(Last Updated On: )
محمد علی نے اپنے گھر میں ایک پنجرے میں کچھ چڑیاں پال رکھی تھیں۔ جن کی دیکھ بھال وہ خود کرتا تھا ‘ کبھی کبھی اُس کا چھوٹا بھائی احمد علی بھی چڑیوں کو پانی اور باجرہ ڈال دیتا تھا۔ دونوں بھائیوں کا یہ مشغلہ روز بروز پروان چڑھتا جا رہا تھا ۔ اُن کی دادی اماں اُنہیں ایسا کرتا دیکھتی تو خوش ہوتی۔ صبح سویرے اور شام ڈھلتے چڑیاں پنجرے سے آوازیں لگاتیں جیسے وہ کہہ رہی ہوں کہ اُنہیں آزاد کر دیا جائے۔ لیکن دونوں بھائی چڑیوں کی آواز پر کان نہ دھرتے۔ ایک روز دادی اماں نے دونوں کو اپنے پاس بلایا اور اُن سے پوچھا کہ کیا تم دونوں جانتے ہو کہ یہ چڑیاں یوں آوازیں کیوں نکالتی ہیں؟ تو احمد علی فوراً بولا کہ وہ ہم سے خوش ہیں اور اس لیے آوازیں نکالتی ہیں جبکہ محمد علی کچھ سوچنے کے بعد بولا کہ شاید وہ ہم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں لیکن کیا کہنا چاہتی ہیں یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ۔آخر دادی اماں نے کہا کہ یہ بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے کہ وہ کسی بات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ وہ کس بات پر شور مچاتی ہیں؟ دادی اماں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور چرند پرند کو آزاد پیدا کیا ہے لیکن ہم نے ان چڑیوں کو اپنے پاس پنجرے میں قید کیا ہوا ہے جس سے آزادی اُن کا حق ہے۔ احمد علی بولا کہ اگر ہم نے اُنہیں آزاد کر دیا تو وہ اُڑ جائیں گی اور پھر ہمارے پاس دوبارہ کبھی نہیں آئیں گی۔ دادی اماں نے کہا کہ ایسا کرنے میں چڑیوں کی بھی بھلائی ہے اور آپ دونوں کو ثواب بھی ملے گا کہ آپ نے اُنہیں آزادی عطا کی ہے جس سے وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکیں۔ دادی اماں نے بتایا کہ کیا آپ نے اپنی کتاب میں علامہ اقبال کی نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ نہیں پڑھی؟ تو دونوں
بولے جی بالکل پڑھی ہے ۔تو دادی اماں نے کہا کہ اُس کے آخری شعر میں وہ قیدی پرندہ بھی تو یہی فریاد کرتا ہے کہ :
آزاد مجکو کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دُعا لے!
محمد علی چونکہ بڑا تھا تو فوراً سمجھ گیا اور بولا کہ ہاں مجھے یاد آگیا ۔ ہمارے اُستاد صاحب نے بھی اس نظم کے بارے میں ہمیں ایک کہانی کی طرح بتایا تھا کہ پرندوں کو قید نہیں کرنا چاہیے۔ دادی اماں نے اُنہیں بتایا کہ اگر وہ چڑیوں کو آزاد کر دیں گے تو وہ اُن سے خوش ہوں گی اور اُنہیں دُعائیں دیں گی۔ احمد علی نے کہا کہ وہ چند دن ابھی ان چڑیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تاکہ خوب دل بہلا لے۔ محمد علی ایک دم بولا کہ دادی اماں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ہم ان چڑیوں کو ضرور آزاد کریں گے لیکن صرف چند بعد۔ دادی اماں نے پوچھا کہ چند دن بعد ہی کیوں؟ تو محمد علی بولا کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے کہ کچھ دنوں بعد ۱۴ اگست ہو گی جو ہماری آزادی کا دن ہے تو ہم اُسی روز ان چڑیوں کو بھی آزاد کر دیں گے ۔ احمد علی نے بھی کہا: ہاں‘ یہ ٹھیک ہے ۔ دادی اماں نے بھی ان کی اس تجویز کو مان لیا۔ اب دونوں بچے روز چڑیوں کو پہلے سے زیادہ وقت دیتے اور اُن کے کھانے پینے کے لیے بھی پہلے سے زیادہ انتظام کرتے ۔آخر کار یوں وقت گزرتا گیا اور ۱۴ اگست کا سورج طلوع ہوا۔ دونوں بچے ہاتھ میں پاکستان کے پرچم کی جھنڈیاں لیے پنجرے کے پاس پہنچ گئے دادی اماں وہاں پہلے سے موجود تھیں۔ اُنہوں نے پنجرے کا تالا کھولا اور چڑیوں کے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیا۔ دونوں بچے پنجرے سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے اور چڑیاں خوشی سے شور مچاتی ہوئیں پنجرے سے باہر نکل گئیں۔ دونوں بچے چڑیوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے جو کبھی کسی چیز پر بیٹھتیں اور کبھی ہوا میں چکر لگاتیں۔ جیسے وہ ان تینوں کا شکریہ ادا کر رہی ہوں۔ کچھ دیر تک یہ نظارہ دیکھنے کے بعد چڑیاں فضا میں چلی گئیں۔ اب وہ آزاد تھیں۔ اپنی مرضی سے آسمان میں بلند ہوتی اور جہاں چاہیے گھومتی اور پھرتیں۔ دادی اماں نے بچوں کو کہا کہ دیکھا بچوں کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے ۔ جو چڑیاں آپ کے پاس قید تھیں وہ اپنی آزادی کا مطالبہ اس لیے کر رہی تھیں کہ اُنہیں بھی باقی پرندوں کی طرح گھومنے پھڑنے اور اُڑنے کی آزادی ہو۔ آزادی ہر جاندار کا بنیادی حق ہے۔ آج ۱۴ اگست کا دن بھی ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور اپنی
آزادی کی حفاظت کریں گے۔
محمد علی نے کہا کہ دادی اماں ہمیں کچھ پاکستان کی آزادی کے بارے میں بھی بتائیں کہ یہ ملک کیوں آزاد ہوا؟ تو دادی اماں نے کہا کہ ایک ہزار سال کی داستان ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں جن کی اکثریت تھی۔ ایک ہندو اور دوسرے مسلمان۔ جب ہندوئوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے اور اُنہیں بے جا تنگ کرنا شروع کیا تو مسلمان رہنمائوں نے ہندوئوں کی ان حرکتوں سے تنگ آ کر سیاسی طور پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ آہستہ آہستہ زور پکڑ گیا اور مسلمانوں کو بھی سمجھ آ گئی کہ اب ہمارا گزارا ہندوئوں کے ساتھ ناممکن ہے۔ یہ چیز دو قومی نظریہ کی بنیاد بنی۔ احمد علی نے بتایا کہ میں نے کتاب میں پڑھا تھا کہ دوقومی نظریے سے یہ مراد ہے کہ برصغیر میں دوقومیں آباد ہیں ہندو اور مسلمان ۔دادی اماں نے کہا کہ ہاں اور اُن دونوں کے مذہب‘ ثقافت‘ تاریخ‘ ادب اور رسوم میں بھی فرق تھا تو یہ دونوں اکٹھا کیسے رہ سکتی تھیں۔ اس لیے مسلمان قوم کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور اُنہوں نے سیاسی طور پر ایک آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدو جہد کا آغاز کر دیا۔ اس ضمن میں پہلے پہل دسمبر ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور پھر علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں ایک آزاد ریاست کا خواب مسلمانوں کو دکھا دیا۔ یہ خطبہ ’’خطبہ الٰہ آباد‘‘ کہلاتا ہے جو ۱۹۳۰ء میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مارچ ۱۹۴۰ ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ’’قراردادِ لاہور‘‘ منظور ہوئی جسے بعد ازاں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہندوستان بھر کے مسلمان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے ۱۴ اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی
شب پاکستان دُنیا کے نقشہ پر ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اُبھرا۔
پاکستان کے قیام سے قبل ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی مثال اُن چڑیوں جیسے تھی جنہیں آپ نے اپنے پنجرے میں قید کیا ہوا تھا۔ جیسے چڑیاں اپنی آزادی کا مطالبہ کر رہی تھیں اسی طرح مسلمانانِ ہند نے بھی آزاد اسلامی ریاست کے لیے کوششیں کیں۔ کیونکہ ہندوستان میں اُنہیں مذہبی آزادی بالکل حاصل نہیں تھی۔ وہ جب بھی اپنی مذہبی رسوم ادا کرنا چاہتے یا اپنے مذہبی فرائض انجام دینا چاہتے تو ہندوئوں کی طرف سے اُنہیں رکاوٹوں کا سامنا تھا اس لیے مسلم رہنمائوں نے اُنہیں وہ رستہ دکھا یا جس پر عمل پیرا ہو کر وہ آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور وہ راستہ ایک آزاد اسلامی ریاست کا تھا ‘ جس کا نام ’’پاکستان‘‘ ہے۔ یہاں ہم آزاد ہیں۔ ہم اپنی مساجد میں آزادی سے آ تے جاتے ہیں ۔ ہم اپنے مذہبی ایام کو آزادی سے مناتے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے یہ ملک صرف اسی لیے بنایا تھا کہ اسلامی اُصولوں کے مطابق ہم اپنی زندگیاں یہاں آسانی کے ساتھ گزار سکیں۔ جیسا کہ آپ نے اب اُن چڑیوں کو آزاد کر دیا ہے تو آپ نے دیکھا کہ اُنہوں نے کس طرح آزادی پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔اب وہ چڑیاں آزاد ہیں اور جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں اپنی زندگی اپنی مرضی کے ساتھ گزار سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے قائم ہونے سے یہاں رہنے والے مسلمان اپنی زندگی اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ بآسانی گزار سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان سے پیار کریں اور اس کی آزادی کی حفاظت کریں۔ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بہت مشکل سے حاصل کیا ہے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی ترقی کے لیے بھرپور محنت کریں۔ آپ بچوں کو بھی چاہیے کہ آپ خوب دل لگا کر پڑھیں اور محنت کریں۔ تاکہ آپ ایک اچھے انسان بن کر اس کی نہ صرف خدمت کریں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی تربیت کریں تاکہ ہمارا پیارا وطن دُنیا میں باعز ت ممالک کی فہرست میں کھڑا ہو۔ دونوں بچوں نے دادی اماں سے وعدہ کیا کہ وہ اب کسی پرندے
کو اس طرح قید نہیں کریں گے اور محنت اور لگن سے اپنی پڑھائی مکمل کر کے پاکستان کی ترقی میں اپنی خدمات پیش کریں گے۔