سناٹا ہے۔ آسمان سے زمین تک چھایا ہوا۔ چاروں سمت پھیلتا‘ امڈ امڈ کر آتا!
گھر میں آوازیں تو ہیں مگر سنائی نہیں دے رہیں۔ وہی کمرے ہیں‘ وہی دیوار و در مگر سب کچھ بدل گیا ہے ؎
نشاں کہیں بھی نہیں اس کی انگلیوں کے مگر
میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز روتا ہوں
اب یہ گھر کبھی بھی ویسا نہیں ہو پائے گا‘ جیسے تھا۔ ایک زمانہ لد چکا۔ ایک اور زمانہ آ پہنچا۔ اس کے کمرے میں جھانکتا ہوں۔ خالی پلنگ۔ جو الماری اس کے ملبوسات سے اٹی رہتی تھی‘ خالی ہے۔ ضبط چھوٹ جاتا ہے۔ آنکھوں میں ستارے ٹوٹتے ہیں‘ ہچکیاں لینے لگتا ہوں ع دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے۔ پالتے ہیں‘ پوستے ہیں۔ رومی نے کہا تھا ؎
طفل کنم‘ سوئے دبستاں شوند
کھیلتی ہیں‘ سکول جاتی ہیں‘ کچن کو آباد کرتی ہیں‘ یوں کہ میٹھی خوشبوئیں‘ بیکنگ کی رنگا رنگ بہاریں گھر پر چھا جاتی ہیں۔ خریداریاں کرتی ہیں‘ مائوں کے ساتھ دنیا بھر کی باتیں کرتی ہیں‘ پوشاکوں کی‘ بوطیقوں کی‘ کیا پہننا ہے‘ کیا پکانا ہے‘ پھر ایک صبح آتی ہے تو نظر نہیں آتیں۔ ایک اور گھر کو جا چکی ہوتی ہیں۔ عجیب دنیا ہے۔ جدائی کا پہاڑ جتنا وزن سینے پر اٹھائے‘ کرب سے چٹختے‘ ماں باپ روتے بھی ہیں اور خدا کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ گھر کی ہو گئی‘ ذمہ داری نمٹ گئی۔ ساتھ ساتھ گھر کو دیکھتے ہیں۔ کلیجے شق ہونے لگتے ہیں ؎
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں
فلم چلتی ہے۔ ایک ایک منظر سامنے آتا ہے‘ دم بخود دیکھتا ہوں۔ حیران‘ وقت کس طرح گزرتا ہے۔ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ چلتی ریل سے باہر دیکھتے ہیں تو منظر سے نظر نہیں ہٹتی۔ رفتار کا احساس نہیں ہوتا۔ منظر سے نظر ہٹتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ چھوٹی سی تھی۔ ساتھ سوتی تھی۔ کہانیاں سنتی تھی۔ خود بھی سناتی تھی۔ سٹوری بُکس مل کر پڑھتے تھے۔ رات کو سب سوجاتے تھے تو فریج سے آم نکال کر باپ بیٹی مینگو پارٹی مناتے تھے۔ تیسری چوتھی جماعت میں تھی تو نظمیں کہنا شروع کردیں۔ کچھ جمع ہو چکیں تو ایک دن غور سے پڑھیں۔ حیرت ہوئی کہ وزن بھی تھا‘ ترتیب بھی اور تنظیم بھی۔ ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک مصرع سے ایک لفظ نکال کر کہا‘ اسے پڑھو‘ پڑھا اور بحر اور وزن کی اصطلاحات سے ناآشنا‘ کہنے لگی‘ نہیں‘ یہ ٹھیک نہیں‘ اس میں گڑ بڑ ہے۔ پھر ایک دن کچھ نظمیں باپ نے فون پر وحید احمد کو‘ کہ نظم کا سردار ہے‘ سنائیں۔ وحید احمد نے کہا‘ بہت اچھی نظمیں ہیں مگر شاعر کم پڑھا لکھا لگتا ہے۔ رئوف امیر مرحوم کو سنائیں تو کہنے لگے شاعر دس بارہ جماعتیں پڑھا لگتا ہے۔ ڈاکٹر وحید احمد کے اصرار پر نظمیں کتاب کی صورت شائع کرائی گئیں۔ طباعت کا اہتمام چاچو سعود عثمانی نے کیا۔ ایک اور چاچو انوار فطرت نے دیباچہ لکھا۔ یوں کتاب ’’بکریوں والا بابا‘‘ چھپی۔ اور ہِٹ ہوئی۔ چاچے محبوب ظفر اور چاچے غضنفر ہاشمی نے اکادمی ادبیات میں تقریب کا اہتمام کیا۔ افتخار عارف نے رونق بخشی۔
پھر مصوری کا شوق ہوا۔ میلبورن سے لے کر لاہور اور اسلام آباد تک‘ سارے گھروں کی دیواریں اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز سے بھر گئیں۔ جو دیکھتا‘ مصور کا نام ضرور پوچھتا۔ کالج پہنچی تو تعطیلات کے دوران انٹرن شپ کے لیے ملک کے موقر ترین انگریزی روزنامہ سے منسلک ہوئی۔ چند ہفتوں میں پانچ مضامین چھپ گئے۔ روزنامہ نے ملازمت کی پیشکش کردی۔ ہنس کر کہنے لگی‘ ابھی تو پڑھائی بھی پوری نہیں ہوئی‘ یوں بھی صحافت کو کیریئر نہیں بنانا۔
باپ بیٹی کا رشتہ عجیب ہوتا ہے۔ اسے کوئی اور کیا سمجھے گا! افتخار عارف نے کہا تھا ؎
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو دیکھے تو برا مانتی ہیں
جب بھی بیمار پڑا‘ نوٹ کیا کہ اس کے ہونٹوں سے ہنسی غائب ہو جاتی۔ کالج سے‘ اور پھر یونیورسٹی سے آ کر پہلا سوال یہی ہوتا ابو کا کیا حال ہے۔ جارحانہ انداز سے پرہیز کراتی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضرور کہتی کہ ابو‘ بہت ہوچکی‘ اب یہ ڈرامہ بند کریں۔ انگوٹھے میں درد شروع ہوا۔ ڈاکٹر نے ہدایت کی تو اہتمام سے ہر روز گرم پانی ٹب میں ڈالتی۔ نمک ملاتی اور سامنے رکھ کر کہتی پائوں اس میں
رکھیں۔ پھر دوا لگاتی‘ ملتی۔ ماں کے پیروں میں بھی تکلیف تھی۔ لندن سے جوراب نما Protectorsمنگوائیں‘ پہننے کا طریقہ سمجھایا۔ گھر کے اندر پہننے والی چپل ذرا بوسیدہ ہوتی تو نئی لے آتی۔ سرما نے زور کیا تو ایک دن کہنے لگی‘ میرے ساتھ بلیو ایریا آئیں‘ کام ہے۔ ملبوسات کی دکان پر پہنچے تو پہلے سے منتخب کردہ لمبا کوٹ پہنایا‘ ابو‘ یہ ضروری ہے‘ دوسرے دن مفلر آ گیا‘ بتایا کہ کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔ کوئی بات نہیں‘ اب کر لیں۔
فاروق گیلانی مرحوم اور میں نے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد رہائش گاہیں ایک ساتھ تعمیر کروائیں‘ اس پر کبھی بات نہیں ہوئی لیکن عجیب اتفاق کہ دونوں نے بیٹیوں کے لیے مستقل خواب گاہیں مختص کیں۔ استطاعت ہو تو ماں باپ کے گھر میں شادی شدہ بیٹیوں کے اپنے کمرے ہوں۔ جب بھی آئیں کسی اور کو زحمت نہ ہو۔ تعمیر کے دوران اس کا ایک اور ٹیلنٹ سامنے آیا‘ لگتا تھا عشروں سے یہی کام کر رہی ہے۔ باتھ روموں کے اندر‘ کچن میں‘ لائونج میں‘ کون سی چیز کہاں لگانی ہے‘ رنگ کیسا ہونا ہے‘ روشنیاں کیسی ہوں گی‘ فرنٹ ایلی ویشن کس طرح کی ہوگی‘ آرکیٹیکٹ آ کر اسی سے پوچھتا تھا اور اسی کو بتاتا تھا۔
پھر فاکس ویگن (Beetle) کا شوق ہوا۔ بہت کہا کوئی اور گاڑی لو‘ مگر نہیں! اس کے بعد ہی باپ کے علم میں اضافہ ہوا کہ جسے اس گاڑی کا شوق ہو‘ کوئی اور گاڑی اسے نہیں بھاتی۔ مستری بھی مخصوص اور چلانے کا طریقہ بھی الگ۔ یوں رکھی جیسے بچے کا خیال رکھتے ہیں۔ جہاں گاڑی کھڑی ہوتی‘ کوئی بابا‘ کوئی ریٹائرڈ فوجی آ کر قیمت پوچھتا اور خریدنے کی پیشکش کر دیتا۔ اپنے سارے کام اور گھر کے بھی‘ اسی پر کرتی۔ باپ کے پاس وقت نہ ہوتا تو ماں کو ساتھ بٹھاتی‘ بھابھی کو لیتی اور ہسپتال سے لے کر کیش اینڈ کیری سے سودا لینے تک‘ سارے امور نمٹا آتی۔ جس کا بھی جنم دن ہوتا‘ بھائیوں میں سے کسی کا‘ کسی بھابھی کا‘ بھانجے یا بھتیجی کا‘ بھولنے کا سوال ہی نہ تھا۔ امپورٹڈ چیزیں‘ مہنگے داموں خرید کر لاتی اور ایسا کیک بناتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ نکاح ہوا۔ رخصتی نہ تھی اس لیے باپ کو محسوس نہ ہوا۔ اب رخصت ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ سارا میلہ تو کمبل چرائے جانے کے لیے تھا۔ تیاریاں‘ خریداریاں‘ تقاریب‘ مہمان… اور حاصل؟ ویران گھر‘ سرخ آنکھیں‘ بھنچے ہونٹ‘ زیرِ آب رخسار‘ گُھٹا ہوا سینہ اور بات بات پر‘ کسی نہ کسی بہانے‘ چھلک چھلک پڑتے آنسو!
اس کائنات میں جتنی خوش رنگ‘ جتنی شیریں اور جتنی دلکش نعمتیں ہیں‘ جیسے سخت پیاس میں ٹھنڈا پانی‘ جیسے چلچلاتی دھوپ میں خنک سایہ‘ جیسے ہوا میں اڑتے رنگین بادل‘ جیسے بارش کے بعد ایک افق سے دوسرے افق تک چھائی ہوئی‘ رنگوں کی پینگ۔ فطرت کے ناقابلِ بیان دیدہ زیب مناظر۔ جنہیں صرف دستِ قدرت ہی بنا سکتا ہے‘ اور رشتے جو خون میں شامل ہوتے ہیں‘ ان سب میں ماں کی شفقت کے بعد صرف بیٹی کا پیار ہے جس کا ثانی کوئی نہیں‘ جس کو بیان کرنے کے لیے ساری زبانوں کی ساری لغات ناکافی ہیں اور جس کا احساس صرف وہ نہیں کر سکتا جو اس نعمت سے محروم ہے۔ سفر سے واپسی پر پہلا گھر جس میں مقدس قدم پڑتے فاطمہ زہراؓ کا ہوتا۔ نکلتے وقت آخری تشریف آوری وہاں ہوتی۔ آتیں تو جہانوں کے سردارؐ کھڑے ہو جاتے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“