فرانسیسی قیاسی افسانچہ (فلیش فکشن )
فالج ( Asphyxie )
کلاڈ ایکن
اچھا ہوا، یہ اختتام کو پہنچا ، تم اب باہر ہو اور محفوظ ہو ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا ۔ میں جان ہی نہیں پایا تھا کہ تمہارے اندر کیا گھس گیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے تمہیں معلوم ہی نہ ہو کہ ہم کس قسم کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ یہ یقینی طور پر ان دنیاﺅں میں سے ایک نہیں جو اُن ’ سائی فائی‘ ناولوں میں پائی جاتی ہیں ، جن میں تم ہمیشہ گم رہتے ہو ۔ ۔ ۔ تمہیں اس بات کا پتہ ہے نا ۔ ۔ ۔ ہے نا ؟ تم بارہ سال کے ہو ۔ تمہیں دوسرے لوگوں کو ذرا بہتر طور پر جاننا چاہیے ، سماج اور اپنے اردگرد کی ہر شے کو بہتر طورسمجھنا چاہیے ۔ تم اس طرح بالغ نہیں ہو پاﺅ گے ۔ بلوغت کا یہ عمل چٹکی بجانے کا عمل نہیں ہے یا یہ کہ تم عمر کے لحاظ سے اٹھارہ سال کے ہو گئے ہو۔ یہ ایک طویل راستہ ہے اور تمہیں اس کے بارے میں ابھی سے سوچنا ہو گا ۔ یہ خاصا کٹھن کام ہے ، سکول میں جہاں بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے ویسے ہی گلیوں اور بازاروں میں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور ہاں ، گھر پر بھی سکھلائی کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے ۔ لیکن اگر تم مجھ سے پوچھو گے تو میں یہ کہوں گا کہ تم اس نکتے سے بہت پیچھے ہو جہاں پہنچ کر بندے کو احساس ہوتا ہے کہ ہم وہ سب کچھ نہیں کر سکتے ، جو ہم کرنا چاہتے ہیں ، ہم جب وقت چاہیں من مانی کر لیں ، ایسا بھی نہیں ہوتا ۔ ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک سماج میں رہتے ہیں ۔ ہمیں ان کی بھی اسی طرح عزت کرنا پڑتی ہے جیسے ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کی کرتے ہیں جو ہمارا مشترکہ ہے ۔ میں یہ بات اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ تم سارا راستہ مجھ پر چِلاتے آئے ہو۔ ۔ ۔ جیسے ہم دو ہی سڑک پر اور گلی میں موجود ہوں جبکہ وہاں موجود ہر کسی ۔ ۔ ۔ ہمسایوں ، راہ چلتے لوگوں ۔ ۔ ۔ کو تمہارا شور برداشت کرنا پڑا ہے ۔ لگتا ہے کہ تم نے ابھی بھی سبق نہیں سیکھا ۔ تم جانتے ہونا ؟ کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ مجھے تم سے خوف آتاہے ، کیونکہ میں ، تمہیں مصیبت سے بچانے کے لئے ہمیشہ موجود نہیں ہوں گا ۔ بلکہ کچھ ایسا ہے کہ تم نے ہمیں ۔ ۔ ۔ مجھے اور اپنی ماں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
مجھے معلوم نہیں کہ جب تم زور زور سے ہنس رہے تھے تو تمہارے ذہن میں کیا چل رہا تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے مجھے ہزار بار بتا رکھا ہے کہ کریم نے تمہیں کوئی لطیفہ سنایا تھا ۔ وہ بھی کوئی زیادہ محتاط بچہ نہیں ہے ۔ مجھ سے پوچھو ، تو ، تم دونوں ایک دوسرے پر برااثر ڈال رہے ہو ۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ تمہارا دوست ہے اور یہ بھی کہ تم دونوں غلط کاموں میں پڑے ہوئے ہو ۔ دیکھو ، میں یہ سب سمجھتا ہوں ۔ یہ تمہاری اچھائی ہے کہ تم اس وقت بھی اس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہے جب تمہاری کلاس کے نصف سے بچوں نے اس سے تعلقات توڑ لئے تھے ، اس وقت ، جب اس کے ماں باپ کو ویزا کی تجدید کرانے میں مشکلات پیش آئی تھیں ۔ ایسے لہجے میں بات کرنا مناسب نہیں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ ان میں گُھلنا مِلنا نہیں چاہتے ۔ دیکھو ! چیزیں کتنی تیزی سے بدلتی ہیں ۔ لیکن جب تک وہ ایسا ’ یونیورسل مترجم ‘ ایجاد نہیں کر لیتے کہ ہم اجنبیوں ( ایلینز) کے کہے کو سمجھ سکیں ۔ کریم کے لئے بھی سب کچھ اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہر ایک کے لئے ہے ، اور اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔ بسا اوقات ، تم سکول ’ پراجیکٹس‘ سے بازاری بولی اٹھا لیتے ہو ، گلیوں سے ایسے الفاظ چُن کر بولتے ہو جو تمہیں ایسی کوٹھری میں بند کر دیتا ہے جہاں ’ خطرہ ہی خطرہ ‘ ہے ۔ اور تمہیں پتہ ہے؟ تم ’ خطرے میں گھِرے جوان‘ بنتے جا رہے ہو ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں نا ، خطرے کے بغیرجوانی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ کمسن مجرم ۔ ۔ ۔ چنانچہ اس پر دھیان کرو۔ وہ اگلے روز ایک ٹیلی دستاویزی فلم میں دکھا رہے تھے کہ وہ کیسے سب کو ، ایک نکتے پر لے آئے تھے کہ ا یک زبان بولیں ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر وہ سکولوں ، کام کی جگہوں اور سرکاری اداروں میں مختلف بولیوں پر پابندی نہ لگاتے تو ہم اپنے ہمسایے کی بات بھی نہ سمجھ پاتے ؛ بلکہ پورے ملک میں اس سے بھی کہیں بڑا جھگڑا اورتضاد کھڑا ہو جاتا ! نہیں ، تم ٹھیک کہتے ہو ، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کریم کو یہ کہہ کر دور دھکیلا جائے کہ وہ اپنا تلفظ درست کرے ، تمہیں اس کی مدد کرنی چاہیے ، بجائے اس کے کہ تم اس کے ساتھ ہی بہے چلے جاﺅ ۔
ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ لطیفہ شروع کرتا ، تمہیں اپنے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھ لینا چاہیے تھا ۔ یقینی بات ہے کہ سکول میں آدھی چھٹی کے وقت بہت سے بچے ہوتے ہیں اور خاصا غل غپاڑہ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اسی کارن تم نے سوچا ہو گا کہ شور و غُل کی وجہ سے کوئی دھیان نہیں دے گا ، لیکن جب اردگرد ہجوم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ وہیں ہی تو اہم ہوتا ہے کہ بندہ زیادہ محتاط رہے ۔ تمہیں اس مفلوج کے سامنے نہیں ہنسنا چاہیے تھا ۔ اچھا تو تم نے اسے اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا ، لیکن یہ کوئی عذر نہیں ہے ۔ ایسے ہی جیسے بس میں کسی کے پاﺅں پر تمہارا پاﺅں اتفاقاً آ جائے ۔ ہمیں لوگوں کا دھیان کرنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر کچھ بھی اہم نہیں ہوتا۔ رہی بات تمہارے اس بیانیے کی ، کہ تم اجنبیوں (ایلینز) سے پہلی بار کیونکر ملے ۔ ۔ ۔ وہ ہمیشہ چھوٹی بات سے آغاز کرتے ہیں ۔ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ اس کا لطیفہ مزاحیہ تھا یا نہیں ۔ کریم کے پاس یہ ایک اچھا بہانہ تھا ۔ تمہیں صرف یہ کرنا چاہیے تھا کہ تم اسے انتظار کرنے کو کہتے ، ایک منٹ توقف کرنے کا بولتے یا پھر تم اسے چُپ رہنے کے لئے بھی کہہ سکتے تھے؛ '' نہیں ، میں نہیں سننا چاہتا ، کم از کم یہاں نہیں اور اس وقت نہیں ۔ اس وقت تک انتظار کرو جب تک ہم گھر نہیں پہنچ جاتے اور جب تک میرا موڈ بہتر نہیں ہو جاتا ۔ '' ظاہر ہے کہ ایسا جلدی نہیں ہونے والا تھا ، جس کے کارن مجھے ، تمہاری خاطر اس سب سے گزرنا پڑا ہے ۔
تمہیں معلوم ہے ، انہوں نے پولیس سٹیشن پر ساری فائلوں کی پڑتال کی کہ یہ دیکھ سکیں کہ ان کے پاس ہمارا پہلے سے کوئی ریکارڈ تو موجود نہیں ۔ اور تمہیں اندازہ ہے کہ انہوں نے کیا ڈھونڈ نکالا ؟ وہ ’ ویب سائٹ ‘ جس پر ’ ڈسِ انفارمیشن‘ پھیلانے کے الزامات تھے ، وہی ویب سائٹ جس پر جانے سے ہم نے تمہیں منع کیا تھا کہ یہ افواہیں پھیلاتی ہے ۔ گو ، وہ یہ الزامات کبھی ثابت نہیں کر سکے ، کیونکہ وہ اپنی معلومات ایک آفیشیل سائٹ ۔ ۔ ۔ ایک سرکاری سائٹ ۔ ۔ ۔ سے اٹھاتے تھے ، گو وہ سرکاری سائٹ اطلاعات کے افشا ء ہونے پر ان کی تردید بھی کر دیتی ۔ ہاں یہ وہی ویب سائٹ ہے جس پر تم تین سال پہلے گئے تھے اور تمہیں اندازہ بھی نہ تھا کہ تم کیا کر رہے تھے ۔ اسی وجہ سے ہمارے گھر چھاپہ پڑا تھا اور ہماری ساری ’ ہارڈ ڈِسکیں ‘ ضبط کر لی گئی تھیں ۔ وہ ان کی تین ہفتوں تک پڑتال کرتے رہے تھے ۔ عام طور پر یہ معاملہ ہمارے ریکارڈ پر نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس قسم کے معاملات پر’ حدود کا قانون ‘ لاگو ہوتا ہے ، لیکن لگتا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے اور قانون بار بار توڑنے پر دورگہرائی تک پڑتال کر سکتے ہیں ۔ یہ کبھی ختم نہیں کیا جاتا ، کہیں نہ کہیں محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ ویسے بھی اگر وہ ایسا ریکارڈ رکھنے کے مجاز نہیں ، پھر بھی ، میں ، انہیں اس سے کیسے باز رکھ سکتا ہوں ؟ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا ان پر بس چلتا ہے کہ انہیں فائلوں میں ایسی باتیں محفوظ رکھنے سے روک سکیں جن کو استعمال کرکے وہ ہمیں داغدار کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ مجھے، تمہیں دوسرے دو جرم یاد کرانے کی ضرورت نہیں ہے ، یا ہے ؟ یہ ’ سموگ ٹیسٹ ‘ پاس نہ کرنے پر جرمانہ بھرنے والی بات نہیں ہے ۔ نہیں ، یہ تمہارا موبائل فون ہے ۔ تمہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ کسی دوسرے کو یہ استعمال کے لئے نہیں دینا چاہیے ، چاہے وہ تمہارا دوست ہی کیوں نہ ہو اور تم اس کی مدد کرنا چاہ رہے ہو ۔ اچھی بات صرف یہ تھی کہ تمہارا دوست یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے چچا کا فون ٹیپ ہو رہا تھا کیونکہ وہ ’ بلیک لسٹڈ ‘ بدیسی ملکوں کے لوگوں سے لین دین کرتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ایسا انہی جگہوں سے متعلق تھا اور یہ لوگ فرانس میں اتنا عرصہ نہیں رہ پائے تھے کہ انہیں قابل اعتماد گردانا جاتا ۔ لیکن تم نے اس بارے میں بھی کچھ خیال نہ کیا ۔ یہ جو تمہاری کتابیں ہیں نا ، جن میں تم یہ پڑھ کر حیران ہوتے ہو کہ وہ کیسے فوراً سیاروں کے درمیان ، جو کئی ’ روشنی کے سالوں ‘ کی دوری پر ہیں ، رابطہ کر لیتے ہیں ؟ اور تم کبھی دھیان نہیں دیتے کہ یہ رابطے باضابطہ ہیں یا کہ غیر محفوظ ۔ تمہارے دوست کا خاندان ، زیادہ سنجیدہ وجوہات کی بِنا پر زیر نگرانی رہا ہو گا اور یہ حقیقت کہ تم نے اپنا موبائل فون ایسے لوگوں کو استعمال کرنے دیا ، جن کی ’ لائنیں ‘ ٹیپ ہو رہی تھیں ، یہ کیا اس بات کی تاویل نہیں ہے کہ تم ان کے ’ رابطے کی سرگرمیوں ‘ میں خفیہ طور پر ان کے مدد گار اور شریک جرم ہو جو شاید کچھ جانتا بھی نہ ہو گا ۔ یہ ساری بات میں نے اس لئے کی ہے کہ ایک بار پھر ، سٹیشن پر مجھے ایک بھاری بھرکم فائل کاسامنا کرنا پڑا۔ ۔ ۔ گو یہ کوئی زیادہ تشویش ناک نہ تھی لیکن یہ بات ہمیشہ عجیب احساس دلاتی ہے جب وہ اس جگہ پر بندے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ ایک سپاہی تو اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ میں نے ویب سائٹس بنانے والی ایک ’ ایپ ‘ حال ہی میں کیوں خریدی ؟ وہ مجھ سے جاننا چاہتا تھا کہ اس کے استعمال کے حوالے سے میرے عزائم کیا تھے ۔ خوش قسمتی تھی کہ میرے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تھا ۔
پولیس افسر نے مجھے بتایا تھا کہ جب تم اپنی پیشی کے انتظار میں ’ حوالات‘ میں تھے تو تمہارا رویہ بہتر تھا ۔ تم نے ، کم از کم ، یہ تو اچھا کیا ۔ اور وہیل چئیر میں بیٹھے بچے کے خاندان نے بھی الزامات پر کچھ زیادہ زور نہیں دیا ۔ یہ مت سوچنا کہ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ تم دونوں سکول کے صحن میں روز ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے یا یہ کہ ان کے بیٹے نے تمہاری ہنسی نہیں سُنی تھی اور اس لئے انہوں نے مقدمہ کھڑا نہیں کیا تھا ۔ تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ والدین اگر نسلی امتیاز کی ہلکی سی بُو بھی سونگھ لیں تو وہ ہرجانے بمعہ سود کا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں ۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے ، لیکن بعض اوقات ایسا ہی ہوتا ہے ، جب لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں یا پھر بس لالچ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اب باہر ایسے لوگ نہیں رہے جو زیادہ سمجھ داری او رواداری سے کام لیں ۔ اس بار اُنہیں موقع ملا تھا کہ مال بنا سکیں : سکول کی گشت پر دو پولیس افسر آئے تھے نا ، اور انہوں نے تمہیں یہ کہا تھا کہ دوسروں کی معذوریوں کا مذاق نہیں اڑاتے ۔ آپ جو مرضی کرو لیکن اتنا تو یاد رکھو ؛ کالی وردی میں کوئی آئے ، چاہے وہ ’ بلی کلب‘ کا ہو یا نہ ہو اور تم سے سوال پوچھنا شروع کر دے ، ایسے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مت دیکھنا ، سمجھ گئے نا ؟ نظریں نیچی رکھو اور آگے سے زبان درازی مت کرو۔ اپنی حرکات کے جواز پیش کرنے پر وہ ناراض ہوتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں ۔ آئندہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ تم کسی معذور کا مذاق اڑا رہے ہو تو ان سے معذرت کرو ۔ آگے سے جواز پیش مت کرو۔ مجھے ، تمہیں ضمانت پر رہا کروانا اس جیسا نہیں لگتا جیسے میں تمہیں ہسپتال لے کر جا رہا ہوں ۔
یہ ٹھیک ہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات ، معصوم ہونے پر بھی دوسرے کو الزام تراشی کرنے دینا خود کو چُوتیا ظاہر کرنے کے مترادف ہوتا ہے لیکن آپ کر ہی کیا سکتے ہیں ۔ یہاں قوانین ہیں ۔ قوانین جن کا احترام کرنا ضروری ہے ۔ بعض اوقات ظاہری حالات بندے کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ لوگوں کو سچائی باور کرا سکے ۔ جب کبھی ایسا ہو ، اپنے عزت نفس کو اندر ہی دبا لو اوراس وقت کا انتظار کرو جب تک چیزیں نتھر کر سامنے نہ آ جائیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی آنکھوں سے گستاخ چمک کو نکال باہر کرو۔ ۔ ۔ اسی نے تمہیں مشکل میں ڈالا ۔ سٹیشن میں انہوں نے بھی بالکل یہی کہا تھا ؛ ” باغیانہ رویہ ۔ یہ’ اتھارٹی ‘ کا مذاق اور تضحیک ہے چاہے آپ رنگے ہاتھوں ہی کیوں نہ پکڑے گئے ہوں ۔“
تم نے انہیں ایسا کیا کہا تھا ؟ یہ اہم نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ، جب تم ہنسے تو تمہیں پتہ تھا کہ تم کیوں ہنس رہے تھے ۔ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ ایسا کرنا اور کہنا ہی نامناسب ہوتا ہے ، چاہے یہ سچ ہی کیوں نہ ہو ۔ چاہے تمہارے پاس گواہ ہی کیوں نہ ہو یا سب کچھ ٹیپ پر ریکارڈ ہی کیوں نہ ہو ۔ میں تم سے بہت زیادہ کی توقع نہیں کر رہا ، یا ایسا ہے کیا ؟ اپنا سر جھکائے خاموشی سے پاس سے گزر جاﺅ ، کوئی فساد کھڑا مت کرو ، یوں تم اپنے دانت سلامت رکھتے ہوئے بیس کے ہو جاﺅ گے ۔ ’ اتھارٹیوں‘ پر گھورنے کا بھی بھلا کوئی تُک ہے کیا ، میں تم سے پوچھتا ہوں ؟ حوالات میں دس گھنٹے گزارنے کی کیا ضرورت ہے ، اور اگر تم اَڑی کرو تو مزید تضحیک برداشت کرنے کا کیا فائدہ ؟ تم انہیں مار نہیں سکتے ؛ اور یہ بھی کہ تم ابھی نابالغ ہو ۔ آپس کی بات ہے کہ میں ، تمہارے دوست کریم کے بارے میں کچھ زیادہ خوش فہم اور پر جوش نہیں ہوں کیونکہ اس نے ، اس وقت تمہارا ساتھ نہیں دیا تھا جب تم سکول میں پولیس والوں کو وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ٹھیک ہے ، کہ اس کے پاس کچھ زیادہ وجوہات تھیں کہ وہ خود کو دھیما رکھے اور بڑھ چڑھ کر سامنے نہ آئے ۔ میں اسے مکمل طور پر قصوروار نہیں ٹہراتا لیکن اگر اس نے وقوعے کے بارے میں تمہارے موقف کی تائید کی ہوتی تو ایسا ہوتا ہی نہ کہ تمہارے ہاتھ باندھے جاتے اور تمہاری ایڑیاں ٹھنڈے پسینے میں بھیگتیں ۔ جب وہ تمہیں گھسیٹ رہے تھے تو کیا وہ ایسا سختی کے ساتھ کر رہے تھے ، کیا ایسا تھا ؟ اگر تم مزاحمت کرتے تو وہ تم سے درشتی سے بھی پیش آسکتے تھے ۔ تب تمہارے الفاظ ان کے مقابلے میں ’ پَنک ۔ ایس‘ جیسے گردانے جاتے اگر تم لگائے گئے الزامات پر زیادہ بولتے ۔
کم از کم ، اچھی بات یہ ہوئی کہ تم نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کی ۔ میں نے سنا تھا کہ ساتھ والے گھر سے انہوں نے ، آدھی رات کے وقت ، لڑکی کو بستر سے اٹھایا تھا اور ساتھ لے گئے تھے ۔ ۔ ۔ تم جانتے ہو اسے ، ہائی سکول کی لڑکی جو گلی میں سامنے والی عمارت میں پیانو سیکھتی ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ اس نے کلاس میں ، سب کے سامنے ، ایک لڑکے کو تھپڑ جَڑ دی اتھا ۔ اسے یہ تھپڑ پڑنا ہی چاہیے تھا کیونکہ اپنے گندے خیالات کی وجہ سے وہ دوسروں کو چھونے کا عادی تھا اور اس تھپڑ نے اسے غصے سے لا ل پیلا کر دیا تھا ؛ معاملہ خراب ہو گیا تھا چنانچہ لڑکی وہاں سے بھاگ گئی ۔ وہ کافی دور تک اس کے پیچھے دوڑا ! میرا اندازہ ہے کہ اس لڑکی کی انگلیوں میں موسیقی بجانے کی صلاحیت کے علاوہ اور بھی کچھ تھا ۔ لگتا ہے کہ ہجوم میں اس جھگڑے ، جس کا کوئی تُک نہ تھا ، کو کھڑا کرنے میں لڑکی ہی قصوروار تھی ۔ تھپڑ ہی تھا جسے مانا گیا اور قانون نافذ کرنے اور امن عامہ برقرار رکھنے والے اداروں نے اسے گھر سے جا کر اٹھا لیا ۔ تم نے اچھا کیا کہ مزاحمت نہ کی ۔ بہرحال تمہیں مستقبل میں اس سے بھی زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا ۔ تمہارا مستقبل ٹھیک یہیں ہی ہے نہ کہ خلاء میں ! مجھے معلوم ہے کہ تم جواب میں یہی کہو گے کہ تمہاری کتابوں میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہوا لیکن بسا اوقات مجھے شک ہی رہتا ہے ۔
تمہیں بچوں سی حرکتیں کرنا چھوڑنا ہو گا ۔ تمہیں اپنے پاﺅں زمین پر واپس لگانا ہوں گے ورنہ تمہارا ٹھکانہ جیل یا کم سِنوں کا کوئی نگہداشتی گھر ہو گا ۔ جہاں وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ہم ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں ؟ ایسا نہیں ہونے والا بھئی ۔ اس کام میں کوئی منافع نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو یہ بہت طویل المعیاد معاملہ ہے جس کے لئے کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا ۔ دنیا کے ہر ملک کو اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا تاکہ کوئی شے زمین چھوڑ کر اوپر جا سکے اور یہ نہیں ہو پائے گا ۔ مجھ پر یقین رکھو ۔ ۔ ۔ ایک ایسی عالمی حکومت کا خیال عبث ہے جس کے زیر سایہ سب کے حقوق برابر ہوں ، ہر ایک کے لئے ایک سے قوانین ہوں اور ہر طرف برابری چھائی ہو ؟ یہ اچھی بات ہے کہ اس طرح کی احمقانہ کہانیاں اب گھٹتی جا رہی ہیں ۔ سائنس فکشن مر چکی ہے ۔ حال سے مسابقت ہی کو کسی ایسے مستقبل پر اولیت حاصل ہے ، جس نے کبھی بھی حقیقت نہیں بننا ۔ افق پر ، ہر طرف ، ' حال ' ہی چھایا ہوا ہے ۔ کسی اور جانب دیکھنا خطرے سے خالی نہیں ۔ یوں ہم توازن کھو بیٹھیں گے ۔ ہماری دنیا بس یہیں ہے ۔ یہ زیادہ خوبصورت نہیں ہے ؛ میری اِچھا ہے کہ میں تمہیں اس سے کچھ زیادہ بہتر دنیا دکھا سکتا ، لیکن میرے پاس یہی کچھ ہی تو ہے ۔ اس لئے اسے اچھی طرح دیکھو اور اسے غور سے سنو ؛ کیا تم اپنے گرد پھیلی حقیقت کو محسوس نہیں کر سکتے ؟ کیا تم اس کے ٹھوس وجود کا احساس نہیں کر سکتے ؟ کیا تم نہیں جان سکتے کہ یہ کنکریٹ جیسی ہے ؟ کیا تمہیں اس کا ساز سنائی نہیں دیتا ؟ کیا تمہیں اس کی لَے اوردھڑکن محسوس نہیں ہوتی ؟ مجھے بتاﺅ کہ تم اسے سن سکتے ہو، ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ جوتوں کی آواز؟ اپنے خوابوں کو بھول جاﺅ ، کہ اب یہی تمہاری دنیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قیاسی فلیش فکشن پہلی بار ’ Asphyxie‘ کے نام سے ’ When I Woke It Was Noon ‘ میں 2012 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کہانی کو سمجھنے کے لئے فرانس میں ’ چارلی ہیبڈو شوٹنگ ‘ ( فرانسیسی طنزیہ جریدے کے دفتر پر جنوری 2015 ءمیں ہوا حملہ ) ، پیرس بومنگز ( نومبر 2015 ء کی دہشت گرد کارروائیاں) ، کاروں کی لوگوں پر چڑھائی ( فرانس اور یورپ میں وقوع پذیر ہوئے مختلف واقعات) اور بریکسٹ ( Brexit یعنی برطانیہ کا EU سے نکلنا ) کو مد نظر رکھنا ہو گا ۔
کلاڈ ایکن ( Claude Ecken) فرانسیسی ادیب ہے ۔ وہ 1954 ء میں پیدا ہوا ۔ سائنس فِکشن اس کا خاصا رہا ہے ۔ درجنوں ناول ، ناولٹ اور مائکرو ناولٹ لکھ چکا ہے ۔ اب وہ قیاسی ( speculative ) فکشن لکھنے میں ایک قدآور شخصیت ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔