ساحری، ساحری کا توڑ، استخارے اور بہت کچھ اور بھی الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے کہ سارا مسئلہ ریٹنگ کا ہے اور یہ موضوعات ایسے ہیں جو ریٹنگ کو یوں اوپر اٹھاتے ہیں جیسے پٹرول آگ کو۔ اخباری صفحات میں بھی روحانی شخصیات کا ذکر زوروں پر ہے۔ زیادہ تذکرے پیش گوئیوں کے ہوتے ہیں۔
اس میں اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ برصغیر میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرانسیسی ڈاکٹر فرانکوئس برنئیر جو شاہ جہان اور اورنگ زیب کے درباروں میں بارہ سال رہا اور پورا برصغیر گھوما، لکھتا ہے کہ ہندوستان کے بادشاہ، امرا اور عوام ہر مسئلے میں نجومیوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ جنگ شروع کرتے وقت، سپہ سالار کی تعیناتی کرتے وقت، شادی کی تاریخ اور سفر کا وقت طے کرتے وقت، ہر موقع پر ”نیک ساعت“ کا دریافت کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ غلام خریدتے وقت اور نئی پوشاک پہنتے وقت بھی ساعت کا التزام کیا جاتا ہے۔
ہم جیسے ”محروم“ اور " گستاخ '' طالب علموں نے الیکٹرانک میڈیا اور اخباری کالموں میں روحانی شخصیات کےان روز افزوں تذکروں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ لیکن اور تو اور میرے محترم دوست اور بہت ہی سینئر کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی نے بھی گذشتہ ہفتے اس روحانیت کی سرپرستی شروع کر دی ہے۔ اس پر صدمہ اس لئے ہوا کہ قاسمی صاحب کے بزرگوں کا تعلق علماءحق کے جس مکتب فکر سے رہا ہے، اس مکتب فکر نے انہی واہموں اور وسوسوں کےخلاف تو جہاد کیا تھا۔ ان علماءکرام نے دار و رسن اور قید و بند کو لبیک کہا لیکن اس موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے کہ روحانیت اور تصوف جو کچھ بھی ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے سوا کچھ نہیں
بہ مصطفی ا ، برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
اس مکتب فکر نے ایک طویل جدوجہد کے بعد عوام الناس کو زائچوں، ساعتوں، پیش گوئیوں اور اس قسم کے آلاتِ شرک سے نکالا اور سورة لقمان کی اس آیت (”کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کرےگا“) کے حوالے سے سمجھایا کہ جسے خود اپنا معلوم نہیں، وہ دوسروں کے مستقبل کا کیا بتائے گا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جناب عطاالحق قاسمی سے میرا نیاز مندی کا تعلق کئی عشروں پر محیط ہے، اس نابکار کی شاعری کی انہوں نے ہمیشہ کمال فیاضی سے حوصلہ افزائی کی۔ وہ ایک طویل عرصہ نوائے وقت کے ادبی صفحہ کے انچارج رہے بلکہ اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو اخبارات میں ادبی صفحے کا آغاز نوائے وقت ہی سے ہوا تھا اور قاسمی صاحب نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس سارے عرصے میں میری شاعری کو اس صفحے پر شائع ہوتے رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہاں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی نامناسب نہ ہو گا۔ نوّے کے عشرے کا آغاز تھا۔ میں نے ایک نیم سیاسی اور نیم صحافتی لیکن غایت درجہ شاطرانہ شخصیت کے حق میں ایک کالم لکھ دیا۔ یقیناً یہ ایک کمزور لمحہ تھا جس میں مَیں نے یہ کام کیا۔ اس شام وہ شخصیت اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمارے گھر بھی آئی۔ یار لوگوں نے منہ پر تعریف کی اور پیٹھ پیچھے درگت بنائی کہ اب یہ ضرور کوئی کام کرائے گا کیونکہ وہ شخصیت وزیراعظم کی دستِ راست تھی۔ کام تو کرانے کی نیت ہی نہیں تھی، ہاں منہ چھپاتے پھرے۔ نام نہاد کالم نگاری کے پورے کیرئر میں یہ واحد کالم ہے جس پر آج بھی تاسف ہے۔ قاسمی صاحب واحد سینئر صحافی تھے جنہوں نے پیٹھ پیچھے کچھ کہنے کے بجائے، بڑے بھائی کی طرح سمجھایا۔ ان کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولا ”کوئی اور یہ کام کرتا تو کرتا، کم از کم تمہیں زیب نہیں دیتا تھا۔“ اس تعلق کے باوصف اگر میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو وجہ ظاہر ہے کہ صدمہ زیادہ ہے۔
روحانیت کے حوالے سے کچھ اصولی باتیں یہ ہیں :
اوّل ۔ روحانیت کا دعویٰ کرنےوالوں کے کمالات سے انکار کوئی بھی نہیں کرتا اس لیے کہ ماضی کے واقعات ڈھونڈ لانا اور بسااوقات درست پیش گوئیاں کرنا، حقائق سے ثابت ہے۔ لیکن قاسمی صاحب نے خود یہ کہہ کر کہ ”علم صرف وہ ہے جو نافع بھی ہے“ مسئلے کو حل کر دیا۔ اگر کوئی صاحب اپنے کمال فن سے یا روحانیت سے یا پُراسرار علوم سے میرا ماضی مجھے بتاتے ہیں تو مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو اپنا ماضی پہلے ہی معلوم ہے، رہا میرے مستقبل کے بارے میں درست پیش گوئی تو یہ اگر میرے لیے مفید ہوتی تو جس پروردگار نے انسان کو اعلیٰ ترین صلاحیتیں دیں، مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بھی دے سکتا تھا لیکن اس کا مجھے فائدہ نہیں، نقصان ہے۔ فرض کریں مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میں کسی ہسپتال میں مروں گا تو اسکا جو اثر میری زندگی پر پڑےگا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں عزیز ترین ہستیوں کو دیکھنے کےلئے بھی کسی ہسپتال میں جانے سے گریز کروں گا اور اگر مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میری قسمت میں کامیابی یا بیرون ملک کا سفر نہیں ہے تو میں اُسی وقت سے دل شکستہ ہو کر، ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائوں گا۔ میرے مستقبل کا علم کسی کو ہے تو میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن میرے لیے یہ علم ہرگزنافع نہیں۔
دوم ۔ اس فن کا اسلام یا اسلامی تصوف سے کوئی تعلق نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم بھی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور درست کرتے ہیں، ہندوئوں نے ماضی میں جھانکنے کے فن کو کمال تک پہنچا دیا ہے۔ سبزواری صاحب بہت مشہور سول سرونٹ گزرے ہیں، انہیں اور انکے ایک بنگالی رفیق کار کو لندن کے ایک عیسائی گورے نے انکے مستقبل کے بارے میں باتیں بتائیں۔ بنگالی افسر نے اپنی موت کی جگہ جاننے پر اصرار کیا، گورے نے مغربی پاکستان کے ایک شہر کا نام بتایا، وہ بنگالی ٹھیک اسی شہر میں دنیا سے رخصت ہوا۔
سوم ۔ جن ہستیوں کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ مستجاب الدعوات ہوتی ہیں، وہ اپنی تشہیر کبھی نہیں کرتیں، انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے جو آسان نہیں ہوتا۔ احسان دانش صاحب کو ایک مستجاب الدعوات ہستی کا علم تھا۔ ایک صاحب کے اصرار پر لے گئے۔ اندرون لاہور کی پُرپیچ گلیوں میں سے گذر کر وہ اُس شخصیت کے پاس پہنچے- وہ بزرگ موچی تھے اور جوتے گانٹھ رہے تھے۔ ایسی ہستیاں تشہیر سے مکمل گریز کرتی ہیں اور ایسے اکلِ حلال کا التزام کرتی ہیں جس میں کسی بے احتیاطی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ اب اگر یہ فیصلہ ہمارے اینکر حضرات نے کرنا ہے کہ کون سی شخصیت روحانی ہے تو ہو چکا کام ۔
گر ہمیں مکتب و ملّا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ کسی صاحب نے اپنے گھر کے باہر" ادارہء ترقیاتِ روحانیات“ کا بورڈ لگا دیا اور اسکی تشہیر حضرت بہاءالحق قاسمیؒ کے فرزند کر رہے ہوں!
چہارم ۔ کائنات میں منفی اور ابلیسی قوتیں بھی کارفرما ہیں۔ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ شیاطین غیب کی خبریں لینے آسمانوں کا رُخ کرتے ہیں اور ستارے انہیں بھگاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ کہیں جا رہے تھے کہ اچانک آسمان روشنی سے بھر گیا، آواز آئی کہ جو کچھ اسلام میں منع ہے، تمہارے لیے تمہارے رب نے حلال کر دیا ہے۔ آپؒ شیطان کو پہچان گئے اور دھتکار دیا۔ پھر آسمان تاریک ہو گیا۔ اب ایک اور آواز آئی کہ میں نے اس طریقے سے ستر اولیاءاللہ کو گمراہ کیا لیکن اے عبدالقادر! تمہارے تقویٰ نے تمہیں بچا لیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ایک اور حملہ کر رہے ہو، مجھے میرے تقویٰ نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے بچایا ہے۔ سو ”غیبی آوازیں“ اگر بغداد میں آ سکتی ہیں تو دنیا کے کسی شہر میں بھی آ سکتی ہیں۔
پنجم ۔ یہ درست ہے کہ داڑھی کفر اور اسلام کا معیار نہیں لیکن بہرطور داڑھی شعائر اسلام میں سے ہے۔ بدقسمتی سے آج کل کی روحانی شخصیات کے بے ریش ہونے کو ایک مثبت پہلو کے طور پر اچھالا جاتا ہے جو کسی طور بھی مستحسن نہیں۔
رہا ہزاروں پریشان حال لوگوں کا جمع ہو جانا تو یہ ہماری قومی نفسیات کا حصہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے اور بیٹھے بٹھائے کام ہو جائیں۔ ”پیر سپاہی“ اور اسکے لاکھوں وارفتگان کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ تلہ گنگ کے ایک گائوں میں دیگیں پکانے والے نے جس تکنیک سے دنیا بھر سے لاکھوں لوگ جمع کیے، وہ تو حال ہی کا واقعہ ہے۔
کھرا اور کھوٹا، سفید اور سیاہ، باہم آمیز ہو چکے ہیں۔ صرف محمد عربی کی تعلیمات کھرے کو کھوٹے سے اور سفید کو سیاہ سے الگ کرنے میں مدد دے سکتی ہیں…. ع
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
http://columns.izharulhaq.net/2012_08_01_archive.html
“