اگر آپ ہندوستان کے قدیم شہروں کے بارے میں جانتے ہیں تو ان چار اشاروں کی مدد سے باآسانی پہچان سکتے ہیں کہ یہ کس شہر کا ذکر ہے۔ پہلے تین اشاروں سے تو تو شاید دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد یا بھوپال بھی یاد آئیں لیکن آخری اشارہ صرف اور صرف ایک شہر کی جانب اشارہ کرتا ہے اور وہ ہے بداؤں، جسے ہم اور آپ بدایوں کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ شہر البتہ کبھی اجنبی نہیں رہا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اپنے شہر کراچی میں بچپن سے تھانوی، امروہوی، بھوپالی، ملیح آبادی، لکھنوی اور بدایونی وغیرہ یوں سنتا آرہا تھا جیسے کہ یہ بھی انسانی نام ہوں۔ مولانا احتشام الحق تھانوی،مولانا اشرف علی تھانوی، شوکت تھانوی، رئیس امروہوی، محسن بھوپالی، جوش ملیح آبادی، بہزاد لکھنوی، محشر بدایونی اور اس قسم کے دوسرے نام بچپن سے سنتے آئے تھے۔ جب کبھی کراچی کے جیّد علماء کا ذکر ہوتا تو مولانا عبدالحامد بدایونی کا نام بھی نمایاں ہوتا۔
لیکن بدایوں سے پہلا باضابطہ تعارف چھٹی جماعت سے ہوا۔ مجھے ملت اسکول میں داخلہ دینے والے اور میری تاریخ پیدائش یکم جنوری لکھنے والے اور اگلے تین سال ہمارے کلاس ٹیچر اور میرے سب سے محبوب اور قابل عزت استاد ایثار عبداللہ صاحب، خدا ان کی لحد کو نور سے بھردے، جو ہمیں پڑھاتے کم اور ہم سے باتیں زیادہ کرتے تھے ، وہ باتیں جن سے ہم نے نصاب سے زیادہ علم حاصل کیا۔ ایثار صاحب شاعری بھی کرتے تھے اور مہر فوقی بدایونی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اکثر ہمیں بدایوں کی باتیں بتاتے جن کا کبھی اتنا خاص نوٹس نہیں لیا کہ ان دنوں ہر کوئی “ہمارے دہلی میں”، “ ہمارے مراد آباد میں”، “ہمارے حیدرآباد “ میں کہہ کر ہی بات کیا کرتا تھا کہ ملک کو آزاد ہوئے پندرہ سولہ سال ہی ہوئے تھے اور ان سب کی یادوں میں اب تک اپنے گھر آنگنوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
اور اس کے بہت سالوں بعد یعنی تقریباً تیس سال بعد جب شارجہ میں رہائش اختیار کی تو گھر سے مسجد آتے جاتے “ ولی محمد ” بھائی سے ملاقاتیں ہونے لگیں اور پہلی بار کسی بدایونی سے دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ ولی بھائی کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس سننے جایا کرتا ، یہ درس ہم کسی گھر میں جمع ہو کر ویڈیو کیسیٹ یعنی وی سی آر پر سنتے۔ درس کے بعد چائے پانی ہوتا اور گپ شپ ہوتی، اور یہاں ایک صاحب جو درس کے دوران اونگھتے رہتے لیکن جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کوئی شعر سناتے تو چونک کر “ واہ” کہتے۔ اور درس کے بعد جب دوسرے حاضرین درس پر تبادلہ خیالات کرتے، وہ صاحب اس شعر یا اشعار پر گفتگو کرتے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ ولی بھائی بدایوں کے ہیں تو بس پھر کیا تھا۔ ہر ملاقات میں بدایوں کا ذکر ضرور آتا اور شاید پہلی بار مجھے کچھ تھوڑا بہت تجسس بدایوں کے بارے میں ہوا۔
لیکن یہ کوئی ایسا خاص تجسس نہیں تھا۔ بس جس طرح اپنے ہندوستانی احباب جو بھوپال، حیدرآباد، علیگڑھ، بمبئی ، بنگلور، دہلی وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے ، ان سے کبھی کبھار ان کے اور اپنے شہروں کے بارے میں بات ہوتی۔ ایسے ہی کبھی بدایوں کا بھی ذکر نکل آتا۔
یہ آج سے کوئی چار سال پہلے کی بات ہے۔ دوبئی کے ایک ہال میں شکیل بدایونی کا سوواں یوم پیدائش منایا جارہا تھا۔ اس میں شکیل کے بیٹے اور موسیقار اعظم نوشاد کے بیٹے شریک تھے اور شکیل بدایونی کی فلمی شاعری اور خصوصا ان گیتوں کی بات ہورہی تھی جن کی دھن نوشاد نے ترتیب دی، شکیل، نوشاد، رفیع اور لتا کی ٹیم نے شایدہندوستانی فلمی صنعت کے لیے سب سے زیادہ خوبصورت ترین گیت تشکیل دئیے ہیں۔ ایک زمانے سے جہاں حسرت جے پوری، ساحر لدھیانوی، شیلندر، گلزار وغیرہ کے گیت سن رہے تھے وہیں شکیل بدایونی کا نام بھی سنتے تھے۔ لیکن اس پروگرام کے بعد شکیل بہت اچھے لگنے لگے اور یہ انسیت اس وقت بہت بڑھ گئی جب یوٹیوب پر ایک مشاعرے میں اچکن میں ملبوس شکیل بدایونی کو کچھ شرمائے، کچھ شرارتی سے لہجے میں غزل گنگناتے سنا
وہ ہوا دے رہے ہیں دامن کی
ہائے کس وقت نیند آئی ہے
اب اس زمانے کی تہذیب، ماحول ، کرداروں اور علاقوں کے بارے میں کچھ کرید سی ہوگئی اور یہی جستجو تھی کہ میں نے بھوپال، حیدرآباد، بہار، لکھنؤ، دہلی، بمبئی، لاہور، کلکتہ، آگرہ اور الہ آباد جیسے شہروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور اپنے تاثرات اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائے۔
بدایوں سے پہلا تعارف تو شاعروں کے ذریعے ہوا ۔ میرے استاد مہر فوقی بدایونی اور محشر بدایونی پہلے بدایونی شاعر تھے جنہیں میں نے جانا۔ میرے پاس محشر بدایونی کے آٹوگراف بھی کہیں محفوظ ہیں۔ پھرشاعرات میں ایک بہت معتبر اور خوبصورت شاعرہ ادا جعفری کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بھی بدایوں کی ہی ہیں۔ شبنم رومانی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ لیکن جس شاعر نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی وہ اپنے دلاور فِگار تھے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بدایوں جیسے شہر میں ہوتے ہوئے دلاور فِگار صاحب نے اتنی شگفتہ اور مزاحیہ شاعری اور شکیل بدایونی نے اتنی خوبصورت رومانی شاعری کیسے کی کہ غبار آلود سڑکوں، اونگھتی ، خوابیدہ گلیوں، حسرت ویاس اور کہنگی اور کہولت کی تصویر بنے درودیوار والے اس شہر میں صرف فانی بدایونی جیسی یاسیت بھری شاعری ہی ممکن ہے۔
گنگا کنارے آباد یہ شہر جو چار سال سلطنت دہلی کا دارلسلطنت بھی رہا اور جہاں قطب الدین ایبک، التمش، علاؤالدین خلجی اور رضیہ سلطانہ جیسے حاکم رہے۔ جو کبھی دہلی کے بعد مسلم سلاطین کا اہم ترین شہر تھا۔ جو اہیروں اور روہیلوں کا مرکز تھا۔ آج اس شہر کا کوئی حال نہیں ہے۔
مجھے تو بدایوں کے پرانے، خستہ حال مکانوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور اور اجاڑ سی گلیاں دیکھ کر اپنا بچپن کا بہار کالونی یاد آگیا، ویسے ہی پرانے مکانوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتی نالیاں، اکثر مکانوں کی دہلیز ، سڑک سے ذرا اونچی اور دکانوں کے ساتھ بنے ہوئے تھڑے۔ اگر کبھی مجھے پرانے بہار کالونی پر فلم بنانی ہوئی تو بدایوں کی گلیاں وہی منظر پیش کرتی ہیں ( اس کا مطلب یہ نہیں کہ بہار کالونی اب کوئی بہت خوبصورت جگہ بن گئی ہے۔ اب تو وہ پہلے سے بھی گئی گذری ہوگئی ہے )۔ عظیم الشان ماضی والے اس شہر کی مثال لاہور، حیدرآباد، بھوپال، اور لکھنؤ جیسے شہروں کی ان قدیم حویلیوں کی سی ہے جن کی ڈیوڑھیوں پر کبھی ہاتھی جھولا کرتے تھے۔
یہ شہر جو صوفیوں، اولیاؤں کا مولد و مسکن رہا۔ ہیں۔ بدایوں کو سلطان المشائخ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کی جائے پیدائش ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ خواجہ حسن شیخ شاہی، خواجہ بدرالدین ابو بکر،شیخ شہاب الدین کاتعلق بھی بدایوں سے ہے۔ اسی بنا پر امیر خسرو نے بدایوں کی خاک کو آنکھوں میں سرمہ لگانے پر ترجیح دی ہے۔ دیگر مشہور شخصیات میں، عبد القادر بدایونی ( عہد اکبری کے نامور مورخ۔ مصنف منتخب التواریخ ،) مولانا عبد الحامد بدایونی ( عالم دین)، مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی بھی یہیں پیدا ہوئیں، التمش کی نامور بیٹی رضیہ سلطانہ نے بھی یہیں جنم لیا۔
اور آج بھی علاؤالدین عالم کا مقبرہ، سید احمد بخاری کی خانقاہ، اخلاص کا مقبرہ اس شہر کی تاریخ بیان کرتے ہیں جن کے درمیان بندر گھومتے پھرتے ہیں۔ یہاں مندر اور کلیسا بھی ہیں لیکن شہر کی اصل شان مسلم دور کی نشانیاں جامع مسجد شمسی، قطبی مسجد اور بدایوں کا قلعہ ہیں،
اسی بدایوں میں تاج محل میں خوابیدہ ممتاز محل کی بہن “ پرور خانم “ کا مرقد بھی حزن و ملال کی تصویر ہے۔ اسے شائد کالا تاج محل بھی کہتے ہیں جو اس کے شوہر نواب فرید نے بنوایا جو شہنشاہ جہانگیر کے منہ بولے بھائی قطب الدین کوکا، کا بیٹا تھا۔ جہاں تاج محل ہندوستان کی شان بنا دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے وہیں پرور خانم کا مزار کھنڈر کی صورت معدوم ہوتا جارہا ہے۔ بقول فانی بدایونی
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
مجھے تو یہ نیم خوابیدہ بدایوں ، پرور خانم کے مرقد کی تصویر ہی نظر آتا ہے۔ گو اتر پردیش میں سب سے زیادہ گندم یہی ضلع پیدا کرتا ہے اور بھارت کی چالیس فی صد مینتھال یہاں تیار کی جاتی ہے لیکن شہر پر ایک عجیب سی اداسی بال کھولے نظر آتی ہے۔ شکیل بدایونی نے بھی شاید اسی شہر کے لیے ہی کہا تھا
جلوے کہاں جو ذوق تماشا نہیں شکیلؔ
نظریں چلی گئیں تو نظارے چلے گے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...