آٹھ سال ہو گئے‘ وطن نہیں گیا“۔
”کب پھیرا لگانے کا ارادہ ہے؟“ ..
..”جب حالات ٹھیک ہونگے“
آٹھ سال پہلے وہ وہیں تھا‘ دارالحکومت میں بیوی بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں جا رہا تھا‘ پولیس کی گاڑی نے اسے پریشان کیا‘ اس نے احتجاج کیا تو پولیس نے اسکی کار قبضے میں لے لی اور یہ بھی بتایا کہ کار کی ڈگی میں چرس رکھی ہوئی ہے۔ اسکی قسمت اچھی تھی‘ ایک اعلیٰ افسر اس کا دوست تھا اور اس سے رابطہ بھی ہو گیا۔ جان چھوٹ گئی لیکن اسکے اندر کوئی چیز کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ بیوی اور دو بچے سڑک پر کھڑے ہیں‘ کار پولیس کے قبضے میں اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ زیادہ احتجاج کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بیوی بچوں کی موجودگی میں اسکی پسلیاں توڑی جاتیں اور پھر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ رشید کمال نے ایک فیصلہ کرلیا‘ پناہ کے دروازے انٹرنیٹ پر کھل رہے تھے۔ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد بیوی بچوں کو لیا اور پولیس سٹیٹ کو خیرباد کہہ آیا۔
”حالات کب ٹھیک ہونگے‘ میں نے پوچھا۔
”جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو گا‘ جب ذہنیت بدلے گی؟“
میں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کا ملک سے ملک کی ثقافت سے رابطہ ضروری ہے‘ وہ زیادہ وقفے سے سہی‘ جایا ضرور کرے‘ اس نے موضوع تبدیل کر دیا۔
پرسوں اتوار تھا‘ 26 فروری تھی‘ دروازے پر دستک ہوئی‘ بابر رشید کمال کھڑا تھا۔ آکر بیٹھتے ہی بولا ”انکل! آپکا لیپ ٹاپ کہاں ہے؟“ اس نے لیپ ٹاپ کھولا‘ کی بورڈ پر کچھ ٹائپ کیا اور کہنے لگا“ آپ مجھے نصیحت کر رہے تھے کہ بچوں کا ملکی ثقافت سے ہم آہنگ رہنے کیلئے وطن جانا ضروری ہے‘ ذرا سنیئے۔
”ضمنی انتخابات میں پولنگ کے دوران لڑائی جھگڑوں کے دوران ملتان اور مردان میں کئی افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ ملتان میں وزیراعظم کے بیٹے کی کامیابی کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ مخالف امیدوار کے حامیوں نے فائرنگ کی‘ ایک ہلاکت موقع پر ہو گئی‘ اندرون شہر کئی پولنگ سٹیشنوں پر اتنا جھگڑا‘ اتنی مار کٹائی ہوئی کہ پولنگ منسوخ کرنا پڑی۔ اسلحہ کی کھلے عام نمائش‘ صبح سے شام تک جاری رہی۔ مردان میں اے این پی کے امیدوار کی کامیابی کی خوشی میں اندھا دھند فائرنگ سے پورا علاقہ گونجتا رہا اور اس ہوائی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ ٹنڈومحمد خان میں خاتون امیدوار نے الیکشن کمشن کے عملے کی خواتین پر مکوں‘ تھپڑوں اور چانٹوں کی بارش کر دی۔ یہ منظر ٹی وی پر اور یو ٹیوب پر پوری دنیا میں دیکھا گیا اور دیکھا جا رہا ہے۔ وہاڑی میں پولنگ کے دوران گروہوں کے درمیان تصادم ہوا‘ پولنگ رک گئی اور رینجر بلا لئے گئے۔ بہاولپور میں خواتین کے پولنگ سٹیشن میں مرد عملہ گھس گیا۔ ناتھا سنگھ میں دو گروپوں کے درمیان پولنگ سٹیشن کے اندر ہی فائرنگ ہوتی رہی۔ یونین کونسل موچھ میں پولنگ سٹیشن کے اندر فائرنگ ہوئی اور دس سالہ لڑکا شدید زخمی ہو گیا۔ چیک لالہ میں دس پولنگ سٹیشنوں پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ میانوالی میں پولنگ سٹیشن پر ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے وہیں پر جاں بحق ہو گیا۔ کامیاب امیدواروں نے جشن منائے‘ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ہوئے اور مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ سنگھڑپور میں ووٹرز نے پولیس کے جوان پر تشدد کیا۔“
رشید کمال سے میں نے کوئی بحث نہیں کی لیکن میں نے یہ ضرور سوچا کہ آج اگر پڑھے لکھے پاکستانیوں کو رشید کمال کی طرح باہر بھاگ جانے کا موقع ملے تو کتنے لوگ بھاگنے کیلئے تیار ہوجاِئیں گے‘ اور پھر کتنے ہیں جو واپس آئینگے؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچی بات یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والے گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں‘ ایک طبقہ وہ ہے جس کا پڑھائی لکھائی‘ کتاب‘ مطالعہ‘ متانت‘ شائستگی اور برداشت سے دور کا تعلق بھی نہیں‘ اس میں حکمران ہیں‘ سیاست دان اور انکے حامی جو بلاشبہ لاکھوں کروڑوں میں ہیں۔ آپ اگر سیاسی جماعتوں سے گنتی کے مشاہد حسین‘ اعتزاز احسن‘ صدیق الفاروق اور فرحت اللہ بابر نکال دیں تو معاملے کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائیگا۔ بندوقوں کی چمکتی ہوئی نالیاں‘ کلاشنکوفوں کا لوہا‘ جہازی سائز کی گاڑیاں‘ لکڑی کی طرح کھڑکھڑاتی پوشاکیں اور سونے کی انگوٹھیاں‘ ڈیرے‘ خوفناک کتے‘ گن مین‘ محلات‘ یہ ہے حکمران طبقہ اور اس میں حکومت یا حزب اختلاف کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان سیاستدانوں کے حامی بھی اسی قماش کے ہیں‘ ان کا علم سے دیانت یا متانت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر یا مارپیٹ کر پولنگ سٹیشنوں پر لانا ہے۔ جلوس نکالنے ہیں‘ بھنگڑے ڈالنے ہیں‘ تھانوں کچہریوں کے معاملات طے کرنے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو دن بدن سکڑ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نرم گفتار ہیں‘ پڑھے لکھے ہیں‘ دیانت دار حکمرانوں کی حسرت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور عزت بچا کر کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے ہیں۔
آپکا کیا خیال ہے‘ آپ کو اگر موقع ملے تو کیا آپ اپنے بچوں کو اس معاشرے میں رکھنا پسند کرینگے‘ جہاں خوشی منانے کیلئے وحشی جانور ہوائی فائرنگ کریں اور اس قدر کریں کہ انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ جہاں سیاسی جماعتوں کے نمائندے خاتون پولنگ افسروں کے چہروں پر تھپڑ اور مکے رسید کریں اور جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا جائے؟ تو پھر رشید کمال کو موقع ملا ہے تو وہ بھی تو یہی چاہتا ہے کہ اسکے بچے اس معاشرے میں پلیں‘ بڑھیں جہاں کوئی کسی کو اوئے نہیں کہتا۔ جہاں کوئی فرش پر نہیں تھوکتا‘ جہاں کوئی ناک میں انگلی نہیں مارتا‘ جہاں جیتنے والے امیدوار جلوس نکالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ جہاں ہوائی فائرنگ کا کوئی تصور نہیں‘ جہاں اسمبلیوں کی رکنیت موروثی نہیں‘ جہاں وزیر سرکاری دورے پر آئے تو ایئرپورٹ سے اتر کر تنہا‘ اکیلا آتا ہے اور اسکے استقبال کیلئے کوئی ایک شخص بھی اپنے دفتر سے باہر نہیں نکلتا۔ جہاں آپ دس سال بھی رہیں تو آپکو کسی بازار میں‘ کسی دفتر میں‘ کسی سڑک پر کوئی شخص فوجی وردی میں نہیں نظر آتا اور جہاں کوئی شخص بھی لین دین کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتا۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچی بات یہ ہے کہ یہ ملک ”دوگروہوں میں منقسم ہو چکا ہے‘ تھپڑ کھانے والے اور تھپڑ مارنے والے‘ کیا آپ نے اس سوال پر غور کیا ہے کہ آخر کسی ایک سیاست دان نے بھی‘ کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی‘ خاتون پولنگ افسر کو تھپڑ مارے جانے پر کیوں احتجاج نہیں کیا۔ احتجاج تو دور کی بات‘ کیوں اعتراض تک نہیں کیا؟ اسلئے کہ تھپڑ مارنے والے سب ایک طبقے سے ہیں اور تھپڑ کھانے والے سب‘ دوسرے طبقے سے۔ جس پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہوئی‘ وہ استاد تھی‘ سکول یا کالج میں پڑھاتی تھی اور تھپڑ مارنے والے طبقے کو اطمینان ہے کہ اسکا اور اسکی آئندہ نسلوں کا پڑھنے پڑھانے اور سکول کالج سے کوئی تعلق نہیں اور اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ تبدیلی آئیگی تو وہ دیکھ لے اور اچھی طرح دیکھ لے کہ تھپڑ مارنے والوں سے اس عمران خان کی پارٹی بھر چکی ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگا رہا ہے۔