35 برس سے متحارب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادتیں آپس میں چاھے رشتے داری بھی کر لیں, مگر انکے کارکنان کا بُغضِ و کینہ کبھی کم نہیں ہوتا۔ قیادتوں کے نقطہ ہائے نظر تو سب کو معلوم, مگر کارکنان کی گلی محلوں میں جو دیرینہ مخاصمتیں ہیں وہ روپ بدل بدل کر سامنے آتی ہیں اور ماحول کو کسی صورت بھی متحدہ جدوجہد حتکہ مشترکہ بیانیئے پر بھی آمادہ نہیں ہونے دیتیں اور یہی تفریق پاکستان کی موجودہ سیاسی ابتری اور بدماشیہ کے کھُل کھیلنے میں حکومت کی سب سے بڑی معاون بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ تحرک, قربانیوں اور جہدِ مسلسل سے عبارت ہے جبکہ ن لیگ آمریت کے پروں تلے پروان چڑھے اتحادِ منفعت کا نام ہے۔ ن لیگی قیادت سمیت کارکنان کے دلوں میں ایک بات راسخ ہو چکی ہے کہ “اگر ایسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں”۔ 1999 کے مارشل لاء اور بالخصوص پچھلے نواز دور کی خاکی ریشہ دوانیاں بھی بدماشیہ بارے لیگی نظریات میں کچھ خاص فرق پیدا کرنے سے قاصر رہی ہیں اور آج بھی انکی خاموشی یا درپردہ مفاہمت یہ ثابت کرنے کیلئے ہے کہ وہ خاکی مفادات کیلئے موزوں ترین ہیں۔ ہمارے کچھ دوست میاں صاحب کو بھلے “ڈٹ گیا” کہتے رہیں لیکن اس حقیقت کے راوی بھی وہ خود ہیں کہ باجوہ صاحب کو ووٹ نہ دینے پر جب کارکنان کا پریشر بنا تو بڑے میاں صاحب اپنے خمیر کیخلاف آواز نہیں اٹھا سکے اور اِنکی اپنی منجی ٹھوکنے والے کو ووٹ دینے میں ساری اپوزیشن پر سبقت لے گئے۔
@MaryamNSharif جو اپنے حُسنِ اخلاق اور عوامی طرزِ عمل کیوجہ سے لاکھوں لیگی کارکنان کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھی, اسکے پاس بھی باو جی منجن کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ دوسری جانب بھٹو کی مزاحمتی سیاست بھی پچھلے 13 برس سے آصف زرداری کی مفاہمتی چادر اوڑھے لمبی تان کر سو رہی ہے۔ خانگی و بیرونی مدعوں پر واضع موقف تو آ جاتا ہے مگر پارٹی کی اصل اساس تحرک, قربانی اور جہدِ مسلسل بیانات کی حد تک محدود ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ جماعت جس نے چالیس برس خوابوں سیاست کی, آج وہ عقل کے تابع نظر آرہی ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکیم @AAliZardari کے تدبر نے پچھلے 13 برس میں بھٹو خاندان کی قبروں میں اضافہ نہیں ہونے دیا مگر بھٹو صاحب اور اُنکی آل اولاد نے جس عوام کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے, وہ عوام آج لاوارث ہے۔ بھٹو نے عام آدمی کو استبداد کے شکنجے سے آزاد کرانے کا جو بیڑا اٹھایا تھا اور جسکے لیئے اسکے بیٹے اور بیٹی قتل ہوئے وہ ارادہ بیانات کی حد تک محدود ہوتا جاتا ہے۔
ایسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی فکر اور عام آدمی کو دی ہوئی جرآت کو ختم کرنے میں 41 برس کڑی محنت کی۔ اس نے مذہنی, لسانی اور علاقائی تفریقات کو تعصبات میں بدل کر آزاد سیاسی سوچ کو زیر تو کر لیا مگر اُس حق گوئی کو نہیں دبا پائی جسکا بیج ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا۔ آج پیپلز پارٹی بظاہر اسٹیٹس کو کی سیاست کرتی نظر آتی ہے مگر بھٹو کے لہو کے چھینٹے جو اس ملک کے چپے چپے پر پڑے تھے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔
کہتے ہیں ضیاء الحق نے قبائلی علاقوں میں جہادت کا بیج 35 ہزار روپے فی قتل کے نام پر بویا تھا۔ 15 لاکھ پشتونوں کے خون سے رنگی اس سرزمین سے اگر عقل و شعور کے سُوتے پھوٹ رہے ہیں اور اگر آج نوجوان پشتونوں نے آلہ کار بننے سے انکار کرتے ہوئے آئینی حقوق کیلئے آواز بلند کی ہے تو اسمیں بھی بھٹو کا حصہ ہے کیونکہ جب تک یہ ملک باقی ہے انکار کی رسم بھٹو سے منصوب رہے گی۔
باچا خان عظیم سہی مگر انکا عدم تشدد رائیگانی کیجانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ الطاف حسین کی زندگی کی کُل کمائی ایم کیو ایم کو اس سے چھین لیا گیا ہے, اکبر علی بگٹی کے نام لیواوں میں ایک بھی انکی قامت پر پورا نہیں اترا جبکہ حاصل بزنجو اپنے تعمیری خوابوں سمیت عالمِ برزخ میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ نیز وطن کی رگوں میں گڑے استبدادی پنجوں کیخلاف ایک بھی آواز ایسی نہیں جو بدماشیہ یا اسکے قبضے کو کھدیڑ سکے۔ ایسے میں متحدہ جدوجہد کی آپشن بچتی ہے مگر تمام فریقین ایک دوسرے پر بے اعتمادی کا شکار ہیں۔ چھوٹی جماعتوں کے پاس ایک ہی بہانہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے تفرقات متحدہ قومی محاذ کے آڑے آتے ہیں جبکہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کی امامت تیاگنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک بھی جماعت ایسی نہیں جو عوامی مصائب پر حتمی لڑائی کیلئے آمادہ ہو, صرف وقت گزارے کی سیاست ہو رہی ہے۔ رہبر کمیٹی نامی ڈھکوسلہ کھڑا تو کیا گیا مگر اسکی باگ ڈور مولانا @MoulanaOfficial کے سر ڈال کر دونوں بڑی جماعتیں پتلی گلی سے نکل گئیں تا کہ آنے والے سمے میں اپنی بے دلی کو کیش کرا سکیں۔ ہم خود کو جتنی بھی تسلیاں دے لیں, حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے 24 کروڑ عوام اور انکی لیڈرشپ کو یقین ہو چکا ہے کہ قادرِ مُطلق اللہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے جسکے ساتھ گلے شکوے تو ہو سکتے ہیں, اسکے جبر کیخلاف جدوجہد جیسی گستاخی نہیں ہو سکتی۔ فکری بدیانتی عملاٌ اسقدر بڑھی ہوئی ہے کہ سب کو اپنے بچے عزیز ہیں, باقی جائیں بھاڑ میں۔ پیپلز پارٹی نے کرونا کے دوران مینڈیٹ مطابق سندھیوں کی بہترین خدمت کی مگر کیا بلاول کی ماں نے اپنے ہیرے جیسے بچے صرف سندھیوں کیلئے تیاگے تھے؟ کیا پنجاب, سرحد, بلوچستان, کشمیر اور فاٹا کے لوگ اپنے لیئے کوئی اور بھٹو ڈھونڈ لیں؟ کیوں یہ بے حسی کسی کو کھلتی نہی؟ کیا جرم کر دیا ہے اس قوم نے کہ اسکے رہنماوں سے رہبری چھِن گئی ہے؟ روز مرہ معاملات پر بیان دے دینا اگر لیڈر شپ ہے تو کیا “کاکا ریکارڈ” اس ملک کا سب سے بڑا لیڈر ہے اور اگر ظالم و جابر کو للکارنے والا رہبر ہوتا ہے تو کیا لوگ وقاص گورائے @AWGoraya کے ہاتھوں پر بیعت کر لیں؟ نہیں؟ تو پھر اس مقبوضہ ریاست میں ہوش دلائی کی رسمِ ممنوعہ کب ہو گی؟
اگر مایوسی گناہ ہے تو پھر کیا مان لیا جائے کہ یہ قوم اپنے مستقبل سے مایوس ہو گئی ہے اور فتنہ گر کا مکمل قبضہ اس گنہگار قوم کیلئے سزا ہے؟ وہ خدا کہاں ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کو ہدایت سے خالی نہیں رکھے گا؟ کہاں ہے ان 24 کروڑ لوگوں کا مسیحا؟ کہاں ہے وہ رہبر جو جسکے ہاتھ کی لکیروں میں جنرل پاپا جونز جیسے وطن فروشوں سے ہماری نجات لکھی ہے؟ اگر کوئی ہے تو ہاتھ کھڑا کرے اور اگر ہاتھ کھڑا نہیں کرتا تو کیا کوئی سر پھرا کہہ لے کہ پاکستان کیلئے کوئی خدا نہیں ہے۔ اوپر آسمانوں پر کسی کو فرق پڑتا کہ ہمارے لاکھوں بچے دھشتگردی کی تجربہ گاہ میں جھونک کر کوئلہ ہو جائیں, یا پھر اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر غائب, قتل یا جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیئے جائیں۔ کیوں ہمارے رہبر ہوش میں نہیں آ رہے؟ کیوں یہ لوگ ایک جُت ہو کر ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کا محاسبہ نہیں کر سکتے؟ کیوں ان میں جرآت نہیں رہی کہ یہ جنرل باجکو سے منی ٹریل مانگ سکیں؟ کیوں ہمارے لیڈران اس ملک کی حتمی آزادی کیلئے جدوجہد شروع نہیں کرتے؟ کیوں پنجاب راولپنڈی کی گود سے نیچے نہیں اترتا؟ کیوں ایک بلوچ یا پشتون کے غائب کر دیئے جانے پر مریم نواز کی زبان نہیں ہلتی؟ کیوں آزاد کشمیر میں رہنے والا ایک بھی شخص خود کو مقبوضہ کشمیر کے رہنے والوں سے بہتر حالات میں محسوس نہیں کرتا؟ اگر یہی حقیقت ہے تو سوشل میڈیاء پر ایک دوسرے کی کھُجا کر واوا کرنے والے لوگ کون ہیں؟ کیا یہ سب ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دے رہے؟
آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کے مینڈیٹ کی امین ہیں لیکن سمجھیں نہ سمجھیں ہر دو جماعتوں پر پورے ملک کی ذمہ داری ہے کیونکہ پنجاب اور سندھ کی یکساں کوششوں کے بغیر کوئی بڑی تحریک نہیں بن سکتی اور یہ بات انکے کارکنوں کو سمجھنی پڑے گی۔ ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی نے قبرستان بھرنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ پنجاب کا مسئلہ لیڈرشپ سے زیادہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے لوگ ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اللہ آسمانوں پر موجود ہے جسے سب کی پرواہ ہے اور اگر موجودہ لیڈروں اور انکے کارکنوں نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو وہ وقت دور نہیں جب 24 کروڑ لوگوں کے وسائل پر قابض گروہ کی سرکوبی کیلئے کوئی اٹھ کھڑا ہو گا اور لوگ صوبائی, لسانی, مذہبی اختلافات بھول کر حتمی آزادی کے خواب کے پیچھے ہو لیں گے۔ گڑھی خدا بخش کے مزاروں پر تو شاید پھر بھی دیئے جلتے رہیں لیکن “مجھے کیوں نکالا” پھر کوئی نہیں خریدے گا۔ لہذا ہمارے نہیں اپنے لیئے جاگ جائیں اس سے پہلے کہ کوئی اس سوئی ہوئی قوم کی دُم پر پاوں رکھ دے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...