اٹلانٹس Atlantis
مغرب کے فلسفہ وادب میں پایا جانے والا ایک گمشدہ (mythical )افسانوی جزیرہ۔۔ جس کا سب سے پہلے زکرافلاطون نے اپنی یوٹوپیا مثالی ریاست کے خدوخال بتانے کے لئے استعمال کیا، اس نے کہا کہ 300 سال پہلے سمندر کے بیچ میں ایک جزیرہ تھا۔۔جسے کسی مخالف بحری فوجی قوت نے سمندر میں غرق کردیا تھا۔ اس فرضی جزیرے کی کہانی کی بازگشت ڈھائی ہزارسال سے مغرب کے لٹریچرمیں کہیں نہ کہیں سامنے آ جاتی ہے۔ لوگوں نے اس جزیرے کا محل وقوع بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی، ایسے سوڈو نقشے بنائے، سوڈو دعوے کئے، رینے سانس عہد کے فلاسفر فرانسس بیکن نے بھی اپنے خیالات کی مملکت پیش کرنے کے لئے اٹلانٹس کی تشبیع کواستعمال کیا اورنیوانٹلانس کے نام سے ایک ناول لکھا۔ بیکن بھی اس جزیرے میں اپنی من پسند مثالی حکومت کی تفصیلات پیش کرتا ہے۔ یہ ایک شاندارادبی پارہ ہے۔ اس کے بارے نقاد کہتے ہیں۔ کہ اس سے زیادہ عمیق اورمتوازن دانش وری کا سراغ کہیں نہیں ملتا۔ یہاں پارلیمنٹ کی طرح ایک دارالسلیمان ہوتا ہے۔ لیکن یہاں نہ 'اہل سیاست' ہیںَ نہ 'بدتمیز ارکان اسمبلی'۔ نہ جلسے، نہ انتخابی معرکے، نہ باوردی ملازم۔ نہ دروغ بیانی، نہ انتخابات، علمی شہرت اوردھاک کے راستے سب کے لئے کھلے ہیں۔ اورصرف ان راستوں کے تجربہ کارحکومت کی مجالس میں شریک ہوتے ہیںَ قوم کے چیدہ چیدہ بہترین افراد قومی مفاد ملحوظ رکھ کر حکومت کرتے ہیں۔ ماہرین فن، ہیئت شناس، ارضیات، طبیعیات، کیمیا، معاشیات، عمرانیات، نفسیات اورفلسفے کے مایرین۔ نئے اٹلانٹس میں حکومت برائے نام ہے۔ کیونکہ ان کوانسانوں پرحکمرانی کی فرصت کم ہے۔ اس ریاست کی تعمیر کی بنیاد یہ ہے کہ اشیا کے مخفی اعمال، اورسلسلہ علت ومعلول کا پتا چلا کرعلم کا فروغ کیا جائے۔ وہاں 'حکمران' ستاروں کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ آبشارسے قوت کا مشاہدہ کرکے صنعت کوفروغ دے رہے ہیں۔ امراض کے نئے علاج دریافت ہورہے ہیں۔ جراحی کا علم حاصل کرنے کے لئے جانوروں پرتجربے کئے جارہے ہیںَ نئے پودوں اورنئے جانوروں کی نسلیں وجود میں لائی جارہی ہیں۔ "ہم پرواز میں پرندوں کی نقل کرلیتے ہیں" کچھ کچھ اڑلیتے ہیں۔ ہمارے پاس جہاز اورکشتیاں ہیں۔ جوزیرآب جا سکتی ہیں۔ ہم بھی تجارت کرتے ہیں۔ لیکن سونے ، چاندی، ریشم اورمصالحوں کی نہیں۔ بلکہ صرف اس چیز کی جوخدا کی پہلی تخلیق ہے یعنی نور کی (علم)۔ یہ 'تاجران نور" اس سلطنت کے حکمران ہیں۔ جنہیں بارہ سال کے بعد دنیا کے دوسرے مہذب حصوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ جہاں جاتے ہیں۔ وہاں کی صنعت وحرفت اورعلوم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بارہ سال کے بعد واپس آتے ہیں۔ قائدین ملت کی خدمت میں رپورٹ پیش کرتے ہیںَ اس طرح دنیا کی بہترین چیزیں اس جزیرے میں پہنچ جاتی ہیں۔ یہ بیکن کا ہی نہیں، ہرفلسفی کا یوٹوپیا رہا ہے۔ جوقوم کوامن، ترقی اورخوشحالی کی راہ پردیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس خواب کی تعبیرکیوں نہیں نکلتی۔ یاد رہے کہ فرانسس بیکن کا زمانہ 16صدی کا ہے۔ کوئی 400 سال پرانا۔ ہم پاکستان کے اہل دانش کوبھی شائد کسی نیواٹلانٹس کی تلاش ہے۔۔لیکن مثالی ریاستیں صرف خوابوں میں ہی ہوسکتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“