فلکیات کی تحقیق سستی نہیں۔ اس پر کتنا زیادہ خرچ آتا ہے، اس کا اندازہ صرف اس چیز سے لگا لیں کہ صرف جیمز ویب ٹیلی سکوپ پروگرام پر آٹھ ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئی ہے۔ کیا یہ سب صرف ذہنی عیاشی ہے؟ اس کا ایک پہلو تو بالکل سادہ ہے کہ اس کا تعلق انسان کی کائنات کے راز نہاں کرنے کی فطری جستجو سے ہے۔ ہم اس علم میں کتنا آگے بڑھ چکے ہیں، اس کے لئے ایک نظر ماضی میں۔
آج سے کچھ صدیاں قبل فلکیات کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب زکریا قزوینی کی لکھی ہوئی "عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات" تھی۔ اس کی شہرت کی وجہ سے یہ کتاب عربی کے علاوہ فارسی، اطالوی اور ترک زبان میں بھی ترجمہ کی گئی۔ اس کا کاسموگرافی ماڈل یہ تھا۔
"زمین چپٹی ہے اور پہاڑوں کے سلسلے سے گھری ہوئی ہے جسے کوہِ قاف کہتے ہیں۔ کوہِ قاف پر زندگی کی نرالی ترتیب موجود ہے۔ اس کے پہاڑ میخوں کا کام کرتے ہیں۔ آسمان کو اللہ نیچے نہیں گرنے دیتا۔ زمین کو ایک بیل نے اٹھایا ہوا ہے جو بھموت پر کھڑا ہے۔ بھموت ایک بڑی مچھلی ہے۔ یہ کائناتی سمندر میں ہے اور وہ سمندر ایک پیالے میں۔ اس پیالے کو ایک جن نے اٹھا رکھا ہے۔" قزوینی نے اس ماڈل کی ڈایاگرام بھی کتاب میں شامل کی ہے۔
انسانی علم کتنا آگے بڑھ گیا کا اندازہ آپ اپنی آج کی سمجھ سے اس کا موازنہ کر کے لگا سکتے ہیں۔
جب کچھ جانا جاتا ہے تو اس سے ضمنی فائدے بھی نکل آتے ہیں۔ آسمانوں میں تانک جھانک کرنے سے نکلنے والے چند عملی فوائد۔
1۔ آپ کے موبائل فون کا کیمرہ چارجڈ کپل ڈیوائس ہے۔ یہ آسمان کو دیکھنے والی ٹیکنالوجی سے نکلی ہے۔
2۔ مائع کی خصوصیات کی سمولیشن۔ جو طریقے اور مساواتیں کہکشاوں اور ستاروں کو سمجھنے کے لئے بنائی گئیں، وہی اب مائع کی ڈائنامک سمجھنے پر لاگو ہیں اور ان کا استعمال تیل اور گیس کی انڈسٹری میں کیا جاتا ہے۔
3۔ ائیر پورٹ پر ایکسرے سکینر۔ خلا میں دور سے آنے والی کہکشاوں سے آنے والے فوٹون بہت کمزور سگنل رکھتے ہیں۔ اس کے لئے ایکسرے ڈیٹیکٹر بنائے گئے تھے جو کمزور سگنل سے معلومات لے سکیں۔ اب یہی ٹیکنالوجی ہوائی اڈوں پر استعمال ہوتی ہے۔
4۔ سٹیلتھ طیاروں میں ریڈار۔ سپیس ٹائم میں ہونے والی تبدیلیوں کو پہچاننا نہایت مشکل کام ہے۔ اس کے لئے بننے والی ٹیکنالوجی دفاعی صنعت کو لائسنس کی گئی۔
5۔ کلاوڈ کمپیوٹنگ۔ خلائی مخلوق کی تلاش کا پروگرام سیٹی ایٹ ہوم بکھرے کمپیوٹرز پر چلنے والا پہلا اہم پروگرام تھا۔ اب یہ کمپیوٹنگ کا سب سے مشہور ماڈل ہے۔
6۔ جی پی ایس۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو کاسمولوجی کے علم کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔ ایک پہلو جس سے شاید کم لوگ واقف ہوں ، وہ یہ کے اس کا ریفرنس فریم کے لئے تین ہزار کواسار کی جگہ کو دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔ کواسار ہماری کائنات کے سب سے روشن اجسام ہیں جو زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں۔
7۔ اگر آپ ان الفاظ کو وائی فائی نیٹ ورک پر پڑھ رہے ہیں تو اس کی ابتدا ریڈیو ٹیلی سکوپ کے سگنل کے تجزیے سے ہوئی تھی۔
خالص سائنس کا عملی سائنس میں بدل کب ہو کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن اگر آگے کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو کئی سوالات ہیں۔ کیا گرم ہوتے ہوئے کرے کو روکا جا سکتا ہے یا اس کے اثرات سے زندگی کو بچایا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی بھاری جسم زمین کی طرف آ رہا ہو تو اس کا راستہ بدلا جا سکے گا؟ ضدِ مادہ کیا ہماری مستقبل کی توانائی کی ضروریات کا حل ہے؟ کیا سورج کی شعاعوں کو خلا میں ہی مفید توانائی میں بدلا جا سکے گا؟ کیا فاسفورس اور کچھ دیگر عناضر کے مستقبل میں نظر آنے والے بحران کا حل شہابیوں کی کان کنی سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہ سب اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ممکن ہے مگر اصل چیز ہماری ذہنی تشنگی ہے جو کہ اسے ہر وقت ہمیں نئی حقیقتوں کی کھوج میں مصروف رکھتی ہے۔