بھارت کے سابق وزیر اعظم اور شاعر اٹل بہاری واجپائی 93 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ویکیپیڈیا کے مطابق اٹل بہاری واجپائی کے دادا شری شیام لال واجپائی آگرہ کے مشہور گاؤں بٹیشور کے رہنے والے تھے اور وہ سنسکرت کے عالم فاضل تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور بٹیشور سے باہر گوالیار کی ریاست میں ملازمت کرنے کی صلاح دی۔ شری کرشن بہاری واجپائی نے گوالیار جاکر بطور استاد ملازمت شروع کردی اور وہاں شندے کی چھاؤنی میں رہنے لگے۔ وہاں ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں۔ جن میں اٹل بہاری واجپائی کا جنم کرسمس کے دن 25 دسمبر 1924 کو ہوا۔
اٹل بہاری واجپائی نے مقامی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گوالیار ہی میں وکٹوریہ کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد کانپور کے ڈی اے وی کالج سے پولیٹیکل سائنس میں فرسٹ کلاس میں پوسٹ گریجویشن کی تکمیل کی۔ اس کے بعد انہوں نے قانون پڑھنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اٹل بہاری واجپائی آغازِ جوان ہی سے سماجی سرگرمیوں میں مشغول رہنے لگے تھے۔ وہ شارٹایہ سویم سیوک سنگھ آر ایس ایس کے سرگرم کارکن تبھی رہے اور اسٹوڈنٹ یونین کے سکریٹری اور نا صدر بھی۔ انہوں نے 1942ء کی ”بھارت چھوڑو“ تحریک میں پرجوش حصہ لیا تھا۔ تحریک کی شدت کو دیکھ کر تحریک کے شرکا کو پکڑا جانے لگا اور اٹل بہاری واجپائی بھی گرفتار ہو گئے اور انھیں 24 دنوں کی قید بھگتنی پڑی۔
اٹل بہاری واجپائی دو مرتبہ بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ پہلی مرتبہ 16 مئی 1996ء سے یکم جون 1996ء یعنی 15 دن کے وزیر اعظم رہے۔ دوسری مرتبہ 19 مارچ 1998ء سے 22 مئی 2004ء تک وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ واجپائی بھارت کے صف اول کے سیاسی رہنما کے ساتھ وہ ہندی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ سیاسی مصروفیات میں بھی انہوں نے شاعری کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ واجپائی جنہیں اعتدال پسند قائد کہا جاتا تھا انہوں نے اپنی شاعری میں بھی اپنے ان جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اپنے طویل سیاسی سفر میں واجپائی نے وقت کے ہر سلگتے مسئلے پر نظمیں کہی ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی کا شمار ان لیڈرز میں ہوتا تھا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی ختم کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں وہ دو بار پاکستان کا دورہ بھی کرچکے تھے انہوں نے اپنی 92ویں سالگرہ کے موقع پر کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر بس میں بیٹھ کر لاہور کی یاترا کو جائیں کیونکہ میں ابتک لاہور یاترا کے سحر میں گم رہتا ہوں۔
واجپائی کا نمونہ کلام
جنگ نہ ہونے دیں گے
ہم جنگ نہ ہونے دیں گے
وشوشانتی کے ہم سادھک ہیں جنگ نہ ہونے دیں گے
کبھی نہ کھیتوں میں پھر خونی کھاد پھلے گی
کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھلے گی
آسمان پھر کبھی نہ انگارے اگلے گا
ایٹم سے ناگاساکی پھر نہیں جلے گا
ہتھیاروں کے ڈھیروں پر جن کا ہے ڈیرا
منہ میں شانتی بغل میں بم، دھوکے کا پھیرا
کفن بیچنے والوں سے یہ کہہ دو چلا کر
دنیا جان گئی ہے ان کا اصلی چہرا
کامیاب ہوں ان کی چالیں ڈھنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
ہمیں چاہیے شانتی، زندگی ہم کو پیاری
ہمیں چاہیے شانتی سرجن کی ہے تیاری
ہم نے چھیڑی جنگ بھوک سے بیماری سے
آگے آکر ہاتھ بٹائے دنیا ساری
ہری بھری دھرتی کو خونی رنگ نہ لینے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
بھارت پاکستان پڑوسی ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بار لڑ چکے لڑائی کتنا مہنگا سودا
روسی بم ہو یا امریکی، خون ایک بہنا ہے
جو ہم پر گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
………………………………………………………………
جو کل تھے وہ آج نہیں ہیں
جو آج ہیں وہ کل نہیں ہونگے
ہونے نہ ہونے کا کام
اسی طرح چلتا رہے گا
ہم ہیں ، ہم رہینگے
یہ بھرم بھی یونہی پلتا رہے گا
الوداع اٹل بہاری واجپائی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔