احمد عدنان طارق بچوں کے ادب کے حوالے سے دور حاضر کے نمائندہ ادیب ہیں ۔بچوں کا ادب ایک وسیع سمندر ہے ۔اطفال ادب میں کئی ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے لیکن احمد عدنان طارق کا انداز تحریر ان سے منفرد اور توجہ طلب ہے ۔انہوں نے جو ادب تخلیق کیا ہے وہ حقیقت نے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے بچے کسی بھی قوم کا اہم سرمایہ ہوتے ہیں ان کی مثالی تعلیم و تربیت ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔ادب اطفال میں احمد عدنان طارق کی ادبی حیثیت مسلم ہے ۔انہوں نے جدید سائنسی دور میں بچوں کی تربیت کا جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینا قابل داد ہے۔ جدید سائنسی ترقی نے جہاں انسان کو دنیائے ادب و سائنس میں متنی ایجادات و تجربات سے متعارف کرایا ہے وہیں اس میں کچھ ایسے مسائل بھی شامل ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے انسان اپنے کلچر ادب اور تہذیب سے بیگانہ ہو گیا ہے ۔یہی بے چہرگی انسان کو جدید ترقی کے ساتھ ساتھ جدید مسائل سے بھی دوچار کر دیتی ہے ۔ادب کسی بھی اس کا فطر کلچر کی نمائندگی کے ساتھ ناموں کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا اطلاق بچوں ہی سے کرنا ناگزیر ہے ۔۔۔۔کچھ لوگ احمد عدنان طارق کا نام پڑھ کر سوچتے ہیں کہ یہ ایک آدمی نہیں بلکہ تین ہیں ۔اس سلسلے میں وہ صحیح سوچتے ہیں کیونکہ یہ آدمی واقعی تین آدمیوں جتنا کام کرتا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے دونوں ہاتھوں سے لکھتا ہے اور ہروقت لکھتا ہے ۔مقدار کے لحاظ سے احمد عدنان طارق سب سے زیادہ کہانیاں لکھتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ معیار کے لحاظ سے ان کی کہانیاں کا مقابلہ کرنا ہر ادیب کے بس کی بات نہیں ہے ۔۔انگریزی ادب سے ترجمہ شدہ کہانیاں ہو یا طبع زاد کہانیاں احمد عدنان طارق کا اپنا ہی اسلوب ہے وہ بچوں کے ادب میں بلا شرکت غیرے بادشاہ ہیں اور ان کی بادشاہت کو فی الحال چیلنج کرنے والا دور دور تک کوئی موجود نہیں ۔۔۔ان کی انہی خوبیوں نے انہیں بحیثیت ادیب اپنے ہم عصروں میں بہت ممتاز بنا دیا ہے ۔۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔آج کا بچہ کل کا شہری ہے جو کسی بھی ملک اور قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے ملک کی حقیقی دولت اور فرمایا بچے ہی ہوتے ہیں بچپن میں انہیں جس قسم کی تربیت اور نشو نما ملتی ہے اس پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے ۔ان کی ذہنی اور جذباتی اٹھان بھی ان کے بچپن کی تعلیم و تربیت کی مرہون منت ہے ۔
ادب اپنے زمانے کا عکس ہوتا ہے جو جذبات و خیالات لوگوں کے دلوں میں ہلچل پیدا کرتے ہیں وہی زندگی پر اپنا عکس ڈالتے ہیں ۔ادب ایک فن کار کے روحانی توازن کی ظاہری شکل ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے ادب کو زندگی کا آئینہ اور سماج کا عکس تسلیم کیا جاتا ہے۔جس سماج یا کام کا کوئی ادب نہیں وہ قوم مردہ تصور کی جاتی ہے۔ کسی قوم کے مذہبی خیالات ، سماجی اور اخلاقی تنظیم اور اس کا مذہبی و سیاسی حالات کا صحیح آئینہ اس کا ادب ہوتا ہے ۔ادب اور سماج میں گہرا تعلق ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں ۔
اردو ادب کی تاریخ میں بچوں کے ادب سے متعلق بہت بڑے بڑے نام ملتے ہیں ۔اگرچہ ناقدین کی طرف سے ادب اطفال پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی لیکن ہر دور میں بچوں کے ادب کے تخلیق کار موجود رہے ہیں ۔
ملک ،زمانہ ، تعلیم ، رسم و رواج ،تہذیب و تمدن اور نفسیات کے اعتبار سے انسان میں بے پناہ تبدیلیاں آتی ہیں لیکن بچہ ہزاروں سال پہلے جیسے تھا آج بھی ویسا ہی ہے۔
وہی لگاتار پرانے زمانے سے چلے آنے والے طور طریقے پر انسان کے گھر میں “بچہ” کی شکل لے کر پیدا ہوتا ہے ۔اگرچہ جب سے دنیا بنی ہے تب ہی سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے مگر پھر بھی یوں ازل سے جتنا خوبصورت بھولا بھالا تھا آج بھی ویسا ہی ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ خدا کی دین اور تحفہ ہے ۔اور اس کی فطرت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے جب کہ بڑا آدمی تھا یہ اعتبار سے معاشرے اور انسان کے ہاتھ کی تخلیق بن جاتا ہے بچوں کو بہلانے کے لیے جو لوریاں اور گیت وجود میں آئے وہ بچوں کا ادب ہیں۔
اطفال ادب کی تاریخ بہت حد تک واضح اور جامع ہے۔ اس میں فنی طور پر بچوں کے ذوق ، فہم و ادراک ضرورت ، عمر کے مختلف مدارج اور نفسیات کا احاطہ کیا جاتا ہے ۔
بچوں کے ادب کی اپنی الگ اہمیت ہے اسے پڑھنے والے بچے بھی بڑوں کی طرح پسند اور ناپسند کی آزادی رکھتے ہیں بچوں کے ادب کے لیے نہ تو عمر کی کوئی قید ہوتی ہے نہ ہی علم کی کوئی حد ہوتی ہے آج دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان میں اطفال ادب کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں بچوں سے بے اعتنائی برتنے کے ساتھ ساتھ ان کے ادب کے ساتھ بھی ہمارا رویہ کچھ اس طرح کا ہے ہماری بھی سیکھیں یہ سب بچوں کے ادب پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے اسے جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی بچوں کے لیے لکھنے کو کار فضول اور کار زیاں سمجھا جاتا ہے ۔جس وجہ سے بچوں کے ادب کا مستقبل وثوق سے درخشندہ اور تابناک نہیں کہا جا سکتا ۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے حکمرانوں کی جانب سے کوئی سرپرستی حاصل نہیں ہے برائے نام چند ایک اداروں کے سوا کوئی قابل ذکر ادارہ نہیں ہے ۔اگر ہے تو وہ خود مالی اور دیگر مسائل کا شکار ہے وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ کیسے دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔بچوں کے لیے لکھنے والے ادبا کو اول تو ناشر ادارہ کچھ نہیں دیتے اگر دیتے بھی ہیں تو وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ یعنی برائے نام ۔۔ یوں انہیں ان کی تخلیقات کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا اکثر کو اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر بھوک پیاس اور تنگی ترشی برداشت کرکے اپنی جیب سے اپنی تخلیقات شائع کرانا پڑتی ہیں۔
بچوں کے ادیب اور شاعر کی حیثیت سے محوی صدیقی کا نام بڑا اہم ہے ۔انہوں نے بچوں کے لئے بہت سی نظمیں لکھیں جو اردو کے تمام مشہور ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہیں۔ان کی نظموں کا ایک مجموعہ “مالک باغ” کے نام سے چھپا ۔اسی طرح اختر شیرانی رومانوی تحریک کے نمائندہ شاعروں میں سے ہیں ان کی نظمیں بچوں کے رسالے “پھول ” میں شائع ہوتی رہیں ۔
“کاغذ کی ناؤ”، “چندر اور بندر”، “تاروں بھری رات” بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں زیادہ نمایاں ہیں ۔
امتیاز علی تاج بچوں کے ادب میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔امتیاز علی تاج ایک عرصہ تک ” پھول” کے مدیر رہے۔امتیاز علی تاج کی کتاب “چچا چھکن” میں شامل تمام کہانیوں “چچا چھکن نے تصویر ٹانگی”، “چچا چھکن نوچندی دیکھنے چلے” ، “چچا چھکن نے دھوبی کو کپڑے دیے”، چچا چھکن نے ایک بات سنی” ،” چچا چھکن نے تیمارداری کی”، “چچا چھکن نے خط لکھا” ،چچا چھکن نے تیمارداری کی” ،”چچا چھکن نے ردی نکالی”، “جس روز چچا چھکن کی عینک کھوئی گئی تھی” اور چچا چکھن نے سب کے لئے کیلے خریدے “، غیر معمولی پذیرائی حاصل کی ہے ۔۔
ان کے علاوہ حجاب امتیاز علی ،چراغ حسن حسرت ، صوفی غلام مصطفی تبسم ، احمد ندیم قاسمی ،شفیع الدین نیر اور مرزا ادیب کے نام نمایاں ہیں ۔۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں اخبارات میں بچوں کے صفحات کا اضافہ ہوا وہاں باقاعدہ رسائل بھی جاری ہوئے۔تقسیم کے تیسرے سال میں 1950 میں شفیع عقیل نے روزنامہ “جنگ “کراچی کی بچوں کے صفحہ کی ادارت سنبھالی ۔اور بچوں کا ہفتہ وار صفحہ نکالا اور” بھائی جان “کے نام سے ایک ماہنامہ شروع کیا ۔۔ 1953ء میں حکیم محمد سعید نے کراچی سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے “ہمدرد نونہال” جاری کیا۔ماہنامہ تعلیم و تربیت اور پھول کے بعد ہمدرد نونہال کو جو پذیرائی اور مقبولیت ملی وہ بہت کم رسائل کے حصے میں آئی۔حکیم محمد سعید نے ذاتی طور پر بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا ۔انہوں نے اردو زبان میں بچوں کے لیے پہلی بار سفرنامے اور ڈائری شائع کرنے کی ابتدا کی اس کے علاوہ ہمدرد نونہال میں لکھے گئے اداریہ “جاگو جگاؤ” ایک ایسا سلسلہ ہے جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔
ابن انشاء نے بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں کہیں ان کی نظموں کا مجموعہ “بلو کا بستہ”1958ء میں شائع ہوا ۔۔رحمان مذنب نے بھی بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ان کی کہانیاں ماہنامہ پھول تعلیم و تربیت اور بچوں کا بعد میں چھپتی رہی ہیں۔
کشور ناہید نے بچوں کے لئے بہت سی کہانیوں کو ترجمہ نہ صرف غیر ملکی زبان سے قومی زبان میں کیا بلکہ طبع زاد بھی لکھا۔جادوئی ہنڈیا ،شبنم کا تاج، نیک دل دیو، خرگوش اور لومڑی ، شیر اور بکری، ہیروں کا سیب ، شہزادی سورج مکھی ،گدھے کے کانوں والا شہزادہ ،چاند کی بیٹی، تین جھوٹے اور ایک سکہ وغیرہ ۔یہ ایسی کہانیاں ہیں جو ہندوستان اور پاکستان میں برابر پڑھی جاتی ہیں۔
بچوں کے لیے غلام عباس نے خوبصورت کہانیاں لکھیں ان کی لکھی گئی کہانیوں میں اندھا فقیر ، مغرور لڑکی ،جلا وطنی ، کھلونوں کی بستی ،عرب بچے اور ایک آنکھ والا دیو شامل ہیں۔
معروف شاعر اور گیت نگار قتیل شفائی نے بھی بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں لکھی ہیں ان کی لکھی نظم ہے دور جدید سے ہم آہنگ ہیں یہاں تخیلاتی ،روایتی اور مافوق الفطرت فضا سے گریز نظر آتا ہے ۔مہک کا پرندہ اور چاند کی بڑھیا کہاں گئی وغیرہ آپ کی خوبصورت نظمیں ہیں ۔
ان کے علاوہ جبار توقیر ،معسود احمد برکاتی ، زبیدہ سلطانہ ، بیگم ثاقبہ رحیم الدین ، یونس حسرت ، اختر عباس، مقبول جہانگیر ، سعید لخت، ابن آس محمد ، نذیر انبالوی ،عبدالرشید فاروقی نے بھی بچوں کے لئے خوب صورت کہانیاں لکھی ہیں۔
کالم نگار شاعر، افسانہ نگار اور بچوں کے ادیب حافظ مظفر محسن نے بچوں کے لیے جہاں خوبصورت نظمیں لکھیں وہاں اتنی ہی دلکش کہانیاں بھی لکھیں ۔انہوں نے بچوں کے لئے ماہانہ رسائل ، پھول ، تعلیم و تربیت، نونہال، نوبہار ، بچوں کا گوگو اور انوکھی کہانیوں کے علاوہ اخبارات و جرائد کے بچوں کے صفحات میں بھی لکھا۔۔” جاگو ہوا سویرا ،روشن آنکھیں ، ہمارے نبی پیارے نبی، جگمگ میرا دیس ،سکندر خان کی واپسی ، محبت کے بھیگے پل ، ستارے اپنی اپنی قسمت کے اور صبح جو جالا بنی وغیرہ ان کے بچوں کے لئے لکھی کتب ہیں ۔۔
شاعر اور افسانہ نگار بینا گوئندی میں بھی بچوں کے لیے خوب لکھا۔ممتاز ادیب اور استاد ڈاکٹر محمد افضل حمید نے فیصل آباد کے مقامی اخبارات سے لکھنا شروع کیا ۔انہوں نے مقامی اخبارات روزنامہ پیغام اور عوام فیصل آباد سے بچوں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا بچوں کے لئے ان کی نظمیں اور کہانیاں پھول اور ذہین وغیرہ میں چھپیں ۔
ان کے علاوہ رانا راشد علی خان ، ندیم اختر ، صفدر رضا رضوی ، عالم محی الدین ، خادم حسین مجاہد، نئیر رانی شفق ، اظہر عباس ، ارباب بزمی ، عادل گلزار ، مزمل صدیقی ظہیر احمد نے بھی بچوں کی کہانیاں لکھنے میں اپنا حصہ ڈالا ۔
بچوں کے ادب کی تاریخ اشتیاق احمد کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ انہوں نے ہزاروں کہانیاں اور سینکڑوں ناول لکھے ۔ان کی پہلی بیس کہانیاں بچوں کے لیے تھی ۔اس کے بعد انہوں نے بڑوں کے لیے لکھنا شروع کیا ، اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی ۔ابتداء میں ان کی تحریریں رومانی ادب کا احاطہ کرتی تھی ان کی پہلی رومانی کہانی کا عنوان “شمع” تھا ۔اشتیاق احمد کا پہلا ناول “پیکٹ کا راز” تھا ۔۔انسپکٹر جمشید کے علاوہ انسپکٹر کامران مرزا سیریز اور شوکی سیریز کے کردار تخلیق کر کے انہوں نے جاسوسی ناولز کا سلسلہ جاری رکھا۔ان کے ناولوں میں حب الوطنی ،خداترسی _ اسلام پسندی ، باہمی تعاون اور اصول پسندی جیسے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بچوں کے لئے جاسوسی اور مہماتی ناول اور کہانی نگاری میں بہت بڑا نام مظہر کلیم کا بھی ہے ۔مظہر کلیم بنیادی طور پر ایک قانون دان تھے مگر اپنے ایک دوست کے کہنے پر وہ ناول نگاری کی طرف مائل ہوئے اور پھر اس ادبی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے ۔اگرچہ مظہر کلیم کو زیادہ شہرت عمران سیریز کے لکھنے سے ملیں مگر بچوں کے لئے ان کی ادبی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔اپنے بچوں کے لئے مختلف پہلے سے لکھے جانے والے سلوک کو بھی آگے بڑھایا اور کئی نئے سلسلے بھی شروع کیے ٹارزن اور عمروعیار جیسے پہلے سے جاری سلسلوں میں لکھنے کے علاوہ انہوں نے چلو سک ملو سک ، انگلو بانگلو ، چھن چھنگلو سیریز میں لاتعداد ناول اور کہانیاں تحریر کیں ۔۔مصنفین کے علاوہ شہناز اکبر الفت ،نوید مرزا عرفان رامے ، نوشاد عادل ، محمد ریاست ،حافظ محمد محسن ،روبنسن سیموئیل گل ،راحت عائشہ ، حاتم بھٹی ، ریاض احمد قادری ، نور محمد جمال ،ڈاکٹر طارق ریاض ،عرفات ظہور وغیرہ بچوں کے معروف ادیب ہیں جو مختلف رسائل اور جریدوں میں بچوں کے لئے بہت ادب تخلیق کر رہے ہیں ۔۔
رسائل سے ہی بچوں کی تحریریں اور ذہنی تربیت ہوتی ہے اور یہی رسائل ہوتے ہیں جو بچوں کے ذہن اور ذوق کو جلا بخشتے ہیں ان رسالوں میں بچوں کے لئے بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مواد ہوتا ہے۔معروف ادیبوں کی دلچسپ کہانیوں اور نظموں کے علاوہ ایسے کالم ہوتے ہیں جو بچوں کو مہمیز کرتے ہیں ۔اردو کے رسائل کی ضرورت کا احساس ان افراد کو زیادہ تھا جو قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم کو سمجھتے تھے اسی لئے ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رسائل شائع کیے۔تفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت بھی ان کا مقصد تھا۔۔
فیصل آباد (لائل پور) کا دامن ہمیشہ علم و فن کے غونچوں سے جنت بدامن رہا ہے۔ اس شہر کے فنکاروں نے علم و فن کے ہر شعبے میں اپنے فن سے ادب کی آبیاری کی ہے۔شاعر ہوں یا ادیب ،نعت گو ہوں یا قوال ،اداکار ہو یا قلمکار ، ہر میدان کو فیصل آباد کے شاہسواروں نے سر کیا ہے۔کیسے ہیں ۔۔۔۔ایسے ہی آبگینوں میں ایک گوہر تابندہ جناب احمد عدنان طارق ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنے فن کا لوہا منوایا اور ادب اطفال کے اوپر مانند خورشید تابناک ہوئے ۔وہ آیا اور چھا گیا کی مثال احمد عدنان طارق پر صادق آتی ہے۔انہوں نے چھوٹی عمر کے بچوں کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے ۔یہ ایسے منفرد انداز ، رنگ اور سلیقے سے کہانی کہنے پر قادر ہیں جو پڑھنے والے کو ان کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ یہ اردو کہانی کے بیڈ ٹائم سٹوری ٹیلر ( Bedtime Storyteller )ہیں۔ ان کی کہانیوں نے بچوں کو وہ رنگ دئے جو ان کی دھنک سے پھیکے پڑ رہے تھے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم نان طارق نے بچوں کے اجڑے ہوئے پرستان کو ننھی منی پریوں ،اٹکھیلیوں اور شرارتوں سے پھر سے آباد کر دیا ہے ۔کی کہانیوں میں بچوں کے لئے چاکلیٹ کی شیرینی اور ونڈر لینڈ جیسی خوشیوں بھری حیرت ہے ۔
احمد عدنان طارق 14 جولائی 1963ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے ۔ان کے والدین اعلی تعلیم یافتہ سرکاری ملازم تھے ۔ان کے والد اس اینڈ ٹیکسیشن آفیسر تھے ۔ والدہ مسز شمیم ملک تعلیم۔ کے شعبے سے منسلک تھی۔احمد عدنان طارق اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں ۔ البتہ ان سے چھوٹی ان کی پانچ بہنیں ہیں ۔احمد عدنان طارق نے میٹرک کا امتحان تاندلیاوالا سے پاس کیا ۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بی ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا ۔۔۔۔ 1985ء میں انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بطور اے ایس آئی کیا اور آج محکمہ کو جائن کی ہوئی ہے انہوں نے چھتیس سال ہوگئے۔بطور ایس ایچ او کئی تھانوں میں اپنی خدمات کا انجام دے چکے ہیں۔
احمد عدنان طارق کی زندگی ایک انتہائی پر تجسس اور دلچسپ کہانی جیسی لگتی ہے۔اس کہانی میں ایک تجسس کا عنصر ایک ہندسہ بھی ہے۔احمد عدنان طارق کا کہنا ہے۔
” کہ کوئی تو کنکشن ہے میری تاریخ پیدائش 14_07_63، میری والدہ کا یوم وفات 14_07_78، اور میرے والد کا یوم وفات 14_07_96 ہیں ”
کہانیوں والا قلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانیوں والا کلم احمد عدنان طارق کی بچوں کی کہانی پر مشتمل تصنیف ہے جسے نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے 2018 میں شائع کیا۔ایک سو دس صفحات پر محیط اس کتاب میں کل پچاس چھوٹی چھوٹی کہانیاں شامل ہیں ۔کتاب کے اندرونی صفحات پر کہانی کو باتصویر شائع کیا گیا ہے اور کہانی کے شروع میں سے متعلقہ تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جن کی آب و تاب کو برقرار رکھنے کے لئے آرٹ پیپر کا استعمال کیا گیا ہے۔اور اس پر رنگین تصاویر کو بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔احمد عدنان طارق کی کتاب کہانی والا کا علم ایک ایسی دلچسپ کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے جس کے اندر بچوں کی تربیت کے حوالے سے متعدد ایسے سبق پوشیدہ ہیں جو لاشعوری طور پر بچوں کی نفسیات اور سوچ کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں اور ان کے مافی الضمیر کے لیے اخلاقی غذا کا کام کرتے ہیں۔ عہد طفلی میں بچوں کو نہ سمجھیں کو طاقت بنا کر استعمال کیا جائے تو اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں بہت سے ادارے اور تنظیمیں اس سلسلے میں بچوں کی تربیت میں اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کے ذہنوں کو مطلوبہ شکل دی جا سکے ۔لیکن احمد عدنان طارق وہ دید ہیں جنہوں نے بہت بڑی ذمہ داری والے کام کو جان بوجھ کر اپنے ذمہ لیا ہے کیوں کہ وہ اس عمل سے یہ بخوبی واقف ہیں اور بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا چاہتے ہیں بطور ایک قاری ان کی کہانیوں کو پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک نہایت عمدہ لکھاری ہیں جن کے پاس ذہنوں کی تشکیل کرنے کا حل موجود ہے ۔احمد عدنان طارق کی کہانیاں پڑھ کر ایک سنجیدہ پختہ کاری کی ذہن سازی ہوسکتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اثرات بچوں کے ذہنوں پر نہایت عمدہ انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں ۔اور یقینا ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کردار ہمارے ہی معاشرے کے معلوم ہوتے ہیں جو عموماً بچوں ہی کے اعتبار سے تخلیق کیے گئے ہیں ۔۔
احمد عدنان طارق کی کہانیاں بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی سطح پر ان کی تربیت کرنے کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔انہوں نے اس دور میں کہانی لے کر بچوں کی تربیت کا آغاز کیا ہے جس دور جدید میں بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور ویڈیو گیم گیم جیسی جدید چیزیں ہیں ۔ایسے دور میں بچوں کو پتا بھی نہیں کی طرف راغب کرنا بلاشبہ بہت بڑا کام ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات ان کی کہانیوں کی یہ بھی ہے کہ انہوں نے کتاب بینی کا شوق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کا بھی ذمہ لیا ہے ۔
احمد عدنان طارق کی کہانیوں میں پرندوں اور جانوروں کے متعدد کردار ہیں جن کی وساطت سے کہانیاں وجود پاتی ہیں اور ان کے کرداروں سے ایسے ایسے سبق انہوں نے لاشعوری طور پر بچوں کے ذہن میں پیدا کر دی ہیں جن کا اثر بلاشبہ بے ان کے دنوں میں نقش رہے گا ۔بیا کی صورت انہوں نے جو پرندے کی کہانی بیان کی ہے اور اس کو ایک موسم اور مثالیں پرندہ بنا کر پیش کیا ہے لیکن دوسرے پرندوں کو اس سے اپنے لئے گھونسلہ بنانے کا فن سکھانے کے لیے مدعو کیا ہے تو اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس قابلیت کے معترف ہیں۔ ایک ایسے ہونہار پرندے سے فن سیکھنے کے معاملے میں انہیں لازم تھا کہ وہ اس کے فن کو پوری توجہ اور تندہی سے سیکھتے جس سے اس کے فن کی بھی قدر دانی ہوتی اور انہیں کامل طریقے سے فن کا حصول ممکن ہوتا لیکن انہوں نے اپنی اپنی دانست کے مطابق سیکھا اور چلے گئے ۔۔میرا خیال ہے کہ احمد عدنان طارق اس سے بچوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اصل میں اخلاقیات کے تقاضے کیا ہوتے ہیں ۔۔۔
ادب اطفال کی روایت کو مدنظر رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس عادت کا مقصد خوبصورت اور شاندار معاشرے کی تعمیر کی خاطر اس معاشرے کی نونہالان کو ان کے زمانہ طفلی سے ایسی ادبی تربیت دی جائے جس سے ان کی اخلاقی بنیادیں اس زمانے کے حالات کبھی انہیں متزلزل نہ کر سکیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے یہاں پرندوں اور دیگر جانوروں کا استعمال کیا ہے وہاں اور الو کی بھی کلیدی حیثیت ہے۔آلو ان کہانیوں میں ایک سمجھدار اور دانہ بندے کے روپ میں سامنے آیا ہے جس کی طبیعت میں سستی اور کاہلی ضروری ہے بھائی کے صدقے دے معترف ہیں۔۔احمد عدنان طارق کی بچوں کے لئے لکھی جانے والی کہانی “کارنامہ” ایک ایسے گدھے کی کہانی ہے جس کا نام نونی ہے اور وہ اپنی روایتی زندگی سے بیزار ہے۔اور کچھ نیا دکھانے کا جذبہ رکھتا ہے ۔یہی جذبہ اسے جنگل کی جانب جانے پر مجبور کرتا ہے جس کے سوا اس کے سامنے زندگی کی نئی راہیں کھلتی ہیں ۔۔۔۔۔۔احمد عدنان طارق کی کہانیوں میں بچوں کو کسی ایسے مقصد زندگی کی تحریک سکھائی جاتی ہے ۔جس سے انہیں کچھ کر گزرنے کا جوش اور بہتر سے بہتر کی تلاش کی جانب گامزن رہنے کے لئے مستعد کرنے کا ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔کہانی پڑھ کر جو کیفیت قاری کے دل و دماغ پر ثبت ہوتی ہے وہ مصنف کی کامیاب قلم کاری کی بہترین نشانی ہے۔۔۔۔
احمد عدنان طارق کے پاس یہ فن بلاشبہ موجود ہے کہ وہ ایک اچھی اور خطا کار کہانی کار ہیں یہ اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بچوں کو کس طرح کے کردار رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے ہیں ان کے بارے میں ان کے دل و دماغ میں پیدا ہو وہ ایک ہیرو کا ہو ،وہ ہیرو جس کے مطابق زندگی کا نصب العین ترتیب دے سکیں ۔بھلے کہانی اپنے اندر جانوروں کے مطابق کردار لئے ہوئے ہیں لیکن ان کا ڈرامائی پس منظر خود بخود قاری کے اندر وہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس میں کہانی کے مرکزی کردار کے لیے کشش کا حامل ہونے کی خواہش جاگزیں ہوتی ہے ۔
ہر کہانی کے اختتام پر مصنف نے کچھ ایسا نتیجہ کیا ہے جس سے قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
احمد عدنان طارق کی کہانیاں اس معاملے میں بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے وہ علاج ثابت ہوتی ہیں اور مصنف خود وہ طبیب جسے قوم کی اصلاح کے لئے اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں استعمال میں لانی ہیں ۔۔وہ بچوں کو جس سبق دیتے ہیں کہ کس طرح زندگی کے معاملات میں آگے بڑھا جا سکتا ہے اور کس طرح دوسروں کے ساتھ اچھے رویے اپنا کر ان سے بہرہ ور ہوا جا سکتا ہے وہ ان رویوں کے ذریعے سے خود ہی فائدہ نہیں لینا چاہتے بلکہ ان کے نزدیک معاشرے کی بھلائی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔۔
احمد عدنان طارق کی لکھی جانے والی کہانیاں اپنے اندر ایک جہان رکھتی ہیں ۔ان کی کہانیاں یہاں بچوں کے لئے جدید دور کے تقاضے پورے کرتی ہیں اسی طرح انہیں قدیم اور ما فوق الفطرت عناصر سے آگاہ رکھتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی ایک خوبصورت کہانی “پری کے گاؤں” ہے۔مصنف نے اس کہانی میں ماورائی اور مافوق الفطرت چیزوں کو شامل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عام طور پر جن چیزوں کے بارے میں ہمارے خیالات اچھے نہیں لگتے نیک دل اور رحم دل وہ بھی ہو سکتی ہیں۔جنوں پریوں اور دیوؤں کی کہانیاں عموماً داستان کا حصہ ہوتی تھیں لیکن ادب اطفال میں بچوں کی دلچسپی اور سنسنی خیز منظر نامے کی تشکیل کے لیے ادب اطفال کے مصنفین نے اسے اپنے ادب کا حصہ بنا لیا ہے ۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں ۔
” داستان کہانی کی سب سے اولین اور قدیم قسم ہے ۔اصطلاح میں داستان وہ قصّہ کہانی ہے جس کی بنیاد تخیل رومان اور مافوق الفطرت عناصر پر ہو ۔ کہانی کی قسم ہونے کے ناطے یہ داستان لکھنے اور پڑھنے سے زیادہ کہنے اور سننے کی چیز ہے۔”
اس کہانی میں حادثاتی طور پر گاؤں میں وارد ہونے والی پری کے دل میں اس گاؤں والوں کے ساتھ رحم اور ہمدردی کا جذبہ پوشیدہ تھا۔۔
“کہانی “نیلو کی شامت” میں احمد عدنان طارق نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب کوئی بھی چیز وہ چاہے ایک بلی ہو یا کوئی انسان، کسی دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا تو اسے اس کا ضرور انجام بھگتنا پڑے گا ۔یہی وجہ ہے کہ نیلو نامی بلی نے جب پرندوں کے پر اپنے ساتھ باندھ کر چڑیوں کا شکار کرنے کی کوشش کی تو اسے اجنبی پرندہ خیال کرتے ہوئے دوسری بلیوں نے اسے نوچ ڈالا اور پھر اسے اندازہ ہوا کہ دھوکہ دہی کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔۔۔
احمد عدنان طارق کی کہانیاں جو بچوں اور بڑوں کے لیے مشترکہ موضوعات پر لکھی گئی ہیں وہ اصل میں بچوں اور بڑوں کے درمیان ایک پل کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔عام طور پر بچوں کو بڑے گھوڑوں سے جو خوف اور حجاب ہوتا ہے اس کو بڑی حد تک احمد عدنان طارق نے کم کر دیا ہے اور اپنے ننھے قاری کو اپنے بڑوں کے خاصا قریب کر دیا ہے ۔۔امن عدنان طارق نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بڑوں کو بچوں کی دلجوئی کے لیے لازم ہے کہ ضرور ان کو انعام دیا کریں تاکہ ان میں نیکی اور خدمت کا جذبہ جوان رہے اور وہ دوسروں کے کام آنے میں پیش پیش رہیں ۔۔
” ہم سے بڑھ کر کون” میں انہوں نے ایسی خرابی کو بیان کیا ہے جو کہ ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور اسے خود پسندی کی انتہا کہنا بے جا نہ ہوگا۔بعض اوقات لوگ اس قدر نرگسیت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی ہر چیز اعلی و عمدہ معلوم ہوتی ہے اور باقی سب چیزیں بے معنی اور فضول لگتی ہیں ۔نرگسی شخصیت کا عارضہ یا مرض یا نار سیسسٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر (Narcissistic Personality disorder ) علم نفسیات میں ایک عام مرض ہے ۔نرگسی شخصیت کے مریض اپنے ذاتی خودساختہ وقار اور اہمیت کے متعلق شاندار خیال رکھتے ہیں ، اپنی طاقت اور کامیابی کے گھمنڈ میں کھوئے رہتے ہیں اور مسلسل اپنی ستائش و تعریف کرانا چاہتے ہیں ۔وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر دوسروں سے خاص مدد چاہتے ہیں اپنے مقاصد کے لیے دوسروں کا استحصال بھی کرتے رہتے ہیں۔ نرگسی شخصیت کے حامل افراد مسلسل توجہ اور تنہائی چاہتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کہ لوگ انہیں صرف اعلی درجے کے لوگ نہیں سمجھتے ہیں حسن اور غلط نظریات کی وجہ سے ان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی اچھے نہیں ہوتے یہی معاملہ ان کی اس کہانی میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
“جنگل کا بادشاہ “اور دیگر کہانیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل کا بادشاہ اور دیگر کہانیاں احمد عدنان طارق کی بچوں کی کہانیوں پر مشتمل خوبصورت سر ورق سے مزین کتاب ہے اس میں کل چودہ کہانیاں شامل ہیں ۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے جنگل کا بادشاہ اور دیگر کہانیاں میں اکثر کہانیاں جنگل کے ماحول سے ماخوذ ہیں اور ان کہانیوں کے اکثر کردار جانوروں پر مشتمل ہیں۔یہ کہانیاں سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپی سے بھرپور ہیں احمد نہیں ہے جس کی کہانی اس وقت دل بہلانے کا باعث ہو بلکہ ان کی کہانی میں ایک مکمل اور مستقل نظام موجود ہے جسے اعلی تربیت گاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔وہ ظالم اور ظلم کے خلاف اعلان بغاوت بلندکرتے ہیں اور نونہالوں کو اپنی کہانی بھی ذریعے سے سبق دیتے ہیں کہ ظالم کا انجام بھیانک ہوتا ہے ۔ظالم کسی بھی صورت کو سکون اور شانت نہیں ہو سکتا ۔ وہ چاہے جتنا طاقتور اور زور آور ہو جائے بالآخر اسے انجام تک پہنچنا ہوتا ہے۔جیسا کہ ان کی پہلی کہانی جنگل کا بادشاہ میں نا بھو کو دکھایا گیا ہے۔وہ ایک کالج وہ ہے جو دوسرے جانوروں کے انڈے بھی جاتا ہے اور کبھی کبھار تو ان کے بچے بھی کھا جاتا ہے کہانی کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ اس نے ایک مادہ چھچھوندر کے بچوں کو مار ڈالا اور دوسرے جانوروں کے انڈے پیے ، اس کے بدلے میں اسے اپنےخاندان سمیت اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔”
ہندوستان کی کہانیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سانپوں کا راجا ” میں احمد عدنان طارق نے سارک ممالک کے اعتبار سے کہانیاں لکھی ہیں جس کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچوں کو اسی طریقے سے سارک ممالک کے بارے میں آگہی ہو جائے اور کہانیوں کے ذریعے سے وہ ان ممالک کے موسم اور طبعی ماحول کو بھی جان لیں گے اور ان کہانیوں کے ذریعہ سے بچے یقینا سارک ممالک کی تہذیب اور کلچر کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے ۔ ہندوستانی کلچر اور تہذیب کی نمائندہ کہانیوں میں “دوستی دشمنی”، “جنگل کا راجا “، “مگرمچھ کے آنسو”، اور سفید ہاتھی ” شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کی کہانیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد عدنان طارق کی کہانیوں کا ذکر ہو اور اس میں اخلاقیات کی بات نہ کی جائے کہ میرے خیال میں یہ ان کی کہانی کے ساتھ نا انصافی ہوگی ۔بنگلہ دیش کی کہانیوں میں انہوں نے سب سے پہلے کہانی “ڈھول بجانے کا طریقہ” کی عنوان سے شامل کی ہے گروپ کی ایک کامیاب ٹریجڈی ہے ۔اس کہانی کے ذریعے انہوں نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ چھوٹوں کو بہرصورت بڑوں کی نصیحت کو مقدم جانا ہی بہتر ہے کیونکہ ان کے نصیحت میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔یہ ایک سبق آموز کہانی ہے ۔۔۔
اسی طرح احمد عدنان طارق اور کہانیوں کا ایک اور مجموعہ “افغانستان کی کہانیاں” ، “بارش اور گلاب”، شامل ہیں
بچوں کے ادب کے حوالے سے جناب احمد عدنان طارق صاحب کا نام اور کام بہت معتبر اور نمایاں ہے ۔آپ اپنی عمر کے تیرہ سال سے قلم و قرطاس سے منسلک ہیں ۔۔آپ کے قلم سے 45 کے قریب کتب منصہ شہود پر آ کر اپنی پزیرائی کروا چکی ہیں ۔۔بے شمار اعزازات و ایوارڈز سے بھی آپ کے علم و فن کی حوصلہ کی گئی ہے ۔۔۔۔فیصل آباد کے زیرک قلم کار اور قابل فخر فرزند جناب احمد عدنان طارق پر اس شہر کو بہت نازاں ہے ۔۔۔۔۔آپ کے ذاتی کتب خانہ میں بچوں کے ادب کے حوالے سے نامور مصنفین کی بے شمار کتب موجود ہیں یوں۔ کہ لیں کہ بچوں کے ادب کے حوالے سے کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ پورے پاکستان میں شاید ہی کہیں مل سکے ۔۔آپ اس وقت نہ صرف ملک گیر شہرت کے حامل ہیں بلکہ آپ کے فن آشنا جانتے ہیں کہ آپ کے تخلیقی کام کو بین الاقوامی سطح پر بھی پزیرائی کی اسناد مل چکی ہیں ۔۔۔۔ (راقم) اظہار احمد گلزار اور ریاض احمد قادری کا جناب احمد عدنان طارق سے ان کی رہائش گاہ پر بھر پور مکالمہ ہوا ۔ان کی ذاتی زندگی اور علمی و ادبی کارناموں سے آگاہی ہوئی ۔۔اور ان کا بے مثل و قابل فخر ادبی کام جان کر بہت خوشی ہوئی ۔۔۔۔ ہم آج کی خوبصورت نشست میں ان کی مزید کامیابیوں و کامرانیوں کے لیے دعا کرتے ہیں ۔۔
💥اللّه کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔۔۔!