گہری نیند میں کسی خلل نے مجھے جبراً اٹھنے پر مجبور کردیا۔ دورانِ سفراکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ جاگنے کے لیے کروٹیں لے رہے ہوں تو کچھ لمحے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کس مقام پر ہیں۔ اپنے گھر، اپنے بیڈروم میں یا نہ جانے کہاں۔ اور اگر بیداری ٹرین کے سفر کے دوران ہوتو عجب کیفیت ہوتی ہے۔ میں ہڑبڑا کر اردگرد دیکھنے لگا کہ میں کہاں ہوں۔ ریل گاڑی برابر سیٹی بجاتی جا رہی تھی۔ آنکھیں ملتے ملتے کھولیں تو اردگرد کیبن میں ہمسفر سوئے دیکھے۔ لیکن میں اگلے ہی لمحے جان گیا کہ میرے ہمسفر ایرانی ہیں۔ یہ تو ریل کی سیٹی تھی جس سے مجھے خبر ہوئی کہ اپنے اردگرد سوئی سیاہ چادر پوش خواتین ومرد میرے ہمسفر ہیں ، اور میں کسی قیدخانے میں نہیں۔
ٹرین کی رفتار سیٹی بجنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی تھی۔
آہا! ہم تہران میں داخل ہورہے ہیں۔
جہاں تہران یونیورسٹی ہے۔ چار سال قبل اس یونیورسٹی نے دنیا میں دھوم مچا رکھی تھی، مغرب ومشرق میں۔ کیا پرنٹ میڈیا اور کیا ریڈیو ٹیلی ویژن۔ ہر روز خبریں آتی تھیں کہ تہران یونیورسٹی کے طلبا وطالبات، ایرانی شہنشاہیت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ ایران کے شہر شہر ایسے مظاہروں اور جلوسوں سے ہرروز پوری دنیا کی خبروں کا حصہ بنتے۔ عوام ٹینکوں کے آگے کھڑے مقابلہ کرتے۔ ان میں خواتین بھی پیش پیش ہوتیں۔ نوجوان اور طلبا ان مظاہروں کی قیادت کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ مظاہرے تحریک میں بدلے اور پھر انقلاب میں ڈھل گئے۔
انقلابِ ایران!
دنیا بھر کی خبریں مہینوں اس انقلاب کی رُوداد سناتی رہیں۔ دانش گاہِ تہران (تہران یونیورسٹی) ایرانی انقلاب کا سرچشمہ تھی۔ اس انقلاب میں مدرسے، حزبِ تودہ ایران (ایرانی عوامی پارٹی) نظریاتی طور پر ایرانی کمیونسٹ پارٹی،مجاہدین خلق ایران (MKO) اسلامی سوشلزم کی علمبردار پارٹی، لبرل جمہوریت پسند اور دیگر اعتدال پسند سیاسی قوتوں اور دانشورورں کے وسیع اتحاد سے انقلابِ ایران برپا ہوا۔ اس انقلاب کا بڑا نکتہ مخالفت امریکی سامراج اور شہنشاہیت تھا۔
ریل گاڑی سست رفتاری کے بعد تہران کی بستیوں کو چھونے لگی، جوں جوں ریل گاڑی تہران کے اندر داخل ہورہی تھی، میرے دماغ میں انقلابِ ایران کی فلم سی چلنے لگی۔
اکتوبر 1977ء میں شہنشاہِ ایران کے خلاف تحریک نے جنم لے لیا۔ عوامی تحریک جوں جوں ایران کے شہروں اور قصبات میں پھیلتی گئی، توں توں یہ عوامی تحریک سول نافرمانی کی تحریک میں بدلتی گئی۔ شہنشاہِ ایران کی انتظامیہ نے اسے ہر سطح پر سختی سے کچلنے کی کوشش کی، مگر عوام کے اس وسیع اتحاد کو شاہی جبر سے شکست دینے میں ناکام رہی۔ شہروں کے درمیانے طبقات اور دیہی علاقوں میں بسنے والے ایرانیوں کا ایک طاقتور اتحاد، جس میں مذہبی لوگ، کمیونسٹ، سوشلسٹ، قوم پرست اور جمہوریت پسند ، یعنی ہرفکر کے لوگ شامل تھے۔ اگست 1978ء سے دسمبر 1978ء تک کے عرصے میں عوامی تحریک، انقلابی رنگ اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس عرصے میں شہنشاہِ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی شہنشاہیت کا تخت وتاج جھولنے لگا اور پورے ملک میں انقلاب کا پرچم لہرانے لگا۔ گلی گلی مرگ بر امریکہ، مرگ بر شاہ کے نعرے بلند تھے۔
16جنوری 1979ء کو شہنشاہِ ایران محمد رضا شاہ پہلوی اپنے ملک سے جلاوطن ہونے پر مجبور ہوا۔ یکم فروری 1979ء کو آیت اللہ روح اللہ امام خمینی اپنی چودہ سالہ جلاوطنی ختم کرکے تہران کے ہوائی اڈے پر ایئر فرانس کی ایک خصوصی پرواز نمبر 4721کے ذریعے اپنے ساتھیوں اور 120سے زائد عالمی صحافیوں کے ہمراہ واپس سرزمین ایران لوٹے۔ اس پرواز میں صحافیوں کو اس لیے شامل کیاگیا کہ خمینی کے مداحین کو خطرہ تھا کہ اُن کے جہاز کو کسی حادثے کا شکار کردیا جائے گا۔
مسکراہٹوں اور خوشی کے تاثرات سے آزاد رہبر انقلاب ِایران، امام خمینی تہران ایئرپورٹ پر اترے تو لاکھوں ایرانی نوجوان مرد وخواتین ان کے استقبال کے لیے ٹوٹ پڑے۔ مجھے وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب لاکھوں کے اس جلوس میں شامل نوجوانوں نے اپنے رہبرانقلاب کی گاڑی کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ میری زندگی میں یہ پہلا انقلاب تھا جو میں نے پڑھا، سنا اور دیکھا۔
تہران ایئرپورٹ پر اترتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ مغربی صحافی جان سمپن نے رہبر انقلابِ ایران امام خمینی سے سوال کیا، آپ چودہ سالہ جلاوطنی کے بعد ایران واپسی پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
مسکراہٹ اور خوشی سے آزاد چہرے کے سپاٹ تاثرات کے ساتھ امام خمینی کا جواب ایک لفظی تھا، ’’ہیچ۔‘‘ (کچھ نہیں)۔
امام خمینی کے اس ایک لفظی جواب پر دنیا چونک گئی۔
جس رہبر کا لاکھوں لوگ استقبال کرنے آئے ہوں۔ کروڑوں لوگ اس کو رہبرِ انقلاب تسلیم کریں اور اس کا ایک لفظی جواب۔۔۔
اس ایک جواب نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
یکم فروری 1979ء کو ایران ہی نہیں سارا خطہ ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی ایران، تیل کی دولت سے مالامال، جدیدیت کے ساتھ ساتھ تاریخی فارس کی شہنشاہیت کا وارث،امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا اور ایران میں مذہبی لوگوں کے عروج سے ایک نئی سیاست نے جنم لیا۔ جدید قوم کے نوجوان لڑکے لڑکیاں جو مشرقِ وسطیٰ میں جدیدیت کی ایک شناخت تھے، وہاں خواتین سیاہ چادر میں ملبوس ہونے لگیں۔ مسلمان دنیا میں خواتین کے حجاب کی موجودہ لہر کا آغاز اسی انقلاب کی مرہونِ منت ہے۔
تہران، مشہد، تبریز، اصفہان اور دیگر ایرانی شہروں میں انقلابی نوجوانوں کے کندھوں پر بندوقوں کے ساتھ پہلی مرتبہ سیاہ چادروں میں ملبوس ایرانی نوجوان خواتین کی بندوق بردار تصاویر نے دنیا بھر کو چونکا دیا۔
انقلابِ ایران وسیع اتحاد کے سبب ابھرا، جس میں لبرل اور ترقی پسند دانشوروں اور سیاسی لوگوں نے جرأت مندانہ جدوجہد کی۔ جمہوریت پسندوں کی طویل جدوجہد۔ بعد ازانقلاب اس اتحاد میں تیزی سے دراڑیں پڑنے لگیں۔ اس تصادم میں پہلا شکار کمیونسٹ (تودہ پارٹی) ہوئے، پھر دیگر ترقی پسند اور آخر کار قوم پرست وجمہوریت پسند جس کی قیادت بعد ازانقلاب ابوالحسن بنی صدر کررہے تھے۔ وہ انقلاب کے بعد پہلے منتخب صدر ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی میں شہنشاہِ ایران کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں انہوں نے ایک طالب علم رہبر کے طور پر حصہ لیا اور اس کی پاداش میں زندان میں جا پہنچے۔ اس دوران جلوسوں کی قیادت کرتے ہوئے وہ شاہی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بھی بنے۔ بعد میں انقلاب کے ابھار کے دنوں میں وہ عراق سے فرانس منتقل ہونے والے رہبر امام خمینی کے پاس چلے گئے اور انہی کے ہمراہ یکم فروری 1979ء کو پیرس سے واپس وطن لوٹے۔ 25جنوری 1980ء کو انقلابِ ایران کے بعد پہلے ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ صدارتی انتخاب میں اُن کو 79فیصد کے قریب ووٹ ملے۔ معتدل بنی صدر اپنے انتخاب کے ایک سال بعد انقلابِ ایران کے باہمی تصادم کا نشانہ بنے، اس لیے کہ وہ حکمرانی میں مذہبی علما کی حاکمیت کے مخالف تھے۔ ایران کے مذہبی لوگوں میں دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ جو ریاست کی حتمی حاکمیت پر چند علما کو مکمل بااختیار بنانے کے درپے تھے۔ اور ایک وہ جو اس حاکمیت جسے ایرانی شیعہ علما ولایت فقیہ قرار دیتے ہیں۔ ولایت فقیہ کے حامی امام خمینی اور دیگر علما کرام اور ولایت فقیہ کے ناقد و مخالف علماکرام جن میں محمد کاظم شریعت مداری سرفہرست ہیں۔ وہ ریاست و حکمرانی پر ولایت فقیہ کے اس ادارے کے سخت مخالف تھے جس کے تحت مذہبی لوگوں کو عوام حکومت، آئین اور ریاست پر حتمی بالادستی کا حق حاصل ہے۔ ولایت فقیہ کے تحت ایران کا سپریم رہبر قرار دیا گیا، جسے ’’رہبر معظم انقلابِ ایران‘‘ کہا جاتا ہے۔
بنی صدر طاقت کے اس حتمی رتبے ولایت فقیہ کے مخالف تھے اور یوں اُن کو جون 1981ء میں ایرانی ایئرفورس کے ایک بوئنگ طیارے کے ذریعے جلاوطن ہونا پڑا۔ پہلے یہ طیارہ ترکی کے ایک نامعلوم رن وے پر اترا اور پھر وہ پیرس روانہ ہوگئے اورتادمِ تحریر وہ وہیں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بنی صدر سے پہلے انقلاب برپا کرنے والی دیگر تمام سیاسی قوتوں کو باہمی چپقلش میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ایرانی انقلاب کے جنم کا زمانہ میری چڑھتی جوانی کا زمانہ تھا۔ اور جب میں اس انقلاب کے چار سال بعد ایران داخل ہواتو انقلابِ ایران ابھی اپنے جوبن پر تھا جس کے جوبن میں ایران عراق جنگ نے ایندھن کا کام کیا۔ عرب فارس کے تاریخی وتہذیبی تصادم میں برپا ایک اہم جنگ جس کے اثرات آج تک مشرقِ وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ریل رینگتے رینگتے تہران کے ریلوے سٹیشن پر رکی تو میرے ذہن سے انقلاب کی فلم بھی رک گئی۔ اشتیاق، جستجو اور نئے شہر میں آمد کا خوف یا رعب ایک جہاں گرد ہی جان سکتا ہے۔ دھیرے دھیرے میرے ہمسفر مجھ سے بچھڑنے لگے۔
ایستگاہ راہِ آہن تہران۔ تہران ریلوے سٹیشن۔
فارس تہذیب کے دارالحکومت کے ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو ایک عجب لطف اور احساس تھا۔ مگر ایستگاہِ راہِ آہن تہران کی عمارت سے فارس کا طرزِتعمیر کم جھلک رہاتھا۔ اس لیے کہ 1928ء میں تعمیر کیے گئے تہران ریلوے سٹیشن کا معمار ایک پولش یوکرینین ولادی سلاف ہورودک تھا۔ اسی لیے یہ فارس کے طرزِتعمیر کے ساتھ کچھ اور حُسن اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔
تہران ریلوے سٹیشن پر پہنچتے میرے دماغ کے اندر برپا تمام فکری بے قراری کی جگہ اب اس فکر نے لے لی تھی کہ اب کہاں پہنچا ہے۔ اجنبی شہر کا خوف ۔ تہران میں پہلی رات کس مسافر خانے میں گزارنی ہے۔
جہاںگردی کا جنون۔ جوانی کا عروج۔ اور وسائل ناپید۔
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ایک کامیاب سیاح وہ ہوتا ہے جو وقت ووسائل کی مینجمنٹ کرنا جانتا ہو اور اگر نہ جانتا ہو توسیاحت سیکھنے والے کو ان دومعاملوں کا سبق بھی دیتی ہے۔ وقت ووسائل کی مینجمنٹ۔
ریل گاری سے قدم نیچے رکھا۔ بیگ کو ایک ہاتھ میں اٹھایا۔ گوالمنڈی کی لنڈا مارکیٹ سے خریدا۔ ایک سو دس روپے کا ’’امپورٹڈ بیگ‘‘ خوب تھا۔ قدم دھیرے دھیرے پلیٹ فارم پر بڑھنے لگے۔ ریل گاڑی کے مسافر بکھرنے لگے۔ کئی مسافروں کے پیارے ان کو لینے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ ہر طرف زبانِ شیریں فارسی گونج رہی تھی۔ سیاہ چادروں میں چھلکتا ایرانی حُسن۔
سست قدم تیز ہونے لگے۔ اور پھر چند منٹوں میں پلیٹ فارم، مسافرین سے خالی ہونے لگا۔ اب میں اکیلا تھا ، ایستگاہِ راہِ آہن تہران کے ایک پلیٹ فارم پر۔
تہران سٹیشن سے باہر نکلا اور اپنی حاصل کردہ معلومات جو میں نے مشہد میں لاہور کے نارووالی شیخ زائرین سے لی تھیں ، ان کے مطابق اپنے ایک غریب سے مسافرخانے کا اتاپتا پوچھنے لگا۔ اس سستے اور غیرمعروف مسافر خانے کے نام سے تو یقینا کوئی کیسے آشنا ہوسکتا تھا۔ یقینا اس کے مقام وشاہراہ کا معلوم کیا۔
ایک خاتون کو مدد کے لیے روکتے ہوئے پوچھا، خانم کیا آپ مجھے اس پتے پر جانے کا راستہ بتا سکتی ہیں؟ درمیانی عمر کی پُروقار ایرانی خاتون جو لپٹی تو سیاہ چادر میں تھی، مگر اس کے اندر ایک پُراعتماد جدید عورت تھی، اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ہاں ہاں۔ اس خاتون نے مجھے مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ سرویس(Service) لے لو۔ سرویس، ایران میں ایسی پرائیویٹ کار کو کہتے ہیں کہ جو ایک شخص اپنے گھر سے کسی دوسرے مقام جا رہا ہو تو وہ راستے میں مسافر اٹھاتا اور اتارتا جاتا ہے اور لوگ اس کی بریک کے قریب ایک خانے میں طے شدہ رقم رکھتے جاتے ہیں۔
تہرانی خاتون نے نہایت شیریں انداز میں کہا، آئو میرے ساتھ۔
وہ مجھے سڑک کنارے کھڑے چند لوگوں کے ایک ہجوم میں لے گئی۔ہجوم کے قریب آنے والی کار رکتی اور ہجوم میں ہر ایک اپنے ’’جائے مقام‘‘ کا نام بہ آوازِ بلند پکارتا۔ اگر تو اس ’’سرویس‘‘ نے ادھر جانا ہوتا تو کار کا مالک بریک لگاتا اور یوں ہجوم میں سے ایک فرد کم ہو جاتا۔
ہم دونوں بھی اس ہجوم میں کھڑے ہوگئے۔ ایرانی خاتون میری بھرپور مدد کرنا چاہتی تھی، اس لیے کہ میں خارجی تھا۔ ایران میں پاکستانیوں کو پسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا ، اس لیے کہ ہم افغانی نہیں۔ افغانستان میں اُن دنوں سوویت یونین کے خلاف جاری ’’جہاد‘‘ کے سبب وہاں سے مہاجر ہونے والے افغانیوں نے جو کچھ کیا، اس کے سبب شلوار قمیص میں ملبوس افغانیوں کو ہم پاکستانیوں سے الگ کرکے دیکھا جاتا تھا۔ ایک ایرانی نے بتایا کہ اِن افغانی مہاجروں میں سے اکثر نے ایسے ایسے جرائم کیے جن کا ایران میں تصور بھی نہیں۔ ایرانی عورتوں کے بازوئوں میں موجود سونے کے زیورات لوٹنے کے لیے ان کے بازو کاٹ دینے جیسے واقعات۔ اس کے علاوہ اُن دنوں ایران میں ہزاروں پاکستانی ڈاکٹروں کے سبب ایرانیوں میں پاکستانیوں کے بارے اچھے خیالات تھے کہ پاکستانی ایک پڑھی لکھی قوم ہے۔
یکایک ایک کاررکی۔ میری رہبر ایرانی خاتون نے میرا ’’جائے مقام‘‘کا نام پکارا۔ ’’سرویس‘‘ نے بریک لگائی اور میں اگلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ وہاں پہلے سے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ فرنٹ سیٹ پر دو مسافر بٹھائے جا سکتے تھے۔ اسی لیے مجھے اگلی سیٹ پر بیٹھنا تھا۔ وہ کسی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔
سرویس میں بیٹھتے ساتھ ہی میں نے کار کے مالک کو اپنے خارجی ہونے کا راز کھولنے کے لیے اپنی بیہودہ فارسی میں مطلع کیا تاکہ میں اپنی منزل سے محروم نہ ہوجائوں۔۔ میرے ساتھ بیٹھی ایرانی طالبہ نے کہا، ’’آغا، فکر نہ کرو۔ میں آپ کو آپ کی منزل آنے پر مطلع کردوں گی۔میں اسی طرف کی مسافر ہوں۔‘‘
میں نے ہمسفر دوشیزہ سے پوچھ کر ’’سرویس‘‘ کی رقم کار میں بریک کے ساتھ پڑے چھے انچ دبیز ایرانی کارپٹ کے اوپر رکھے پیالے میں ڈال دی۔ چند منٹوں بعد گاڑی نے یکایک بریک لگائی۔ ہمسفر نے بڑی شاہراہ سے اندر داخل ہوتی ایک گلی کی طرف اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’آغا، تم نے اس گلی میں جانا ہے۔‘‘