ہمارے نانکے پنڈ (ننھیال) کو چھو کر گزرتی یہ شاہکوٹ مائنر ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ددھیال آئے کراچی کے شہری جب کچھ دنوں کے لیے ’وانڈے‘ آتے تو ماں کے گاؤں کی گلیوں کے ساتھ ’اٹی والی نہر‘کو دیکھنے کا الگ ہی چاؤ ہوتا
گاؤں کے شمال مشرق میں برلبِ نہر قبرستان ہے جہاں سیاچن کے محاذ کا ایک شہید سپاہی سو رہا ہے
غالباً چھٹی یا ساتویں جماعت کے دن تھے جب ہم بچے پہلی بار اس قبر پر دعا کرنے آئے۔ بہت سے مہینے اور بہت سی بارشیں گزر گئی تھیں۔ جو پھولوں کی چادریں تدفین والے دن چڑھائی گئی تھیں ان کے زنگ آلود لوہے کی چرخیوں کے ڈھانچے ہی بچے تھے، مگر ہم بچوں کے معصوم دل کو قرار تھا کہ شہید کی لحد اندر سے گل و گلزار ہو گی
یہ سیاچن کے کٹھور محاذ سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔ ہمارا سپاہی پچھلے سال برف کے تودے کے نیچے آ کر شہید ہوا تھا اور اس کی صرف خبر ہی گھر والوں تک پہنچی تھی کہ جسدِ خاکی باوجود کوشش کے نکالا نہیں جا سکا تھا۔ پسماندگان ایک غمگین آس کی خلش لیے دل پر صبر کا پتھر رکھ کر بیٹھ رہے تھے
بعد کے موسموں میں جب برفیں پگھلیں تو بہتے پانیوں کے تلے ہمارے گمشدہ سپاہی کا سراغ بھی ملا اور یوں قریباً شہادت کے ایک سال بعد اٹی میں فوج آئی اور ایک جسدِ خاکی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شاہکوٹ مائنر کی قربت میں زمین کے حوالے کر گئی
بہت بعد کے سالوں میں ہمالیہ کی برفاب چوٹیوں پرایک دوپوسٹنگز کاٹ کرہمیں بھی سمجھ آگئی کہ اس محاذپراصل دشمن توموسم اور دشوارگزار راستےہیں۔ برفانی تودوں یاپھر گہری کھائیوں کےنشیب میں بہتےتیز پانیوں کی نذر ہونےوالوں کےجسدِخاکی نہیں ملاکرتےاور ان کے پسماندگان تک صرف خبر ہی پہنچ پاتی ہے
لیکن صاحبو یہی سیاچن تھاجب برفانی تودوں اور گہری کھائیوں سے ہار نہ ماننے والے جب کارگل کے محاذ پر دشمن کی سپاہ کی گولیوں کا ہار چھاتی میں پرو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے تو ان کے جسدِ خاکی بھی پسماندگان تک نہ پہنچے۔ ہمارے شہیدوں کو سرحد پارکے پہاڑوں میں جگہ ملی اور ان کے چاہنے والوں کے غم جب کہیں دفن نہ ہوئے تو ان کی جگہ ایک انجانی آس ایک دائمی خلش نے لے لی۔
اس جنگ کے شہیدوں کے دو سرداروں میں سے ایک کیپٹن کرنل شیر خان نے مشکوہ نالے سے ٹائیگر ہل کی بلندیوں تک جوانمردی کی نئی داستان رقم کی اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
مخالف سپاہ کے کمانڈر کی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایک دلیری سے لڑکر شہید ہوئے اس افسر کو اجنبی زمین میں ایک گمنام قبر کے حوالے کردے۔ کیپٹن کرنل شیر کے جسدِ خاکی کو ایک احترام اور بہادری کے اعزاز کی سفارش کے ساتھ سرینگر روانہ کردیا گیا
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہےکہ صوابی کےایک مزار میں دفن اپنےجس سپوت کوحکومتِ پاکستان نے بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر سے سرفراز کیا اس کی میت ہندوستان میں شہادت کے لگ بھگ دوہفتے بعد سترہ جولائی تک اس آس میں رکھی رہی کہ اس کی سوہنی دھرتی اسے اپنانے کوتیار ہوجائے
@abbasnasir59
صوابی سے تھوڑا آگے نواں کلے کے ایک مزار میں ہمارا شہید ابدی نیند سورہا ہے۔ وہ نام اور فطرت دونوں کا شیر تھا کہ جب وہ بےجگری سے لڑا تو کیا دوست کیا دشمن سب عش عش کراٹھے۔
یوسفزئیوں کی آن اور شان کیپٹن کرنل شیر شہید، نشانِ حیدر
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...