ایتالو کیلوینو
اردو قالب: قیصر نذیر خاورؔ
جنگ شروع ہوئی تو لیوایجی ( لیو ای جی ) نامی جوان نے پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پیش کر سکتا تھا ؟
یہ سن کر ہر کسی نے اس کی تعریف و توصیف کی۔ لیوایجی اس جگہ گیا جہاں وہ بندوقیں بانٹ رہے تھے ۔ اس نے ایک لی اور کہا:
”میں اب جاؤں گا اور البرٹو نامی بندے کو مار ڈالوں گا ۔ “
انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ البرٹو کون ہے؟
”ایک دشمن۔“ ، اس نے جواب دیا، ”میرا ایک دشمن ۔“
انہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ ایک خاص قسم کے دشمن مار سکتا ہے ، یہ نہیں کہ جسے چاہے وہ مار ڈالے ۔
”تو؟ “، لیوایجی بولا ، ” آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں کیا ؟ یہ البرٹو بالکل اسی خاص قسم کا دشمن ہے، ان میں سے ایک ۔ میں نے جب یہ سُنا کہ آپ اس قسم کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے لگے ہیں ، تو میں نے سوچا : میں بھی جاؤں گا اور یوں البرٹو کو مار سکوں گا ۔ میں اسی لیے یہاں آیا تھا۔ میں اِس البرٹو کو جانتا ہوں۔ وہ ایک بدمعاش ہے۔ اس نے بلا وجہ مجھے بیوقوف بنایا، اس نے ایک عورت کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں، تو میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔“
وہ بولے، ”ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے۔“
”اچھا۔“، لیوایجی بولا، ”تو مجھے بتائیں، البرٹو کہاں ہے؟ میں وہاں جاؤں گا اور اس سے لڑوں گا۔“
وہ بولے کہ انہیں معلوم نہیں۔
”کوئی بات نہیں۔“، لیوایجی بولا، ”میں کوئی نا کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لوں گا جو مجھے اس کا پتا بتا دے گا۔ جلد یا بدیر میں اسے جا لوں گا۔“
انہوں نے اسے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وہیں جانا ہو گا، جہاں وہ اسے بھیجیں گے، وہیں لڑنا ہو گا اورانہیں ہی مارنا ہو گا جو وہاں ہوں گے۔ وہ البرٹو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
”میری بات سنیں!“، لیویجی نے اصرار کیا، ”مجھے ساری کہانی آپ کو سنانا ہو گی۔ یہ بندہ واقعی میں بدمعاش ہے اور آپ ٹھیک کر رہے ہیں کہ اس جیسوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔“
وہ، لیکن، اس کی کہانی سننا نہیں چاہتے تھے۔
لیوایجی کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ”معاف کریں، آپ کے لیے شاید یہ بات اہم نہ ہو کہ میں ایک دشمن ماروں یا کہ دوسرا لیکن میں اس بات پر پریشان ہی رہوں گا کہ میں کسی ایسے کو ماروں جس کا البرٹو کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو ۔“
رائفل دینے والوں کا پارہ چڑھ گیا۔ ان میں سے ایک نے لمبی تقریر کی اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ وہ جنگ کس لیے لڑی جا رہی تھی اور یہ کہ وہ منہ اٹھا کر جائے اور اپنے کسی مخصوص دشمن، جس سے وہ بدلہ لینا چاہتا ہے، کو قتل نہیں کر سکتا۔
لیوایجی نے کندھے جھٹکے۔ ”اگر یہ ایسا ہی ہے۔“، وہ بولا، ”تو مجھے اس سب سے الگ ہی رہنے دیں۔“
”تم اپنی خدمات پیش کر چکے ہو، اب تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔“، وہ چلائے۔
”آگے بڑھو ۔ ۔ ۔ چَپ راس ۔ ۔ ۔ چَپ راس!“
یوں انہوں نے اسے محاذ پر بھیج دیا۔
لیوایجی خوش نہیں تھا۔ اس نے ان سب کو مارا، جو بھی اس کے سامنے آئے، وہ کسی نا کسی طرح البرٹو تک یا اس کے خاندان میں سے کسی بندے تک پہنچنا چاہتا تھا۔
انہوں نے اسے ہر ہلاکت پر تمغہ دیا لیکن وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ ”میں اگر البرٹو کو نہ مار سکا۔ ۔ ۔“، اس نے سوچا، ”تو مجھے بہت سے لوگوں کو خواہ مخواہ مارنا پڑے گا۔“، اسے یہ اچھا نہ لگا۔
اس دوران وہ اسے تمغے پر تمغہ دئیے جا رہے تھے، چاندی کے، سونے کے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔
لیوایجی نے سوچا، ”کچھ آج مارو، کچھ کل ۔ ۔ ۔ اور یوں وہ کم ہوتے جائیں گے ۔ ۔ ۔ پھر اس بدمعاش کی باری بھی آ ہی جائے گی۔“
اس سے پہلے کہ وہ البرٹو کو تلاش کر پاتا، غنیم نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اسے بُرا محسوس ہوا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلاوجہ ہلاک کر دیا۔ اب جبکہ وہ حالت ِ امن میں تھے، اس نے اپنے تمغے ایک تھیلے میں ڈالے اور ان کی بستیوں میں گیا اور سارے تمغے ہلاک شدگان کی بیواؤں اور بچوں میں تقسیم کر دئیے۔
ان بستیوں میں گھومتے پھرتے اس کا سامنا البرٹو سے ہو گیا۔
”یہ تو اچھا ہو گیا۔“ اس نے خود سے کہا، ”کبھی نہیں سے دیر ہی بھلی۔“
اس نے البرٹو کو ہلاک کر دیا۔
انہوں نے اس پر اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ مقدمے کے دوران اس نے بار بار یہ بات دوہرائی کہ اس نے یہ کام اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سُنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانچہ پہلی بار ’’Prima che tu dica ‘Pront ‘‘ نامی مجموعے میں 1993 ء میں ایتالو کیلوینو کی موت کے بعد شائع ہوا جس کا پیش لفظ اس کی بیوہ ایشتھر نے لکھا ۔ ایتالو کیلوینو (Italo Calvino) نے، لیکن ، اِسے 1943 ء تا 1958 کے درمیانی عرصے میں کسی وقت لکھا ہو گا کیونکہ یہ اِس کتاب میں اُن 21حکایات و کہانیوں میں پانچویں نمبر پر ’‘Coscienza ‘‘ کے نام سے شامل ہے جو اِس عنوان تلے موجود ہیں ۔ کتاب میں موجود بقیہ تحاریر ’’ کہانیاں اور مکالمے 1968 – 1984‘‘ کے عنوان تلے ہیں۔ انگریزی میں اس مجموعے کا ترجمہ 1996 ء میں ”Numbers in the Dark and Other Stories “ کے نام سے سامنے آیا ۔ اسے برطانوی ادیب اور ترجمہ نگار Tim Parks نے انگریزی قالب میں ڈھالا تھا۔
اس افسانچے کے ترجمے کے لیے اصل اطالوی ٹیکسٹ سے مدد لی گئی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...