اٹل بہاری باجپایی : شردھانجلی اور کچھ یادیں
ساٹھ برسوں کی لمبی سیاسی پاری کھیلتے ہوئے ١٩٩٥ کے بعد وہ تین بار اقتدار میں اہے .پہلے صرف تیرہ دن ، پھر تیرہ ماہ پھر پانچ برس اور یہ پاری اس لئے یادگار رہی کہ جن سنگھ کے خوابوں کو وہ اقتدار کی کرسی تک لے اہے تھے ..یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اور جن سنگھ میں خدا واسطے کا بیر رہا . مجھے یاد ہے ، آج کی بی جے پی سے زیادہ خوف اس وقت مسلمانوں کو جن سنگھ سے لگتا تھا .١٩٥١ میں جن سنگھ بنی تو اٹل جی جن سنگھ کا خاص چہرہ بن کر ابھرے ..اور پھر ہندوستان کی سیاست میں وہ جگہ ان کو حاصل ہوئی ، جو بہت کم سیاسی لیڈروں کے حصّے میں آیی . وہ ارادے کے مضبوط اور فیصلہ لینے میں ماہر تھے .وہ چاہتے تو بی جے پی کے ساتھ ملک ہندوستان کا چہرہ بھی بدلنے کی طاقت رکھتے تھے مگر اصل سوال یہی ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر سکے ؟ جبکہ وہ کر سکتے تھے .کشمیر کے مسائل کو حل کرنے اور پاکستان سے دوستی کا رشتہ قایم کرنے میں وہ کانگریس سے چار قدم آگے چلے مگر کامیابی نہیں ملی .اور یہ بات آخر سفر تک ان کو اداس کرتی رہی کہ تمام کوششوں کے باوجود انھیں مقصد میں کامیابی نہیں ملی ..جب وہ حکومت میں اہے تو انکے ساتھ ایک بڑا تھنک ٹینک موجود تھا ..ارون شوری ، جسونت سنگھ ، یشونت سنہا یہاں تک کہ سیکولر مانے جانےوالے کیی بڑے لیڈروں کی حمایت بھی انکو حاصل تھی .آج ان میں سے کچھ سیکو لرزم کا دعوا کرتے ہوئے مودی کی مخالفت پر اتر اہے ہیں .. صرف پندرہ برس کی عمر میں آر ایس ایس جوائن کرنے والے اٹل جی کے اندر ہمیشہ سے ایک شاعر موجود رہا اور اس لئے وہ حزب اختلاف کی پسند بھی رھے . شاعر کی دنیا مختلف ہوتی ہے ، اس کے تصور میں عام انسانوں سے کہیں زیادہ ایک حسین دنیا تعمیر کرنے کا جنون ہوتا ہے ..پھر ہمارا یہ شاعر ہندوستان کو گلزار اور جمہوری اقدار کا پاسدار بنانے میں کہاں چوک گیا ..؟ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کی سیاست بی جے پی کو اقتدار تک لایی تھی . کیا یہ خوف تھا کہ اس راستے سے جمہور اور سیکولر راستے کو اختیار کیا تو حکومت چلی جاےگی ؟ آج وہ نہیں ہیں ، تو اچھی بری یادوں کے ساتھ کچھ اور باتیں ہیں جو ذہن میں اٹھ رہی ہیں . اور اس لئے اٹھ رہی ہیں کہ اٹل جی کویی معمولی انسان یا سیاست داں نہیں تھے ..وہ چاہتے تو فرقہ واریت کے بھنور سے ہندوستان کو نکال کر ، ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے ..اس لئے کچھ شکایتیں بھی ہیں ، جنکا اظہار ضروری سمجھتا ہوں ..
دو ہزار چار سے پہلے انڈیا شائننگ کا نعرہ ہندوستان کے عوام کو پسند نہیں آیا اور اٹل جی کی حکومت گر گیی اس سے قبل گودھرا کا خونی افسانہ لکھا جا چکا تھا .اس کی سکرپٹ جس نے بھی لکھی ہو ، مگر اٹل جی چاہتے تو یہ آگ روکی جا سکتی تھی .اس وقت نہ سونیا گاندھی نے ضمیر کی آواز کو سنا نہ اٹل جی نے ..اور گجرات جلتا رہا .سونیا گاندھی اپازیشن کا مضبوط چہرہ تھیں .وہ چاہتی تو گجرات جا کر دھرنے پر بیٹھ سکتی تھیں .مگر کانگریس یہاں ناکام رہی . چونکہ اس وقت کانگریس مضبوط اپازیشن کا نام تھا ، اس لئے اٹل جی ویسا کچھ نہیں کر سکے جو مودی نے کر دکھایا ..کوشش اس زمانے میں بھی کافی ہوئی .یہ حقیقت ہے کہ اٹل جی مودی کو گجرات بھیجنے کے خلاف تھے اور اڈوانی مودی کی حمایت میں تھے ..مودی وزیر اعظم بنے تو اڈوانی کو حاشیہ پر کر دیا .مگر اس بات سے واقف تھے کہ اٹل جی سے ناراضگی کے باوجود دشمنی بھاری پڑے گی ..اس لئے چار برس سے زاید کی حکومت میں کیی بار مودی نے اٹل جی کو یاد کر کے گھریالی آنسو بھی بہاے .اور اب مودی ، اٹل جی کی موت کو بھی ہمدردی لہر میں تبدیل کرنے اور ووٹ بینک کو مضبوط کرنے میں کویی کثر نہیں چھوڑیں گے .تاریخ گواہ ہے کہ مردے ، زندہ انسانوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتے ہیں .
٢٠٠٢ حکومت اٹل جی کے پاس تھی .پھر کیا وجہ ہے کہ گودھرا اور گجرات جلتا رہا اور حکومت سوتی رہی .؟ اس وقت پورا میڈیا نہیں بکا تھا لیکن بکنے کی شروعات ہو چکی تھی .رات ، پرائم ٹائم کے وقت عزیز برنی جیسے صحافیوں کو بیٹھا کر سر عام مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری ہوتے تھے ..اس وقت بھی کویی گنگا جمنی تھذیب نہیں رہ گیی تھی ، مسلمان کھل کر نشانے پر تھے .مرلی منوہر جوشی نصاب میں زعفرانی رنگ بھرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے . مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ بھی عام تھا .. فضاء آج جیسی نہیں تھی مگر فضاء میں بارود کی مہک شامل ہو چکی تھی . اس وقت میڈیا کے طاقتور لوگوں نے بی جے پی کے مقاصد پر پانی پھیر دیا .آج کم و بیش میڈیا مودی اور امت شاہ کے ہاتھ میں ہے . اپازیشن کمزور ہے .اور مودی نے ہندو راشٹر کے لئے تمام مہرے ایک ایک کر کے چل دیے ..لیکن یاد رکھیے ، اس فضاء کو تیار کرمیں اٹل جی اور اڈوانی کا بڑا ہاتھ رہا ہے .. پانچ جنیه اور راشٹر دھرم جیسے اخباروں کی ادارت سنبھالنے والا آر ایس ایس کیڈر کا سیاست داں سیکولر کیسے ہو سکتا ہے ..؟
رام جنم بھومی اور بابری مسجد سیاست کے ساتھ دو نام تیزی سے ابھرے . اڈوانی گرم دل کے لیڈر تھے . اس وقت ہندو اکثریت مکمل طور پر بی جے پی کے ساتھ نہیں تھی .اٹل جی کے کردار کو سیکولر مکھوٹا پہنانا ضروری تھا . عام اکثریت کو جیتنے کے لئے یہ کردار اس وقت ضروری تھا . اور اسی لئے اٹل جی رام جنم بھومی تحریک میں شامل نہیں ہوئے مگر جب ضرورت پڑی ، انہوں نے گرفتاری دي..اپنی حکومت کے دوران انہوں نے کبھی مسلمانوں یا دلت کی حمایت میں کویی فیصلہ کن بیان نہیں دیا . بابری مسجد شہادت کے بعد جب سپریم کورٹ سخت ہوا ، اس وقت اٹل جی نے جو بیان دیا ، وہ بھی بہت کمزور بیان تھا ..
انہوں نے کہا ..سپريم کورٹ کے فیصلے کا مطلب بتاتا ہوں کہ ہم کار سیوا کریں ، لیکن کار سوا سے کسی کے جذبات کو زخمی نہ کریں . بلکہ، کار سیوا کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حکم کا سمماں کریں یہ ٹھیک ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جب تک ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ فیصلہ نہیں کرتی، اس وقت تک تعمیر کا کام بند رکھیں گے، لیکن آپ بھجن کر سکتے ہیں، کیرتن کر سکتے ہیں اوربھجن ایک آدمی نہیں کر سکتا، اجتماعی ہوتا ہے. کیرتن کے لئے زیادہ لوگوں کی ضرورت ہوگی. کیرتن کھڑے رہ کر نہیں ہو سکتا، وہاں نوکیلے پتھر نکلے ہیں ان پر تو کوئی نہیں بیٹھ سکتا، تو زمین کو ہموار کرنا پڑے گا. یگیہ کا اہتمام کر نا ہوگا ، کچھ تعمیر بھی کرنا پڑ سکتا ہے .
اب آپ پہلے اس بیان کو غور سے دیکھئے .اشاروں اشاروں میں سب کہ دیا گیا ..تعمیر بھی کیجئے ..بھجن بھی کیجئے ..کیرتن کے لئے لوگوں کو بلوائیے ..زمین ہموار کیجئے ..وہ ایک سلجھے ہوئے دور اندیش سیاست داں تھے .وہ جانتے تھے ، کہ اپنے لوگوں کو کیسے سمجھانا ہے ..اور کیسے سیکولر ہونے کے بھرم کو قایم رکھنا ہے ..اپنی تقریر میں اٹل جی نے سمتل کا لفظ استعمال کیا ہے .زمین کو سمتل بنانے کا سیدھا مطلب ہے کہ بابری مسجد کا نام و نشان تک مٹ جائے . آدھا ادھورا میڈیا ، مضبوط حزب مخالف ، اور دو ناؤ پر سواری سے اٹل جی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے . مودی نے ان کی ہی سٹریٹیجی پر کام کیا اور نرم ہندوتو کی جگہ کٹھور ہندتو کو لاے جہاں سیکو لرزم کا کویی دکھاوا نہ تھا .مودی نے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ انکو مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے . اٹل جی کی اصلاح کرتے ہوئے مودی کا یہ وار کامیاب رہا اور اب ترنگا سے لے کر آیین کو جلانے ، گوڈسے کی مورتی اور مندر بنانے ، زعفرانی پرچم کو ترنگا کی جگہ دینے تک در اصل مودی اٹل جی کے ہی بتایے راستے پر چل رہے ہیں …زمین سمتل کر دو ..اجتماعیی جد و جہد کرو .منزل ملے گی ..یہی تو اٹل جی کا فرمان تھا ..
وہ جو کچھ لکھتے تھے ، اسے شاعری یا ادب نہیں کہا جا سکتا .وہ ان کے من کی بات ہوتی تھی . وہ نرم مودی تھے اور جانتے تھے کہ مضبوط اپازیشن اور میڈیا کے ہوتے ہوئے وہ کامیاب نہیں ہو سکتے . مودی نے اٹل جی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور شطرنج کا کھیل نہیں کھیلا بلکہ شطرنج ہی اپنے قبضے میں کر لیا ….اور اسی لئے مودی کا رتھ کامیابی سے دوڑا ، اٹل جی اور اڈوانی کا رتھ پیچھے رہ گیا …
ان باتوں کا تذکرہ اس لئے ضروری تھا ، کہ اٹل جی میں وہ چمک تھی کہ وہ نیا ہندوستان بنا سکتے تھے .وہ ساری عمر جنگ کے خلاف رہے .انہوں نے جنگ کے خلاف کویتا بھی لکھی .وہ اپنی کویتا میں ملک اور انسانیت کی باتیں کرتے تھے .ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا .اس لئے ان سے امیدیں وابستہ تھیں .موت سے دس برس قبل اچانک وہ لمبی خاموشی یا مراقبے میں چلے گئے .جسمانی موت اب ہوئی –ممکن ہے ، انھیں بھی خیال رہا ہو کہ وہ ہندوستان کی تصویر بدل سکتے تھے مگر نہیں بدل سکے …
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔