مدینہ منورہ میں اپنے پانچ روزہ قیام کے بعد ہم سب نے اپنا سامان سمیٹا اور ہوٹل سے باہر آگئے۔ جدہ جانے کے لئے وین والوں سے بھاؤ تاؤ شروع کیا۔ ایک وین کا ڈرائیور حلیے سے قابل اعتبار لگا ۔ کرایہ طے کرنے کے فوراً بعد میں نے پوچھا “ پاکستانی اسکول معلوم ؟”
اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا “ معلوم”
ہم سب اطمینان سے ان دنوں سعودی عرب کی مقبول سواری جی ایم سی وین میں سوار ہوئے اور شہر نبی پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے بوجھل دل سے رخصت ہوئے۔
میرے اہلِ خانہ کے علاوہ ریاض سے آئی ہوئی میری بیگم کی خالہ زاد بہن اور ان کی فیملی اور کراچی سے آئے ہوئے خالہ زاد بھائی اور ان کے اہلِ خانہ ہمارے ساتھ تھے۔
یہ ۱۹۹۲ کا رمضان تھا جب ہم کینیا سے عمرہ کرنے حجاز مقدس آئے ہوئے تھے۔ جدہ میں ہمارا قیام ایک عزیز کے گھر پر تھا۔ وہاں کے گھروں کے پتے اتنے آسان نہ تھے۔ اور کسی بتائے ہوئے پتے پر ہم جیسے اجنبیوں کا پہنچنا ناممکن سی بات تھی ۔موبائیل فون کی پیدائش میں ابھی چند برس باقی تھے۔ انہوں نے واضح ہدایت کی تھی کہ جس گاڑی میں آؤ اس کے ڈرائیور سے پوچھ لینا کہ اسے جدہ میں مشہور پاکستانی اسکول معلوم ہے؟ اسکول کے صدر دروازے کے پاس اتر کر کسی قریبی ٹیلی فون بوتھ سے کال کرنا ہم دس منٹ میں آکر تمہیں لے جائیں گے۔
گرم موسم میں گاڑی کے اے سی کی ٹھنڈی ہوا نے ہم سب کو غنودگی کے عالم میں پہنچادیا۔ کئی گھنٹوں کی مسافت نیند میں جھومتے ہوئے طے ہوئی اور جدہ قریب آنے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے۔ ایک مقام پر پہنچ کر ڈرائیور نے اپنے ٹھیٹ عربی لہجے میں کچھ پوچھنا شروع کیا بہت غور کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ پوچھ رہا ہے اب کدھر جانا ہے۔
میں نے اسے یاد دلایا “ پاکستانی اسکول” اس نے جواباً کہا “مافي معلوم” یعنی نہیں معلوم۔
ہم سب نے اسے انگلش اور اردو میں کہا کہ روانہ ہونے سے قبل تم نے کہا تھا “معلوم”
مگر اس نے مافي معلوم کی گردان شروع کردی ۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے اچانک مجھے یاد آیا کہ ان کے گھر کی طرف جاتے ہوئے ایک بڑی سی چورنگی پر ایک بہت اونچی سی سائیکل بنی ہوئی تھی جو دور دور سےنظر آتی ہے۔ مگر ڈرائیور کو کیسے بتایا جائے ؟ اسی سوچ میں میرا ذہن چھلانگ لگا کر لگ بھگ تیس برس پہلے جیکب لائنز کراچی کے سرکاری اسکول میں ساتویں جماعت کی عربی کلاس میں جا پہنچا ۔ اپنے عربی کے استاد محترم حسن امداد ، شیروانی اور چوڑے پائنچوں کے پاجامے میں ملبوس یاد آئے جنہوں نے پڑھایا تھا کہ سائیکل کو عربی میں دراجہ کہتے ہیں۔
میں نے ڈرائیور سے پوچھا “ دراجہ معلوم؟” اس نے کہا “معلوم” میں نے اشارے سے اسے اس طرف چلنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد دور سے ہی سائیکل نظر آنا شروع ہوگئی ۔ ڈرائیور کا اشاروں میں اگلا سوال تھا “ اب کدھر ؟” مجھے خیال آیا کہ اس چوراہے سے گزر کچھ دیر بعد ایک اور چورنگی پر ایک ہوائی جہاز نصب ہے۔ یہ نسبتاً آسان تھا۔ میں نے پوچھا “ طیارہ معلوم ؟” اس نے اثبات میں سر ہلایا میں نے اشارے سے اس طرف چلنے کو کہا۔ مگر سوچ رہا تھا کہ طیارے کے بعد کیا ہوگا۔
مجھے یاد آیا کہ ہمیں جہاں جانا ہے اس بڑی سڑک پر شارع اربعین کا بورڈ لگا دیکھا تھا۔ میں نے طیارے کے قریب پہنچ کر اس سے پوچھا “ شارع اربعین معلوم”۔ ڈرائیور نے مجھے عجیب سی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا “ معلوم “ اور کچھ دیر بعد گاڑی شارع اربعین پر دوڑ رہی تھی جس کے دونوں جانب ایک جیسی عمارتیں، ملتے جلتے غیرمانوس ناموں والی ایک جیسی دکانیں تھیں۔ کس گلی میں کہاں سے مڑنا ہے اس کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ وہ بار بار اشارے سے پوچھتا کہ کدھر مڑنا ہے اور میں اس سے کہتا رہا “ الي الطول”.
یکایک میں نے اسے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور سمیت سب میری شکل دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہروں سے عیاں تھا “ اب کیا؟”
میں نے گاڑی ذرا سی پیچھے کرکے ساتھ والی گلی میں مڑنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی میں سوار سب ہی لوگ بے یقینی کی کیفیت میں مجھے دیکھ رہے تھے۔
ہوا یہ کہ جس روز ہم رات تقریباً ڈھائی بجے نیروبی سے جدہ پہنچے تھے اور ہمارے میزبان جس وقت ائیر پورٹ سے ہمیں اپنے گھر لے جارہے تھے انہوں نے اپنی گلی میں جب گاڑی موڑی تھی تو کونے والی عمارت کی پوری دیوار پر لکھی عبارت گاڑی کے ہیڈ لائٹس سے روشن ہوگئی تھی۔ یہاں نہایت خوب صورتی سے صرف ایک لفظ لکھا ہوا تھا “ الخیاط”۔ اسکول میں پڑھی ہوئی عربی کی وجہ سے مجھے یاد تھا کہ الخیاط درزی کو کہا جاتا ہے۔
اسی دیوار پر لکھا ہوا وہی الخیاط مجھے پھر نظر آیا تھا اور میں نے فوراً گاڑی گلی مڑوادی جہاں شاید چوتھا مکان ہمارے میزبان کا تھا۔
ہم نے کال بیل بجائی اور ہمارے میزبان انتہائی حیرت کے عالم میں ہمیں دیکھ رہے تھے کہ ہم جنہیں ان کے گھر کے پتے کا ایک لفظ معلوم نہ تھا اور جنہیں پاکستانی اسکول پہنچنا تھا براہ راست ان کے گھر کیسے پہنچ گئے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...