(Last Updated On: )
تحریر : آگستو رؤابستوس (پیراگوئے)
مترجم : محمود احمد قاضی (گوجرانوالہ)
وہ لُٹے پٹے تھے اور یوں اندھیرے کے سپرد کردیے گئے تھے کہ اُن کا کوئی چہرہ ہی نہ تھا۔ وہ جو کسی غیر واضح انسانی تصویری خاکے سے کچھ زیادہ نہیں لگ رہے تھے، ان دونوں کے جسم خود اُن کے اپنے سایوں میں ہی مدغم ہورہے تھے۔ ان میں ایک نہایت معصومانہ مفعولیت یا بالکل مطلق لاتعلقی کے ساتھ زمین کی سطح کے ساتھ ساتھ سست روی سے رینگ رہا تھا۔ دوسرا جھکا ہوا اور بھاری سانسیں لیتا ہوا، اپنے آپ کو جھاڑیوں اور کوڑا کرکٹ کے درمیان سے باہر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ بعض مواقع پر وہ اپنی سانس بحال کرنے کے لیے رک بھی جاتا تھا۔ تب وہ اپنی کمر کو جھکائے ہوئے، اپنے اوپر لدے بوجھ کو پھر سے مزید ک کھینچنا شروع کردیتا۔ ندی کے گندے پانی کی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر یہاں کے اُجاڑ پن کی پھپھوندی کے بھبھکوں کی بدبو اور جانوروں کے لئی جیسے فضلے کی بدبو جو کہ گندے موسم کی بنا پر برآمد ہورہی تھی ،کو وہ شخص گاہے گاہے اپنے ہاتھوں کی حرکت سے اپنے چہرے سے پرے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا۔ اردگرد پھیلے خس و خاشاک سے ٹکراتی دھات اور شیشے کی چاندنی جیسی چمک کے درمیان موجود ہوتے ہوئے، ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی یقیناً وہاں کے بھوتوں جیسے یکساں ارتعاش والے چھوٹے سے گیت کو نہیں سن رہا تھا۔ اور نہ ہی شہر کی اُس خاموش کردی گئی آواز کو، جو کہ زمین کے نیچے تھرتھراتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ نہ ہی وہ جو کہ اپنے آپ کو آگے کی طرف گھسیٹ رہا تھا، وہ شاید صرف زمین کے ساتھ سرکتے ہوئے اس جسم کی مدہم اور نرم آواز، کاغذ کے ٹکڑوں کی چرچراہٹ یا اپنے جوتوں سے ٹکرانے والے کاٹھ کباڑ اور ٹین کے خالی ڈبوں کی آواز سن سکتا تھا۔ بعض اوقات اس دوسرے کا کندھا چٹان پر یا سخت ٹہنیوں میں الجھ جاتا تھا۔ وہ کسی قدر غصے بھرے احتجاج کے تحت بڑبڑاتے ہوئے اپنے اوپر لدے بوجھ کو جھٹکا دے کر ڈھیلا کرتا ہے یا اُسے محسوس کرتے ہوئے منہ سے ان جہازی قلیوں جیسی آواز نکالتا ہے، جیسی کہ وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے سرکش بوجھ کے تحت کرتے ہیں۔ یہ ظاہری بات تھی کہ اس کا بوجھ بھاری تر ہوتا جارہا تھا۔ اس انفعالی مزاحمت کی بنا پر بھی کہ جو وقتاً فوقتاً رکاوٹوں کے لمحات میں اس کو رکنے پر مجبور کررہی ہوتی ہے اور شاید اس پیچھے کی طرف دھکیلے جانے یا عجلت کی وجہ بھی، کہ جس کی بنا پر اس کی طاقت آہستہ آہستہ ختم ہوکر جتنی جلدی ممکن ہو، اسے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طرف لے جانے والی تھی۔
پہلے پہل یعنی آغاز میں اس نے اسے بازوؤں سے کھینچا تھا۔ اگر یہ رات اتنی ابرآلود نہ ہوتی تو کوئی بھی آپس میں جڑے ہوئے ان دو ہاتھوں کو اُلٹے انداز کی مدد کی منفیت کی شکل میں دیکھ سکتا تھا۔ جب وہ جسم پھر کسی چیز میں الجھ گیا تو اس نے اپنی کمر اس کی طرف موڑتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں پکڑ لیں اور ان کی نیچی جگہوں میں گر گر کر بوجھ کو کھینچنا شروع کیا۔ دوسرے آدمی کا سرشادمانی سے اِدھر اُدھر ہو رہا تھا جیسے کہ اسے یہ تبدیلی پسند آئی تھی۔ جب وہ ناہموار زمین، خس و خاشاک اور کوڑے کے ڈھیروں تک پہنچا تو ایک کار کی قوس بنائی ہوئی روشنی کی چکا چوند ہر طرف پھیل گئی۔ کھینچنے والا شخص اس دوسرے کے پہلو میں لیٹ گیا۔ ایک لمحے کے لیے لگا جیسے ایک مدھم سے انداز میں کھینچے گئے اسکیچ کی طرح چہرہ انھیں مل گیا ہو۔ ایک نیلا ڈرا ہوا اور دوسرا گرد سے ڈھکا ہوا، دیکھنے میں دونوں ہی کسی قسم کے احساس سے عاری تھے۔ اندھیرے نے اُن دونوں کو دوبارہ نگل لیا۔
وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے تھوڑا سا آگے کی طرف گھسیٹنا شروع کیا لیکن اس وقت تک وہ ایسے مقام تک پہنچ گئے تھے، جہاں کہ جھاڑیاں کچھ زیادہ اونچی تھیں۔ اس نے اسے جہاں تک کہ وہ کرسکتا تھا کوڑے کرکٹ، خشک ٹہنیوں اور خس و خاشاک کا لباس پہنا دیا۔ لیکن ایسا لگتا تھا جیسے وہ اسے اجاڑ جگہ کی بدبو یا جلد ہی برسنے والی بارش سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو۔ وہ رک گیا اس نے اپنا بازو اس کے گیلے ماتھے سے صاف کیا، وہ کھنکارا اور اس نے غصے سے ایک طرف تھوک دیا۔ عین اس لمحے ایک نوزائیدہ بچے کے چلانے کی آواز نے اُسے چونکا دیا۔ کمزور اور دبی ہوئی یہ آواز اس جھاڑ جھنکار سے یوں برآمد ہوئی جیسے کہ اُس “دوسرے” نے کوڑے کرکٹ میں سے ایک نئے پیدا ہونے والے بچے کی طرح رو کر شکایت کرنا شروع کیا ہو۔
وہ وہاں سے بھاگنے ہی والا تھا کہ وہ آسمانی بجلی کی چمک سے مبہوت ہوکر رک گیا۔بجلی کی اس چمک نے لوہے کے اُس عظیم الجثہ پُل کو اندھیرے سے اچک کر اس کے بہت نزدیک لاکر رکھ دیا تھا۔ اسے لگا جیسے اس نے بہت ہی تھوڑا فاصلہ طے کیا تھا۔ اس نے اپنا سر شکست کے انداز میں جھکا دیا۔ وہ گھٹنوں کے بل جھک گیا اور اردگرد سونگھتے ہوئے وہ اس مسلسل مگر دبی ہوئی کمزور آواز کی طرف بڑھا۔
ڈھیری کے نزدیک ایک سفید جسامت موجود تھی۔ وہ شخص وہاں کافی دیر رکا رہا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ وہاں سے جانے کے لیے اٹھا۔ اس نے چند ایک غیر متوازن سے قدم اُٹھائے لیکن زیادہ دور نہ جاسکا۔ بچے کے چلانے کی آواز، اس کو پیچھے کی طرف کھینچ رہی تھی۔ اس نے بھاری سانسوں کے ساتھ راستے کو طے کرتے ہوئے تھوڑا تھوڑا کرکے پیچھےآنا شروع کیا۔ وہ اب بھی جھجکتے ہوئے ایک بار پھر جھکا۔ تب اُس نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ بنڈل کا غلاف چرمرایا۔ وہاں اخباری کاغذوں میں لپٹا ایک ننھا سا انسانی وجود مچل رہا تھا۔ اس آدمی نے اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ آدمی کی حرکت جبلی طور پر غیر واضح اور مبہم سی تھی۔ کسی ایسے شخص کی حرکت جسے معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے لیکن وہ ایسا کرنے سے خود کو روک نہ پارہا ہو۔ وہ آہستہ آہستہ سے سیدھا ہوا جیسے کہ وہ بہت ہی غیر متوقع قسم کے نازک احساسات میں جکڑ لیا گیا ہو، جن سے چھٹکارا پانا، اب اس کے لیے مشکل ہوگیا ہو۔ اس نے اپنی جیکٹ اُتاری اُس نے اسے اُس کانپتی ہوئی گیلی سی مخلوق کا لباس بنا دیا۔
رفتار پکڑتے ہوئے اور تقریباً دوڑتے ہوئے اس نے اس روتے ہوئے بچے کے ساتھ اس کچرے کو پار کیا اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
English Title:The Vacant Lot
Written by:
Augusto Roa Bastos (June 13, 1917 – April 26, 2005) was a Paraguayan novelist and short story writer.