حیران کُن بات ہے کہ اِس دورِ تحیّر میں کسی کو حیرت ہوتی ہے نہ حیرانی۔جانے کون سی وبا پھیل گئی ہے۔ جسے دیکھیے ’حیرانگی‘ میں مبتلا ہو کر بھاگا چلا جا رہا ہے۔ روکیے ٹوکیے تو ’ناراضگی‘ کا اظہا ر کرنے لگتا ہے۔ کہتا ہے میری زبان کی ’درستگی‘کو آپ کی ’محتاجگی‘ نہیں ہے۔ جائیے اپنے کام نبیڑیے اوراپنے فرض کی ’ادائیگی‘ کیجیے۔ ایسے میں ہم زیرِ لب بس یہی کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ وہی تو کر رہے ہیں۔
بعضِ لوگوں کو اصلاحِ زبان سے شدید چڑ ہے۔ اصلاحِ زبان سے کیا؟ اپنی زبان ہی سے شدید چڑ ہے۔ یہ چِڑچِڑی بیماری، غلامی کے امراضِ خبیثہ میں سے ایک خبیث بیماری ہے۔ غیروں کی غلامی قبول کر لینے والوں کو اپنی کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ آقاؤں کی ہر ادا پر فریفتہ رہتے ہیں۔ نفسیاتی قید و بند میں جکڑے غلام اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے رکھ رکھاؤ اور اپنے اصول و قواعد کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ جب کہ غیروں سے مرعوبیت کی بیڑیاں بخوشی پہن کر پورا جیل خانہ اپنے اوپر مسلط کیے رکھتے ہیں۔Etiquettesکے نام پراغیار کا سب گرد و غبار بسر وچشم ہی نہیں، منہ پر بھی مَل لیتے ہیں۔ پھراس محکومانہ’خاک ساری‘پر ایسا تکبر دکھایا جاتا ہے اوروہ اظہارِ برتری کیا جاتا ہے جو بد ترین احساسِ کمتری کی پست ترین شکل ہے۔شکل بھی ایسی مضحکہ خیز کہ دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ جائے۔
زبان میں تبدیلی، تغیر، جذب و قبول، ترک و اختیار اور فطری ارتقا الگ چیز ہے۔ زبان بگاڑنے یا اصول و قواعد کو پامال کردینے اور بد تہذیبی و بد زبانی اختیار کرلینے کو آزادی و روشن خیالی کی علامت سمجھنا بالکل برعکس بات ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانیں اپنے قواعد و انشا کی حفاظت کرتی ہیں۔ زبان کے تحفظ کے لیے ادارے قائم کیے جاتے ہیں اورزبان بگاڑنے کے عمل پر سرکاری قدغن لگادی جاتی ہے۔
بے نقص اور بے عیب زبان دنیائے ابلاغیات میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اچھی سے اچھی بات زبان و بیان کی اغلاط کے ساتھ کہیے تو مذاق بن کر رہ جاتی ہے اوربالکل بے اثر ہو جاتی ہے۔مُرصّع زبان میں مٹھاس، کشش اورحسن پایا جاتا ہے۔ قاعدے سے کہی گئی بات کوہساروں کا کیف و سُرور اورندی کے پانی کی سی روانی رکھتی ہے۔ کوثر و تسنیم سے دُھلی زبان دل پر اثر کرتی ہے۔بیان میں فصاحت و بلاغت ہو تو ہر بات قولِ زرّیں بن کرذہن پر نقش ہوجاتی ہے۔ چمکتے موتی، جہاں بھی نظر آئیں، چُن لینے کا جی چاہتا ہے۔ بقول ابن انشاؔ:
میٹھے بول اور تیکھے قول سے گہرا پیار ہمارا ہے
انشاؔ ہوں یا ابن انشاؔ، جو فرمائے پیارا ہے
آپ کے علم میں ہوگا کہ تجارتی ادارے ایک ایسا مختصر ومؤثر اشتہاری فقرہ تخلیق کروانے کو خزانے کا منہ کھول دیتے ہیں جو زباں زدِ خاص و عام ہو جائے۔ ان فقروں میں چٹپٹی زبان کے چٹخاروں کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ لوگوں کی زبان پر چڑھ جانے والے ان مختصر اقوال میں مصنوعات کی خصوصیات بھی بیان نہیں کی جاتیں۔ بس اتنا کہہ کر مِتروں کامن موہ لیا جاتا ہے کہ ”نام ہی کافی ہے“۔
پس ہمارا اتنا کلام ہی کافی ہونا چاہیے درست زبان کی اہمیت دماغ میں بٹھانے کو(بشرطے کہ دماغ بھی درست ہو) ’درست‘ سے اسمِ کیفیت ’درستی‘ بنتا ہے، ’درستگی‘ نہیں۔ جیسے مست سے مستی، پست سے پستی، ہست سے ہستی اور دست سے دستی بن جاتا ہے۔ زندگی میں خواہ آپ کتنے ہی پریشان ہو جائیں، بلکہ پریشان ہو ہو کر بالکل ہی پریشانؔ خٹک بن جائیں تب بھی رہے گی ’پریشانی‘ ہی۔ حد سے زیادہ پریشان ہو جانے کے باوجو ہم نے کبھی کسی کو ’پریشانگی‘ میں پڑتے نہیں دیکھا۔تو کیا مار آئی ہوئی ہے کہ حیران ہو ہو کر آپ ’حیرانگی‘ میں پڑ جائیں؟ تفنن برطرف، مرحوم پریشانؔ خٹک کے نام کا درست تلفظ ’پَری شان‘ تھا۔پَری جیسا یا پَری کی سی شان رکھنے والا۔ ہمارے ہم محلہ، ہمارے برادرِ بزرگ اور بیک وقت اُردو اورپشتو میں شعر کہنے والے سخی سخن ور جناب دلاور خان خٹک اپنا تخلص حیرانؔ خٹک کرتے ہیں۔ انھیں بھی ہم نے کبھی ’حیرانگی‘ میں مبتلا نہیں دیکھا۔’خٹک ناچ‘ کے لیے مشہور قبیلے پر اللہ جانے کب اور کیااُفتاد پڑی کہ جو خٹک کسی زمانے میں خوشحالؔ ہوا کرتے تھے، اب حیرانؔ رہا کرتے ہیں یا پریشانؔ۔منیرؔ نیازی بھی، کہ مزاج کے اعتبار سے اچھے خاصے ’خٹک‘ تھے، کہتے ہیں:
آج بہت دن بعد ملے ہیں گہری پیاس اور پانی
اُس کے بدلے بدلے تیور اور میری حیرانی
اسمِ کیفیت بنانے کے لیے’گی‘ کا لاحقہ اُن فارسی الفاظ کے ساتھ لگایا جاتا ہے جن کے آخرمیں ہائے مختفی (ہ) ہو۔ اسمِ کیفیت بناتے وقت لفظ کی آخری ’ہ‘ گرا دی جاتی ہے۔ مثلاً سادہ سے سادگی، آمادہ سے آمادگی،شائستہ سے شائستگی اور پسندیدہ سے پسندیدگی۔ چوں کہ حیران، ناراض، درست، محتاج اور ادا کے آخر میں ہائے مختفی نہیں، چناں چہ ان الفاظ سے اسمِ کیفیت بنانے کے لیے صرف ’ی‘ لگا دینا کافی ہے۔ مثلاً اگر انسان سے کوئی لغزشِ انسانی ہو جائے تو حیران کو حیرانی ہوتی ہے، پھر شیطان اپنی شیطانی دکھانے لگتا ہے۔ فیاض سے فیاضی ٹپکتی ہے اور ناراض سے ناراضی۔ اسی طرح محتاج سے محتاجی، ادا سے ادائی اور درست سے درستی بنانا ہی درست ہے۔
ایک محفل میں اسی موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک ثقہ ادیب خفا ہو گئے۔ کہنے لگے کہ ’خفگی‘ کا لفظ تو مستند اہلِ زبان نے استعمال کیا ہے۔ متعدد شعرا نے بھی باندھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’خفا‘ سے بنا ہے۔ وہ اتنے ’ثقہ‘ ادیب تھے کہ اُن کی خفگی کے ڈر سے اور مارے ادب کے ہم نے انھیں مختصر جواب دیا اور کان دبا کر چلے آئے۔ مگر اب اپنے کالم میں آکر شیر ہو گئے ہیں۔ سو عرض کرتے ہیں کہ اصل فارسی لفظ خَفہ ہے۔ لغوی مطلب: دم گھٹنایا آواز بیٹھ جانا۔ آگ بجھ جانے کو فارسی میں ’خفگیِ آتش‘ کہتے ہیں۔ بجھتے وقت آگ کا دم گُھٹ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اپنے بجھنے پر آگ خوش تو نہیں ہوتی ہوگی۔ اُس کا دل خفا ہی ہوتا ہوگا(’دل خفا ہونا‘ پشتو محاورہ ہے) سو،’خفہ‘ ہی سے اسمِ کیفیت ’خفگی‘ بنا ہے جو مجازاًناخوشی، ناراضی یا غضبناکی کے معنی دیتا ہے۔غضبناکی میں آگ کی طرح بھڑک اُٹھنے والوں کی آواز اکثر بیٹھ جاتی ہے۔
ایک خوش ادا نے کہا کہ حرکاتِ محبوبانہ کو بھی ’ادا‘ کہا جاتا ہے،اِس سے خوش ادائی، کج ادائی اور بے ادائی جیسی شاعرانہ تراکیب بنائی گئی ہیں، لہٰذافرض، قرض یا حساب بیباق کرنے کے لیے’ادائیگی‘ ہی کو درست مان لینا چاہیے۔ ’ادائی‘ کی سند کے طور پر میرؔکا شعر بھی سنایا:
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
عرض کیا کہ اُردو ہی میں نہیں، آپ کو دیگر زبانوں میں بھی متعدد الفاظ ایسے ملیں گے جن کا تلفظ اور املا ایک ہی ہوگا، مگر معانی مختلف ہوں گے۔ صرف محلِ استعمال سے پتا چلتا ہے کہ یہاں کون سے معنی مراد ہیں۔پھر، خاطر سے یا لحاظ سے ہم مان بھی گئے، تو ہمارے ممبئی والے ماہرِ لسانیات بھائی، دوست اور مشفق محترم جناب ندیم صدیقی ہمارا جینا دوبھر کر دیں گے کہ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔ کوئی قاعدہ ہوتاہے، کوئی اصول ہوتا ہے۔ یہ کون سا دستور ہوا کہ حاطبؔ صدیقی یا ندیمؔ صدیقی نے کہہ دیا کہ ”ادائیگی“ہی درست ہے تو سب اس کو درست ماننے پر مجبور ہو جائیں۔ نہیں صاحب نہیں:
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...