۔۔۔ اصرار کیوں؟
نیکی کے کرنے کے کام اور بھی انگنت ہیں ۔ یہی نیک کام اتنا دلپسند کیوں ہے ۔
آپ بےسہارا کنواری غریب بہن بیٹیوں کی شادی میں مالی مدد فرما دیجیے ۔ بیواؤں کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑنے دیں ۔ یتیم کی تعلیم منقطع نہ ہونے دیں ۔ آپ کی بیوی بھی آپ کے ساتھ آپ سے بڑھ چڑھ کر ان تمام نیکیوں میں شریک ہو گی ۔ ۔ ۔اس سب کے لیے پہلی بیوی سے قربانی دینے کا کیوں کہا جائے ۔ نکاح ہی کر کے نیکی کرنے پر اصرار کا مطلب ، نیکی کے بدلے کچھ حاصل بھی تو ہو کی خواہش ہے ۔
پہلے سے موجود بیوی بچوں کی دلآزاری سے بچنا بھی نیکی ہی ہے ۔ کسی سے کہنا کہ تمہاری ساری جوانی تو میں نے استعمال کر لی اب بڑھاپے میں نیکی کی نیت سے
"دوسری جوانی" کو سہارا دینے کی اجازت دے دو ۔ اور تم "ریٹائرمنٹ" لے کے" پنشن" لے لو تاکہ "اصل زر " نئی جوان بےسہارا بیوی کے سہارے کے لیے استعمال کیا جا سکے ۔
بوڑھے خاوند کی نئی بےسہارا جوان بیوی کو بھی اس خاوند کے بڑھاپے کو برداشت کرنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہو گا ۔ سو وہ سہارا دولت یا حکمت سے میسر کیا جائے گا ۔
چند روز بعد کبھی کی بےسہارا اور حال کی پاورفل بیگم پرانی بیگم کو فارغ خطی لکھوائیں گی ۔ جن یتیم بچوں کو سہارا دینے کے شوق میں صاحب نئی بیگم گھر لائے تھے وہی بیگم بچے صاحب کی پہلی اولاد کے در در رلنے کا باعث ہونگے اور اس دفعہ پرانی بیگم اور باپ کے ہوتے سوتے بھی یتیموں والی زندگی گزارنے والے صاحب کے بچوں کا بھی کوئی اور بوڑھا صاحب دل یا صاحب شوق سہارا بن جائے گا ۔
سو نیکی کرتے ہوئے یاد رکھیے "اول خویش بعد درویش "
ایسا نہ ہو کہ اس نیکی کا شوق آپ کو دریا میں چھلانگ لگانے پر مجبور کر دے
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
تصویر بشکریہ محترم اقبال دیوان صاحب
اسی سلسلے کی اگلی پوسٹ دیکھنے کے لیے لنک کلک کیجیے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔